Skip to content

Makki Zindagi

تفہیم القرآن

جلد سوم

سورۂ الکہف تا سورۂ الروم

پہلا حصہ : سورۂ کہف تا سورۂ نور

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

فہرست

۱۸۔ کہف…. ۳

۱۹۔ مریم. ۳۷

۲۰۔ طٰہٰ ۶۰

۲۱۔ الْانبیاء ۱۰۷

۲۲۔ الحج.. ۱۴۷

۲۳۔ الْمؤمنون.. ۱۹۷

۲۴۔ النور. ۲۳۸

۱۸۔ سورۂ کہف

نام

اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔

زمانۂ نزول

 یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکہ زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک،  اِستہزاء،  اعتراضات، الزامات،  تخویف، اِطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم،  مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے،  یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں—— ابو طالب اور اُم المومنین حضرت خدیجہؓ—– ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔

سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی بھی، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تا کہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں۔

موضوع اور مضمون

یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے ؟[1]اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ اُن کے اپنے پُوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی:

۱)۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے،  اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ و اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پرتن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اُٹھایا اُسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔

۲)۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں۔

۳)۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں در اصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ کیا ہو گیا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اُٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے،  آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔

۴ )۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو،  حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہو گی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔

اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو اّنہی پر پوری طرح اُلٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں،  یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حجور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہو گی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔۱ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔۲ اِس بات کا نہ اُنھیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔۳ بڑی بات ہے جو ان کے مُنہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ اچھا، تو اے محمدؐ،  شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔۴ آخرِ کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔۵ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار ۶ اور کتبے ۷ والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟۸ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’’اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درُست کر دے،‘‘  تو ہم نے اُنھیں اُسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلا دیا،پھر ہم نے اُنھیں اُٹھایا تاکہ دیکھیں اُن کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مُدّتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ ؏ ۱

۱- یعنی نہ اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے،  اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو۔

۲- یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکین عرب بھی۔

۳- یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیا ہے، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنیٰ بنانے کا علم ہے، بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب العالمین کی جناب میں ان سے سر زد ہو رہی ہے۔

۴- یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ‘‘۔ (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ )۔

اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کا م صرف بشارت اور انذار ہے، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے بُرے انجام سے متنبہ کر دو۔

۵- پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کا روئے سخن کفار کی جانب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سرو سامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتا ہے، اور کون اپنے اصل مقام (بندگی رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساط عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی۔

۶- عربی زبان میں ’’ کہف‘‘  وسیع غار کو کہتے ہیں اور ’’غار‘‘  کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اُردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے۔

۷- الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ اَیلہ (یعنی عَقَبہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘  میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب ۱۸۔ آیت ۲۷) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نَبطْیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوداہ اور اَدُومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹۴۶ ء جلد ۱۷۔ص ۶۵۸)۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔

۸- یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے،  جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہر گز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔

ہم اِن کا اصل قصہ تم کو سُناتے ہیں۔۹ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔۱۰ ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبُوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ’’ ہمارا ربّ تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔‘‘   (پھر انہوں نے آپس میں ایک دُوسرے سے کہا) ’’ یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دُوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبُود، ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھُوٹ باندھے؟اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔۱۱ تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے  ورست یوسف تا ف تا رعدفرعون کوا لیے  سر و سامان مہیّا کر دے گا۔‘‘  تم انہیں غار میں دیکھتے ۱۲ تو تمہیں یُوں نظر آتا کہ سُورج جب نِکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔۱۳ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مُرشد نہیں پا سکتے۔ ؏ ۲

۹- اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ’’ تاریخ زوال و سقوط دولت روم‘‘  کے باب ۳۳ میں ’’سات سونے والوں‘‘  (Seven Sleepers) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس (Decius) تھا جس نے ۲۴۹ ء سے ۲۵۱ ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گبن اس کا نام اِفِسُس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ترکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے ۲۰-۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ۴۳)۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈوسیس (Theodosious) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ۴۰۸ ء سے ۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ ء یا ۴۴۶ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶ سال بنتی ہے۔

بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے۔

اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’جہالت‘‘  کا الزام لگایا ہے، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس سے کسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخر میں درج ہے)۔

۱۰- یعنی جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کر لیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں۔

۱۱- جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفِسُس ایشیائے کوچک میں بُت پرسی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نویس دنیا بھی میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus۔ شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے، جو اگلے رکوع میں آ رہا ہے، کہ ’’اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔‘‘

۱۲- بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرار داد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں۔

۱۳- یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے۔

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے۔۱۴ اور ان کا کُتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔۱۵ اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اُٹھا بٹھایا ۱۶ تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا ’’کہو، کتنی دیر اس حال میں رہے؟‘‘  دُوسروں نے کہا ’’شاید دن پھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے۔‘‘  پھر وہ بولے ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حال میں گزرا۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سِکّہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اِس طرح ہم نے اہلِ شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا ۱۷ تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی۔۱۸ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحابِ کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’اِن پر ایک دیوار چُن دو، اِن کا ربّ ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے۔۱۹‘‘  مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے ۲۰ اُنہوں نے کہا ’’ہم تو اِن پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔‘‘ ۲۱ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کُتّا تھا۔ اور کچھ دُوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کُتّا تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کُتّا تھا۔۲۲ کہو، میرا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پُوچھو۔۲۳ ؏ ۳

۱۴- یعنی اگر باہر سے کوئی جھانک کر دیکھتا بھی تو ان سات آدمیوں کے وقتاً فوقتاً کروٹیں لیتے رہنے کی وجہ سے وہ یہی گمان کرتا کہ یہ بس یونہی لیٹے ہوئے ہیں، سوئے ہوئے نہیں ہیں۔

۱۵- یعنی پہاڑوں کے اندر ایک اندھیرے غار میں چند آدمیوں کا اس طرح موجود ہونا اور آگے کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا کہ جھانکنے والے ان کو ڈاکو سمجھ کر بھاگ جاتے تھے، اور یہ ایک بڑا سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کے حال پر اتنی مدت تک پردہ پڑا رہا۔ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوئی کہ اندر جا کر کبھی اصل معاملے سے با خبر ہوتا۔

۱۶- یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا۔

اگر کہیں اُن لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبر دستی ہمیں اپنی مِلّت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا  سکیں گے‘‘۔۔۔۔

۱۷- یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان تہذیب، تمدن، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج، لباس، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دُکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی رو سے دُکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی۔

۱۸- سُریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالمِ آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقتور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اُفسُس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صَدوقی کہا جاتا تھا) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو متی باب ۲۲۔ آیت ۲۳۔ مرقس باب ۱۲۔ آیت ۱۸۔ ۲۷۔ لوقا باب ۲۰۔ آیت ۲۷۔۴۰) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔

۱۹- فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کے رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں۔

۲۰- اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ۴۳۱ ء میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریمؑ کے ’’مادر خدا ‘‘  ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔

۲۱- مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس اس آیت بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھیرا کر مقابِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں:

لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسُرُج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔

 ’’اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔‘‘ 

اَلاوان من کان قبلکم کا نو ا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم)

 ’’خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔‘‘ 

لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم،  نَسائی)

 ’’اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘ 

اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد،  بخاری، مسلم، نسائی)

 ’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟

اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی اس فائدہ نہیں کہ ۱۸۳۴ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundell) نے ’’ایشیائے کوچک کے اکتشافات‘‘  (Discoveries in Asia Minor) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’سات لڑکوں ‘‘  (یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔

۲۲- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا کہ جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبتہً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے، اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی۔

۲۳- مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس ’’عادتِ جاریہ‘‘  کو لوگ ’’قانون فطرت‘‘  سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ در حقیقت اس کا پابند نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے، اور اس کی عمر، شکل، صورت، لباس، تندرستی، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں۔ اصحاب کہف کا جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کر دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں۔ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے، اور ان کے نام کیا کیا تھے، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے۔

اور دیکھو،کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔ (تم کچھ نہیں کر سکتے) اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھُولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے ربّ کو یاد کرو اور کہو ’’اُمید ہے کہ میرا ربّ اِس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔۲۴‘‘۔۔۔۔اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔۲۵ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور ز مین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا! زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبیؐ ۲۶، تمہارے ربّ کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جُوں کا تُوں) سُنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّ و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔۲۷ اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟۲۸ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ۲۹ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔۳۰ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے،  اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔۳۱ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔۳۲ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا ۳۳ اور ان کا منہ بھُون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ! رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے،۳۴ باریک ریشم اور اطلس و دیَبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں ۳۵ پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام! ؏ ۴

۲۴- یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو پچھلی آیت کے مضمون کی مناسبت سے سلسلۂ کلام کے بیچ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ پچھلی آیت میں ہدایت کی گئی تھی کہ اصحاب کہف کی تعداد کا صحیح علم اللہ کو ہے اور اس کی تحقیق کرنا ایک غیر ضروری کام ہے، لہٰذا خواہ مخواہ ایک غیر ضروری بات کی کھوج میں لگنے سے پرہیز کرو۔ اور اس پر کسی سے بحث بھی نہ کرو۔ اس سلسلہ میں آگے کی بات ارشاد فرمانے سے پہلے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور ہدایت بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو دی گئی اور وہ یہ کہ تم کبھی دعوے سے یہ نہ کہہ دینا کہ میں کل فلاں کام کر دوں گا۔ تم کو کیا خبر کہ تم وہ کام کر سکو گے یا نہیں۔ نہ تمہیں غیب کا علم، اور نہ تم اپنے افعال میں ایسے خود مختار ہو کہ جو کچھ چاہے کر سکو۔ اس لیے اگر کبھی بے خیالی میں ایسی بات زبان سے نکل بھی جائے تو فوراً متنبہ ہو کر اللہ کو یاد کرو اور ان شاء اللہ کہہ دیا کرو۔ مزید برآں تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس کام کے کرنے کو تم کہہ رہے ہو، آیا اس میں خیر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ امید ہے میرا رب اس معاملے میں صحیح بات، یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔

۲۵- اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ ’’ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔

۲۶- اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے۔

۲۷- اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بت مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو: وَ اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۔ ’’ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔

۲۸- ابن عباس کی روایت کے مطابق، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلالؓ اور صہیبؓ اور عَمَّارؓ اور خَبّابؓ اور ابن مسعودؓ جیسے غریب لوگ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر سنانا در اصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت، جس پر تم پھول رہے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں اخلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا۔ وہ حضرت نوحؑ سے کہتے تھے وَمَا نَرٰ کَ اتَّبَعَکَ اِ لَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ۔ ’’ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘  اور حضرت نوحؑ کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا،  ’’ میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا ‘‘،  اور ولَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْ دَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً،  ’’ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے۔‘‘  (ہود آیات ۲۷-۲۹-۳۱۔ نیز سورہ اَنعام،  آیت ۵۲۔ اور سورہ الحجر، آیت ۸۸)

۲۹- یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘  کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

۳۰- کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے۔‘ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود نا آشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود نا آشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے اسی میں مُطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔

۳۱- یہاں پہنچ کر صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ سنانے کے بعد یہ فقرے کس مناسبت سے ارشاد ہوئے ہیں۔ اصحاب کہف کے جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا تھا کہ توحید پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے کس طرح اُٹھ کر دو ٹوک بات کہہ دی کہ ’’ ہمارا رب تو بس وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘‘۔ اور پھر کس طرح وہ اپنی گمراہ قوم سے کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ’’ ہم اس کے سوا کسی دوسرے الہٰ کو نہ پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو بڑی بے جا بات کریں گے ‘‘۔ اور کس طرح انہوں نے اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ کر بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی سر و سامان کے ایک غار میں جا پڑنا قبول کر لیا، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ حق سے بال برابر بھی ہٹ کر اپنی قوم سے مصالحت کر لیتے۔ پھر جب وہ بیدار ہوئے تب بھی انہیں فکر ہوئی تو اس بات کی کہ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم ہم کو اپنی ملت کی طرف پھیر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنانا در اصل مخالفین اسلام کو مقصود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اِن مشرکین اور منکرین حق سے مصالحت قطعاً خارج از بحث ہے۔ جو حق خدا کی طرف سے آیا ہے اسے بے کم و کاست ان کے سامنے پیش کر دو۔ مانتے ہیں تو مانیں، نہیں مانتے تو خود بُرا انجام دیکھیں گے۔ جنہوں نے مان لیا ہے، خواہ وہ کم سن نوجوان ہوں، یا بے مال و زر فقیر، یا غلام اور مزدور، بہر حال وہی قیمتی جواہر ہیں، انہی کو یہاں عزیز رکھا جائے گا، اور ان کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں کی کچھ پروا نہ کی جائے گی جو دنیا کی شان و شوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں مگر ہیں خدا سے غافل اور اپنے نفس کے بندے۔

۳۲- سرادق کے اصل معنی ہیں قناتیں اور سرا پردے جو کسی خیمہ گاہ کے گرد لگائے جاتے ہیں لیکن جہنم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ سرادق سے مراد اس کے وہ بیرونی حدود ہیں جہاں تک اس کی لپیٹیں پہنچیں اور اس کی حرارت کا اثر ہو۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اس کے سرادق نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ‘‘۔ بعض لوگوں نے اس کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے، یعنی وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عالم آخرت میں جہنم کے سرا پردے ان کو گھیر لیں گے۔ لیکن ہم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حق سے منہ موڑنے والے ظالم یہیں سے جہنم کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

۳۳- لغت میں ’’مُہل‘‘  کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض اس کے معنی ’’تیل کی تلچھٹ‘‘  بتاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ ’’لاوے‘‘  کے معنی میں آتا ہے، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔

۳۴- قدیم زمانے میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے۔ اہل جنت کے لباس میں اس چیز کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ وہاں بادشاہوں کی سی شان و شوکت سے رہے گا۔

۳۵- ارائک جمع ہے اریکہ کی۔ اریکہ عربی زبان میں ایسے تخت کو کہتے ہیں جس پر چتر لگا ہوا ہو۔ اس سے بھی یہی تصور دلانا مقصود ہے کہ وہاں ہر جنتی تخت شاہی پر متمکن ہو گا۔

 

اے محمدؐ،  اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔۳۶ دو شخص تھے۔ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور اُن کے گرد کھجُور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خُوب پھلے پھُولے اور بار آور ہونے میں اُنہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ اُن باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ’’میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں۔‘‘  پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا ۳۷ اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی، اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے ربّ کے حضُور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اِس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔‘‘  ۳۸ اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اُس سے کہا ’’کیا تُو کُفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا؟ ۳۹ رہا میں،  تو میرا ربّ تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تُو اپنی جنّت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ، لاقوة اِلّا باللّٰہ؟ ۴۰ اگر تُو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا ربّ مجھے تیری جنّت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنّت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے،یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تُو اسے کسی طرح نہ نکال سکے۔ ‘‘ آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ مارا گیا اور اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا‘‘۔۔۔۔ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اُس کے پاس کوئی جتھا کہ اُس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ۔۔۔۔اُس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔؏۵

۳۶- اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آ کر نہیں بیٹھ سکتے، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آ کر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ نیز سورہ مریم، آیات ۷۳، ۷۴۔ سورہ المومنون،  آیات ۵۵ تا ۶۱۔ سورہ سبا،  آیات ۳۴ تا ۳۶، اور حٰمٰ سجدہ، آیات ۴۹-۵۰ پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔

۳۷- یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں۔

۳۸- یعنی اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے بھی تو میں وہاں اس سے بھی زیادہ خوش حال رہوں گا کیونکہ یہاں میرا خوشحال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا محبوب اور اس کا چہیتا ہوں۔

۳۹- اگر چہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ وَلَئینْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و قابلیت کا نتیجہ ہے، اور میری دولت لازوال ہے، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ حالانکہ ایمان باللہ اِسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے۔

۴۰- ’’ یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہو گا۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے۔‘‘

اور اے نبی ؐ،  اِنہیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۴۱ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے،۴۲ اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے،۴۳ اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے ) ایک بھی نہ چھُوٹے گا، ۴۴ اور سب کے سب تمہارے ربّ کے حضُور صف در صف پیش کیے جائیں گے۔۔۔۔ لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔۴۵ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔۔۔۔ اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اُس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو۔ جو جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا ربّ کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ ۴۶ ؏ ۶

۴۱- یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غَر ّے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔

۴۲- یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہوں گے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَا لَ تَحْسَبھَُا جَا مِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النحل۔ آیت ۸۸)۔ ’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ‘‘۔

۴۳- یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ ’’ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنا یا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی‘‘۔

۴۴- یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا۔

۴۵- یعنی اس وقت منکرین آخرت سے کہا جائے گا کہ دیکھو، انبیاء کی دی ہوئی خبر سچی ثابت ہوئی نا۔ وہ تمہیں بتاتے تھے کہ جس طرح اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے اسی طرح دو بارہ پیدا کرے گا، مگر تم اسے ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بتاؤ، اب دوبارہ تم پیدا ہو گئے یا نہیں؟

۴۶- یعنی ایسا ہر گز نہ ہو گا کہ کسی نے کوئی جرم نہ کیا ہو اور وہ خواہ مخواہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے، اور نہ یہی ہو گا کہ آدمی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دی جائے یا بیگناہ پکڑ کر سزا دے ڈالی جائے۔

 

یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔۴۷ وہ جِنّوں میں سے تھا اس لیے اپنے ربّ کے حکم کی اطاعت سے نِکل گیا۔۴۸ اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اُس کو اور اُس کی ذُرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دُشمن ہیں؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت اُن کو نہیں بُلایا تھا اور نہ خود اُن کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔۴۹ میرا یہ کام نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مدد گار بنایا کروں۔ پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا ربّ اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔۵۰ یہ اُن کو پکاریں گے، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ ۵۱ سارے مُجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ ؏ ۷

۴۷- اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔

۴۸- یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اس لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں: لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ (التحریم ۶) ’’اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔‘‘  وَھم لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ، یَخَافونَ رَبَّھُمْ مِنْ فَوْقِھمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموما ً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن،  آیات ۱۳-۱۵)۔

رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سے نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا؟‘‘  اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جاتی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳)

۴۹- مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین آخر تمہاری طاعت و بندگی کے مستحق کیسے بن گئے ؟ بندگی کا مستحق تو صرف خالق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ان شیاطین کا حال یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار، یہ تو خود مخلوق ہیں۔

۵۰- یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، قرآن ان سب کو یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، النساء حاشیہ ۹۱-۱۴۵۔ الانعام، حاشیہ ۶۷-۱۰۷۔ جلد دوم التوبہ، حاشیہ ۳۱۔ ابراہیم، حاشیہ ۲۳۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ ۲۷۔ المومنون، حاشیہ ۴۱۔ الفرقان، حاشیہ ۵۶۔ القصص، حاشیہ ۸۶ جلد چہارم، سَبَا، حاشیہ ۵۹-۶۰۔ ۶۱۔ ۶۲۔ ۶۳۔ یٰسین، حاشیہ ۵۳، الشوریٰ، حاشیہ ۳۸۔ لجاثیہ، حاشیہ ۳۰۔

۵۱- مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ‘‘۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔

 

ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے ربّ کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کو کس چیز نے روک دیا ؟ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! ۵۲ رسُولوں کو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دیں گے۔۵۳ مگر کافروں کا حال یہ ہےکہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہوں نے میری آیات کو اور اُن تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اُس کے ربّ کی آیات سُناکر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اُس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔ تم انھیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بُلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔ ۵۴ تیرا ربّ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتُوتوں پر انھیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ ۵۵ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ ۵۶ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔ ؏ ۸

۵۲- یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے، قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے مؤثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے، وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کئے جا چکے ہیں۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہو رہی ہے؟ صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے۔ جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے۔

۵۳- اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں چسپاں ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ رسولوں کو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے انجام سے خبر دار کریں۔ مگر یہ بے وقوف لوگ ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اسی انجام بد کو دیکھنے پر مصر ہیں جس سے رسول انہیں بچانا چاہتے ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو عذاب ہی دیکھنا منظور ہے تو پیغمبر سے اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ پیغمبر عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے پہلے صرف خبردار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

۵۴- یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکروفریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا، تو اللہ تعالیٰ پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے۔

۵۵- یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت کسی سے قصور سرزد ہو اسی وقت پکڑ کر اسے سزا دے ڈالے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ مجرموں کے پکڑنے میں وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور مدتوں ان کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے۔ مگر سخت نادان ہیں وہ لوگ جو اس ڈھیل کو غلط معنی میں لیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواہ کچھ ہی کرتے رہیں، ان سے کبھی باز پرس ہو گی ہی نہیں۔

۵۶- اشارہ ہے سبا اور ثمود ور مدین اور قوم لوط کے اجڑے دیاروں کی طرف جنہیں قریش کے لوگ اپنے تجارتی سروں میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے اور جن سے عرب کے دوسرے لوگ بھی خوب واقف تھے۔

 (ذرا ان کو وہ قصہ سُناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جب کہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔‘‘  ۵۷ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نِکل کر اس طرح دریامیں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا ’’لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں۔‘‘  خادم نے کہا ’’آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا ؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اسی کی تو ہمیں تلاش تھی۔‘‘  ۵۸ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقشِ قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں اُنہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ ۵۹ موسیٰؑ نے اُس سے کہا ’’ کیا میں آپ کی ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے،اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اُس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اِن شاء اللّٰہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔‘‘  اس نےکہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔‘‘  ؏ ۹

۵۷- اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک ہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم، بدکاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنُہ کو نہیں سمجھتے، ان سے عام طور پر ذہنوں میں اُلجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کارخانہ مشیت کا پردہ اُٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا۔ لیکن ابن عباسؓ سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سیِنا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰؑ ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہو گی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے (والعلم عند اللہ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدا یا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃ ً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ’’اے پروردگار، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے، اے پروردگار، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟‘‘  (تفہیم القرآن،  ج ۲ ص ۳۰۸ / سورۃ یونس، آیت ۸۸۔ )۔

اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۱ صفحہ ۳۴ ) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔

بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰؑ کے بجائے ربّی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. ۳۱۳-۱۶) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے،  نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔

مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستانِ گلِگامیش، دوسرے سکندر نامۂسرُیانی، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بدطینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل مِن اللہ تو نہیں ماننا ہے، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے :

اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جائے۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے؟ اور اعلانِ نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی آنحضرتؐ کی ایسی معلومات کا کوئی نشان آپؐ کی بات چیت میں نہ پائے جانے کی کیا معقول وجہ ہے؟

تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتا نہ چلنے کی کیا وجہ ہے؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار، شک ہی کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے؟

آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہر حال ہے نا کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟

ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’ علم‘‘  کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔

۵۸- یعنی منزل مقصود کا یہی نشان تو ہم کو بتایا گیا تھا۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور ان کو منزل مقصود کی علامت یہی بتائی گئی تھی کہ جہاں ان کے ناشتے کی مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام اس بندے کی ملاقات کا ہے جس سے ملنے کے لیے وہ بھیجے گئےتھے۔

۵۹- اس بندے کا نام تمام معتبر احادیث میں خضر بتایا گیا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اقوال کسی التفات کے مستحق نہیں ہیں جو اسرائیلی روایات سے متاثر ہو کر حضرت الیاس کی طرف اس قصے کو منسوب کرتے ہیں۔ ان کا یہ قول نہ صرف اس بنا پر غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے متصادم ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر بھی سراسر لغو ہے کہ حضرت الیاس حضرت موسیٰ کے کئی سو برس بعد پیدا ہوئے ہیں۔

حضرت موسیٰ کے خادم کا نام بھی قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ حضرت یوشع ؑ بن نون تھے جو بعد میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے۔

اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ آپ نے اِس میں شگاف ڈال دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔‘‘  اس نے کہا ’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ بھُول چُوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں۔‘‘  پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ اُن کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اُسے قتل کر ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ بہایا تھا؟ یہ کام تو آپ نے بہت ہی بُرا کیا۔‘‘  اُس نے کہا ’’میں تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے ’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔‘‘
پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گِرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے۔‘‘  اُس نے کہا ’’بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ۶۰
اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدُوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے،ہمیں اندیشہ ہو ا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کُفر سے اِن کو تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا ربّ اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلۂ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اِس دیوار کے نیچے اِن بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے ربّ کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے،  میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ‘‘   ؏ ۱۰

۶۰:  اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکرا تا،  مگر پہلے  دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتدائے عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہیہ میں ثابت رہے ہیں۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے،  اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے۔اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے،  فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کر تا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے،  اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ خود فرما چکا ہے کہ حضرت خضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے۔مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے،  کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت  رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے،  کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہیں ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہیہ کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے،  اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے،  بہر حال وہ گنہ گار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے،  احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔

یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علمائے شریعت متفق ہیں،  بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی،  مجدو الف ثانی، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، جنید بغدادی، سَریسقطی، ابوالحسین النوری، ابو سعید الخراز،  ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے  کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔(روح المعانی۔ج،۱۶۔ ص ۱۶۔ ۱۸ )

اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ  کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت (نہ کہ شریعت الہٰی کے تحت ) کام کرتے ہیں ؟

پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ ’’ بندہ‘‘  جسکے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے،  انسان تھا۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدً ا مَّنْ عِبَادِ نَا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں،  قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے،  مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء،  آیت ۲۶۔ اور سورہ زخرف، آیت ۱۹۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر،  عن ابن عباس،  عن اُبی بن کعب، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۂ حدیث کو پہچی ہیں۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے،  جو اگر چہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جِن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آئے گا تو انسانی شکل ہی میں آئے گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جائے گا۔ حضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآں اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَابَشَرً ا سَوِیًّا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا ‘‘  حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو فرد کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم ’’خضر‘‘  کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے،   یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

اور اے محمدؐ،  یہ لوگ تم سے ذُوالقرنین کے بارے میں پُوچھتے ہیں۔ ۶۱ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں۔ ۶۲ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا)سرو سامان کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا ۶۳ تو اس نے سُورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا ۶۴ اور وہاں اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا ’’ اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے۔‘‘  ۶۵ اس نے کہا، ’’ جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔‘‘  پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی)تیاری کی یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سُورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دھُوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ ۶۶ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔
پھر اس نے ( ایک اور مہم کا)سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ۶۷ تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سجھتی تھی۔ ۶۸ اُن لوگوں نے کہا کہ ’’اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج ۶۹ اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام لیے دیں کہ تُو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟‘‘  ان نےکہا ’’جو کچھ میرے ربّ نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔ ۷۰ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔‘‘  آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار)بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا ’’ لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔‘‘  (یہ بند ایسا تھا کہ)یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ذوالقرنین نے کہا ’’یہ میرے ربّ کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے ربّ کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، ۷۱ اور میرے ربّ کا وعدہ برحق ہے۔‘‘  ۷۲
اور اُس روز ۷۳ ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح )ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ اور وہ دن ہو گا جب ہم جہنّم کو کافروں کے سامنے لائیں گے،  اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سُننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ ؏ ۱۱

۶۱:  وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے۔ اس سے خودبخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے در اصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے۔

۶۲:  یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘  جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے،  کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا،  لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس(خسرو یا سائرس) کی طرف ہے،  اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے،  مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔

 قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں :

 ۱)۔ اس کا لقب ذو القرنین(لغوی معنی ’’دو سینگوں والا‘‘  ) کم از کم یہودیوں میں،  جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔

 ۲)۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں،  اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔

۳ )۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و  ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی در ے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہو گا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں،  اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔

 ۴)۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے،  کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور نبی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن سورہ نبی اسرائیل،  حاشیہ ۸ )

دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے،  مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کو چک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں،  مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے،  حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے،  تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے،  کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا(قفقاز) تک وسیع تھی۔

 تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو  تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت  نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہیں ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ’’ ذو القرنین‘‘  کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں،  لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دیتے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا  خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج ۵۴۹ ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ۵۳۹ ق، م  میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

۶۳:  غروب آفتاب کی حد سے مراد، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے : اقصٰی ما یسلک فیہ من الارض میں ناحیۃ المغرب ہے نہ کہ آفتاب غروب ہونے کی جگہ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔

۶۴:  یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اگر فی الواقع ذو القرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو گا جہاں بحرایجین چھوڑی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کے بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کے بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔

۶۵:  ضرور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات براہ راست وحی یا الہام کے ذریعہ ہی سے ذو القرنین کو خطاب کر کے  فرمائی ہو، حتیٰ کہ اس سے ذو القرنین کا نبی یا محدث ہونا لازم آئے۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حل کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے،  اور یہی قرین قیاس ہے۔ ذو القرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہوا تھا۔ مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہ۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،  اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔

۶۶: یعنی وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانت ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔

۶۷:  چونکہ آگے یہ ذکر آ رہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔

۶۸:  یعنی اس کی زبان ذو القرنین اور اس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی۔ سخت وحشی ہونے کے سبب سے نہ کوئی ان کی زبان سے واقف تھا اور نہ وہ کسی غیر زبان سے واقف تھے۔

۶۹:  یاجوج ماجوج سے مراد، جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۶۲ میں اشارہ کیا جا چکا ہے،  ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اُٹھ کر ایشیا اور یورپ، دونوں طرف رُخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (اب ۱۰) میں ان کو حضرت نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے،  اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب ۳۸و ۳۹) میں سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خَزَر کے قریب آباد تھے۔

۷۰:  یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں۔ اس ملک کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالیٰ نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہو گی۔

۷۱:  یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے،  مگر یہ لازوال نہیں ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے،  یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔ ’’وعدے کا وقت ‘‘  ذو معنی لفظ ہے۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے،  یعنی قیامت۔ (اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۔ ۲)

۷۲:  یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ اگر چہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے،  مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین،  جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے،  محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگے نیست۔

۷۳: یعنی قیامت کے روز۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

تو کیا ۷۴ یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ ۷۵ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے یے جہنّم تیار کر رکھی ہے۔
اے محمدؐ،  ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی ۷۶ اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ۷۷ ان کی جزا جہنّم ہے اُس کُفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات  اور میرے رسُولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس ۷۸ کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نِکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔ ۷۹ اے محمدؐ،  کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتیں ۸۰ لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ اے محمدؐ،  کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا اُمیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ؏ ۱۲

۷۴:  یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے،  اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورۃ کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے۔ سورۃ کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کو شرک  چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے۔مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے،  بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی، جنہوں نے یہ دعوت قبول کر لی تھی، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اور پر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورہ سے یہاں تک چلی آ رہی ہے،  اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی،  جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا۔ اب تقریر ختم کر تے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جا رہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع ۴ سے ۸ تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے۔

۷۵:  یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روشن ان کے لیے نافع ہو گی ؟

۷۶:  اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچ بھی کیا خدا سے بے نیاز اور اور آخرت سے بے فکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنا یا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔

۷۷:  یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں،  بہر حال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں،  اپنے  کار خانے اور معمل،  اپنی سڑکیں اور ریلیں،  اپنی ایجادیں اور صنعتیں،  اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں،  اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں،  ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سلیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب  کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔

۷۸:  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم،  المومنون،  حاشیہ ۱۰۔

۷۹:  یعنی اس حالت سے بہتر ور کوئی حالت ہو گی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو۔

۸۰:  ’’ باتوں ‘‘  سے مراد اس کے کام اور کمالات اور عجائبِ قدرت و حکمت ہیں۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان،  حاشیہ ۴۸۔

٭٭٭

۱۹۔ سورۂ مریم

نام

 اس سورت کا نام آیت  واذ کر فی الکتب مریم سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے۔

زمانہ نزول

 اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے  پہلے کاہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر نے یہی سورہ بھرے دربار میں تلاوت کی بھی۔

تاریخی پس منظر

جس دور میں یہ سورہ نازل ہوئی اس کے حالات کی طرف ہم کسی حد تک سورہ کہف کے دیباچے میں اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہ مختصر اشارہ اس سورے کو اور  دور کی دوسری سورتوں کو سمجھنے کے لیئے کافی نہیں ہے۔ اس لیئے ہم ذرا اس وقت کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

قریش کے  سردار جب تضحیک،  استہزاء اطماع تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر  سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ظلم و ستم،  مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کی ے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو تنگ پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر،  قید کر کے بھوک پیاس کی تکلیفیں دے کر،  حتی کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انہیں اسلام چھوڑ نے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور سوالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے،  بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلال،  عامر بن فہیرہ،  ام عبیس،  زنیرہ،  عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہ ہم،  ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا،  بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا،  مکے کی تپتی ہوئی ریت چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپا یا جاتا۔ جو لوگ پیشہ ور تھے ان اس کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ  صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ :

” میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا،  مجھ سے عاص بن دائل نے کام  لیا،  پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے “

اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کر بر باد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی ﷺ کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کی خدمت حاضر ہو کر عرض کیا ” یا رسول اللہ۔ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے۔ آپ خدا سے دعا فرماتے ؟ ” یہ سن کر آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا ” تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں،  ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے   نہ پھر تے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء  سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا،  مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو” (بخاری)۔

یہ حالات جب نا قابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ہجری عام الفیل (شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکالایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجام ما انتم فیہ۔

” اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے،  تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔”

اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا،  مگر خوش قسمتی سے شعیبہ کے بندر گاہ پر ان کو بر وقت حبش کے لیئے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۸۳ مرد گیارہ عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی ﷺ کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔

اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا،  کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد،  کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔  ابو جہل کے بھائی سلمہ بن ہشام،  اس کے چچا زاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ،  ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبیہ۔ عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خوار کے سگے بھائی ابو حذیفہ۔ سہل بن عمرد کی بیٹی سلہلہ۔ اور اسی طرح دوسرے سردار قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لیئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پلے سے زیادہ سخت ہو گئے۔ اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ  کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار لیلی بنت حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لیئے اپنا سامان باندھ رہی تھی،  اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر ؓ  آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت کو دیکھتے رہے کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ”عبد اللہ کی ماں،  جار ہی ہو” ؟ میں نے کہا ” ہاں خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں ستا یا۔ خدا کی زمین کھلی پڑی ہے،  اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں خدا ہمیں چین دے ” یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہ کر نکل گئے کہ ” خدا تمہارے ساتھ ہو”۔

ہجرت کے  بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی ) اور عمر و بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش جائے اور یہ لوگ کیس نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہا جرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں ) یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیان سلطنت میں خود ہدیہ تقسیم کر کے سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لیئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا ” ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں قوم کے اشرف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کو درخواست کرنے کے لیئے بھیجا ہے۔ یہ لڑ کے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا نکال لیا ہے ” ان کا کالم ختم ہوتے ہی اہل در بار ہر طرف سے بولنے لگے کہ ” ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے،  ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ ” اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لیئے  آئے ان سے میں بے وفائی نہیں کر سکتا پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے  ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ” چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ ” یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑ اور میرے دین داخل نہ ہوئے،  نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا ؟  آخر یہ تمہارا نیا دین ہے کیا ”؟ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک بر جستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی،  اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی بیان کیا،  پھر نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر کر کے بتا یا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں،  پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے،  اور کلام اس بات پر ختم کیا دوسرے ملکوں کے بجائے ہم ے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم کہتے وہ کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے۔حضرت جعفر نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنا یا جو حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما اسلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی تر ہو گئی جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا  کہ ” یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسی لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا “۔

 دوسرے روز عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ ” ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھے کہ عیسی بن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں ” نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے سے عمر ذکی کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی ؑ کے بارے میں سوال کیا تو جواب دو گے ؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی۔چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمر دین العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلاتا مل کہا کہ ” ھو عبداللہ و رسولہ و رحہ کلمتہ القاھا الی مریم الاعزراء البتول۔وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا ” نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھا یا اور کہا ” خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسی اس سے تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔” اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے  یہ کہ کر واپس کر دیے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔

موضوع اور مضمون

اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورے کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولیں بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگر چہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزیں گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے  تھے،  مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالی نے ان کو دین کے معاملے میں ذرہ برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی،  بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورہ ان کے ساتھ کی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں عیسی ؑ کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور انکے ابن اللہ ہونے  کا صاف صاف انکار کر دیں۔

پہلے دو رکوعوں میں یحیی اور عیسی کا قصہ سنا نے کے بعد پھرتی سے رکوع میں حالات زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم ؑ کا قصہ سنا یا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم ؑ کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو جنہوں نے تمہارے باپ اور پیشواؤ ابراہیم ؑ کو گھر سے نکالا تھا۔ دوسری طرف مہاجرین کوک یہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم ؑ وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہو گئے ایسا ہی انجام نیک تمہارا انتظار کر رہا ہے۔

اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاء ؑ وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد ﷺ لائے ہیں،  مگر انبیاء کے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔

آخر دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنا یا گیا ہے کہ دشمنان حق کی سار ی کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ک، ہ، ی، ع، ص۔ ذکر ہے ۱ اُس رحمت کا جو تیرے ربّ نے اپنے بندے زکریا ۲ پر کی تھی، جبکہ اُس نے اپنے ربّ کو چُپکے چُپکے پُکارا۔اُس نے عرض کیا ’’ اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گھُل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اُٹھا ہے۔ اے پروردگار،  میں کبھی تجھ سے دُعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ۳،  اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوبؑ  کی میراث بھی پائے، ۴ اور اے پروردگار، اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔‘‘  (جواب دیا گیا) ’’ اے زکریا، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ ہم نے اِس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔‘‘  ۵ عرض کیا ’’پروردگار،  بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سُوکھ چکا ہوں؟‘‘  جواب مِلا ’’ایسا ہی ہو گا۔ تیرا ربّ فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔‘‘  ۶ زکریا نے کہا، ’’پروردگار،  میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔‘‘  فرمایا ’’ تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تُو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے۔ ‘‘  چنانچہ وہ محراب ۷ سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ ۸ ’’اے یحییٰ، کتابِ الہٰی کو مضبُوط تھام لے۔‘‘  ۹ ہم نے اسے بچپن ہی میں ’’حکم‘‘  ۱۰ سے نوازا، اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی ۱۱ اور پاکیزہ عطا کی، اور وہ بڑا پرہیز گار اور اپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ جبّار نہ تھا اور نہ فرمان۔ سلام اُس پر جس روز  کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اُٹھا یا جائے۔ ۱۲ ؏ ١

۱:  تقابل کے لئے سورہ آل عمران رکوع ۴ پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے۔ تفہیم القران ج ۱۔ص ۲۴۶۔ ۲۵۰)

۲:  یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے  حضرت ہارون کے خاندان سے تھے۔ ان کو پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Priesthood ) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے ۱۲قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کر دیا گیا،  اور تیرھواں قبیلہ (یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا ) مذہبی خدمات کے لئے مخصوص  رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت ‘ اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام ” کرتا تھا، حضرت ہارون کا خاندان تھا۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے،  اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لئے حاضر ہوتے۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول۔ باب ۲۳(۲۴)

۳:  مطلب یہ کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے جو اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں۔

۴: یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادۂ یعقوب  کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے۔

۵: لوقا کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں: ’’تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں‘‘ (۱:۶۱)۔

۶: حضرت زکریا کے اس سوال اور فرشتے کے جواب کو نگاہ میں رکھیے،  کیونکہ آگے چل کر حضرت مریم کے قصّے میں پھر یہی مضمون آ رہا ہے اور اس کا جو مفہُوم یہاں ہے وہی وہاں بھی ہونا چاہیے۔ حضرت زکریا نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے،  میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے۔ فرشتے نے جواب دیا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘،   یعنی تیرے  بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تیرے ہاں لڑکا ہو گا۔ اور پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا حوالہ دیا کہ جس خدا نے تجھے نیست سے ہست کیا اُس کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ تجھ جیسے شیخ فانی سے ایک ایسی عورت کے ہاں اولاد پیدا کر دے جو عمر بھر بانجھ رہی ہے۔

۷: محراب کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل،  آلِ عمران، حاشیہ ۳۶۔

۸: اس واقعے کی جو تفصیلات لوقا کی انجیل میں بیان ہوئی ہیں انہیں ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے قرآن کی روایت کے ساتھ مسیحی روایت بھی رہے۔ درمیان میں قوسین کی عبارتیں ہماری اپنی ہیں:

 ’’یہودیہ کے بادشاہ ہیرو دیس کے زمانے میں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم،  بنی اسرائیل، حاشیہ ۹) ابیاہ کے فریق سے زکریا ہ نام کا ایک کاہن تھا  اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع (Elizabeth ) تھا۔ اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز  اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ ا لیشبع بانجھ تھی اور وہ دونوں عمر رسیدہ تھے۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مَقدِس میں جا کر خوشبو جلائے۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دعا  کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا۔ اور زکریا دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی۔ مگر فرشتے نے اس سے کہا اے زکریا! خوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا  سُن لی گئی (حضرت زکریا کی دُعا کا ذکر بائیبل میں کہیں نہیں ہے) اور تیرے لیے تیری بیوہ الیشبع کے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام یوحنّا ( یعنی یحییٰ) رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ  ہو گا (سورۂ آلِ عمران میں اس کے لیے لفظ  سَیِّدًا  استعمال ہوا ہے ) اور ہرگز نہ مَے اور نہ کوئی شراب پیے گا (تَقِیًّا) اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس ے بھر جائے گا ( واٰ تَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو اُن کا خدا ہے پھیرے گا۔ اور وہ ایلیاہ (الیاس علیہ السّلام) کی روح اور قوت میں اس کے آگے اگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں  کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیے ایک مستند قوم تیار کرے‘‘۔ ’’

زکریا نے فرشتے سے کہا کہ میں اس بات کو کس طرح جانوں؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔ فرشتے نے اس سے کہا میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا۔ (یہ بیان قرآن سے مختلف ہے۔ قرآن اسے نشانی قرار دیتا ہے اور لوقا کی روایت اسے سزا کہتی ہے۔ نیز قرآن صرف تین دن کی خاموشی کا ذکر کرتا ہے اور لوقا کہتا ہے کہ اس وقت سے حضرت یحییٰ کی پیدائش تک حضرت زکریا گونگے رہے) اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بو ل نہ سکا۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ‘‘۔

۹: بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمانِ الہٰی کے مطابق حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام اُن سے لیا گیا۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔

۱۰: ’’حکم‘‘  یعنی قوتِ فیصلہ، قوتِ اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت،  اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار۔

۱۱: اصل میں لفظ حَنَان استعمال ہوا ہے جو قریب قریب مامتا کا ہم معنی ہے۔ یعنی ایک ماں کو جو غایت درجے کی شفقت اپنی اولاد پر ہوتی ہے،  جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتی ہے،  وہ شفقت حضرت یحییٰ کے دل میں بندگانِ خدا کے لیے پیدا کی گئی تھی۔

۱۲: حضرت یحییٰ کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں جس سے سُورۂ آلِ عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی۔

               لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحییٰ،  حضرت عیسیٰ سے ۶ مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسیٰ کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرقِ اُرْدُن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ وہ کہتے تھے:

’’میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو‘‘۔ (یوحنا ۲۳: ۱)

 مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے، یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ  روح اور جسم دونوں پاک ہو جائیں۔ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے ( مرقس ۴:۱-۵)۔ اسی بنا پر ان کا نام بپتسمہ دینے والا( John The Baptist ) مشہور ہو گیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے (متی ۲۶:۲۱) مسیح علیہ السّلام کا قول تھا کہ ’’ جو عورتوں سے پیدا  ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔‘‘  (متی ۱۱:۱۱)

وہ اونٹ کے بالوں کو پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا  (متی ۴:۳)۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ ’’توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آ  گئی ہے‘‘  (متی ۲:۳) یعنی مسیح علیہ السّلام کی دعوتِ نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ’’ارہاص‘‘  کہا جاتا ہے،  اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مُصَدِّ قًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ (آلِ عمران ۴)۔

 وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے (متی ۱۴:۹ – لوقا ۳۳:۵ – لوقا ۱:۱۱)۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ ’’جس کے پا س دو کرتے ہوں وہ اُس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ ‘‘  محصول لینے والوں نے پوچھا کہ اُستاد،  ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا ’’ جو تمہارے لیے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔‘‘  سپاہیوں نے پوچھا  ہمارے لیے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا ’’ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ نا حق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو‘‘  (لوقا ۳:۱۰ – ۱۴)۔

 بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء، فریسی اور صَدُوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا ’’ اے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟۔۔۔۔۔۔ اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہام ہمارا باپ ہے۔۔۔۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا ہو کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے‘‘ (متی ۷:۳ – ۱۰)۔

 ان کے عہد کا یہودی فرمانروا،  ہیرو د اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوتِ حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سر تا پا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فِلپ کی بیوی ہیرودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اس پر ہیرود کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اس جرم میں ہیرود نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر  ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں ان کے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرودیاس یہ سمجھتی تھی کہ  یحییٰ علیہ السّلام جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اُس جیسی عورتوں کو ذلیل کیے دے رہی ہے۔ اس لیے وہ ان کی جان کے درپے ہو گئی۔ آخر کار ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پا لیا کہ جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرود نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا کہ یحیی ٰ کا سر مانگ لے۔ چنانچہ اس نے ہیرود کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر  ابھی منگوا دیجیے۔ ہیرود یہ سُن کر بہت غمگین ہوا،  مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس نے فوراً قید خانے سے یحییٰ علیہ السّلام کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھا ل میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا (متی ۳:۱۴ – ۱۲۔ مرقس ۱۷:۶ – ۲۹۔ لوقا ۱۹:۳ – ۲۰)۔

اور اے محمدؐ،  اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، ۱۳ جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھُپ بیٹھی تھی۔ ۱۴ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی رُوح کو (یعنی فرشتے کو)بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا۔ مریم یکایک بول اُٹھی کہ ’’ اگر تُو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘  اُس نے کہا ’’میں تو تیرے ربّ کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دُوں۔‘‘  مریم نے کہا ’’ میرے ہاں کیسے لڑکا ہو گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھُوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں۔‘‘  فرشتے نے کہا ’’ ایسا ہی ہو گا، تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں ۱۵ اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔‘‘ مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی۔ ۱۶ پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھجُور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی ’’ کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔‘‘  ۱۷ فرشتے نے پائنتی سے اُس کو پکار کر کہا ’’ غم نہ کر، تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے۔ اور تُو ذرا اِس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تر و تازہ کھجُوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تُو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی۔‘‘  ۱۸ پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ’’ اے مریم! یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن، ۱۹ نہ تیرا باپ کوئی آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔‘‘  الف۱۹ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ لوگوں نے کہا ’’ ہم اِس سے کیا بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘  ۲۰
بچہ بول اُٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، الف۲۰ اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر  کے اُٹھایا  جاؤں۔‘‘  ۲۱ یہ ہے عیسیٰ ابنِ مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں۔ اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ ۲۲
(اور عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ) ’’ اللہ میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی،  پس تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔‘‘  ۲۳ مگر پھر مختلف گروہ ۲۴ باہم اختلاف کرنے لگے۔ سو جن لوگوں نے کُفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہو گا جبکہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔ جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اُس روز تو اُن کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی مگر آج یہ ظالم کھُلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اے محمد ؐ،  اِس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں، اِنہیں اس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہٴ کار نہ ہو گا۔ آخر کار ہم ہی زمین اور اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔ ۲۵ ؏ ۲

۱۳: تقابل کے لیے تفہیمُ القرآن،  جلد اول،  آل عمران،  حاشیہ نمبر ۴۲، ۵۵۔ النساء حاشیہ نمبر ۱۹۰- ۱۹۱۔

۱۴: سُورۂ آلِ عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم  کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیتُ المَقدِس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المَقدِس کی ایک محراب میں معتکف ہو گئی تھیں۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ محراب جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المَقدِس کے شرقی حصّے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق کا ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکانًا شرقیًا سے مراد ناصرہ لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے،  کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں۔

۱۵: جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر ۶ میں اشارہ کر آئے ہیں،  حضر ت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘  ہر گز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا  باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھُوا ہے۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ ذاریات،  آیات ۲۸ – ۳۰ میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ اُن کو جواب دیتا ہے کہ کذٰلک۔ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے مُراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے۔ علاوہ بریں اگر  کذٰلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے،   تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت  رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا  کرنا میرے لیے بہت آسان ہے،  اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحًا  معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ’’ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے۔ ‘‘  لہٰذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزے کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا۔

۱۶: دُور کے مقام سے مراد بیت لحم ہے۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل وہاں جانا ایک فطری امر تھا۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی، اور پھر وہ بیت المقدِس میں خدا کی عبادت کے لیے وقف ہو کر بیٹھی تھی، یکایک حاملہ ہو گئی۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو  خاندان والے ہی نہیں،  قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا  مشکل کر دیتے۔ اس لیے بیچاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السّلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر ہو شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال،  سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لیے تن تنہا  ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔

۱۷: ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے،  بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ’’غم نہ کر‘‘  اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف  سے کتنی ہی تڑپے،  اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔

۱۸: مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا  روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ  رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟

۱۹: ‘‘ ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی ’’ہارون کے خاندان کی لڑکی‘‘  لیے جائیں،  کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخا مضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن  گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی،  بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے،  خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی،  لیکن مسلم،  نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ’’ہارون کی بہن‘‘  ہی ہیں۔ مُغیرہؓ  بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ  نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے،  حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ’’ تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟‘‘  حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔

۱۹ الف: جو لوگ حضرت عیسیٰؑ   کی معجزانہ پیدائش کے منکر ہیں وہ آخر اس بات کی کیا معقول توجیہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مریم کے بچہ لیے ہوئے آنے پر قوم کیوں چڑھ  کر آئی اور اُن پر یہ طعن اور ملامت کی بوچھاڑ اس نے کیوں کی؟

۲۰: قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آِیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ’’ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔‘‘  یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی  اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص  موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶،  اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے  کہ تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔

۲۰a: یہ نہیں فرمایا کہ والدین کا حق ادا کرنے والا۔ صرف والدہ کا حق ادا کرنے والا فرمایا  ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کو ئی نہ تھا۔ اور اسی کی ایک صریح دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اُن کو عیسیٰ ابنِ مریم کہا گیا ہے۔

۲۱: ‘‘ یہ ہے وہ ’’نشانی‘‘  جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات میں بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل بد کرداریوں پر عبرتناک سزا دینے سے پہلے ان پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا۔اس کے لیے اس نے یہ تدبیر فرمائی کہ بنی ہارون کی ایک ایسی زاہدہ و عابدہ لڑکی کو جو بیت المقدس میں معتکف اور حضرت زکریّا کے زیرِ تربیت تھی، دوشیزگی کی حالت میں حاملہ کر دیا تاکہ جب وہ بچہ لیے ہوئے آئے تو ساری قوم میں ہیجان  برپا ہو جائے اور لوگوں کی توجہات یکلخت اس پر مرکوز ہو جائیں۔ پھر اس تدبیر کے نتیجے میں جب ایک ہجوم حضرت مریم پر ٹوٹ پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس نوزائیدہ بچے سے کلام کرایا تاکہ جب یہی بچہ بڑا ہو کر نبوت کے منصب پر سرفراز ہو تو قوم میں ہزاروں آدمی اس امر کی شہادت دینے والے موجود رہیں کہ اس کی شخصیت میں وہ اللہ تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز معجزہ دیکھ چکے ہیں۔ اس پر بھی جب یہ قوم اس کی نبوت کا انکار کر ے اور  اس کی پیروی قبول کرنے کے بجائے اسے مجرم بنا کر صلیب پر چڑھانے کی کوشش کرے تو پھر اس کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں دی گئی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جدل اوّل،  آلِ عمران،  حاشیہ نمبر ۴۴، ۵۳۔ ۱، نساء حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳۔ جلد ِ سوم، الانبیاء،  حاشیہ نمبر ۸۸ – ۸۹ – ۹۰۔ المومنون، حاشیہ نمبر ۴۳)۔

۲۲: یہاں تک جو بات عیسائیوں کے سامنے واضح کی گئی ہے وہ یہ  ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ باطل ہے۔ جس طرح ایک معجزے سے حضرت یحییٰ کی پیدائش نے اُن کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اُسی طرح ایک دوسرے معجزے سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جائے۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ،  دونوں ایک  ایک طرح کے معجزے سے پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں قرآن ہی کی طرح ان دونوں معجزوں کا ذکر ایک سلسلۂ  بیان میں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلّو ہے کہ وہ ایک معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں۔

۲۳: یہاں عیسائیوں کو بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت بھی وہی تھی جو تمام دوسرے انبیاء علیہم السّلام لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اس کے سوا کچھ نہیں سکھایا تھا کہ صرف خدائے واحد کی بندگی کی جائے۔ اب یہ جو تم نے ان کو بندے کے بجائے خدا بنا لیا ہے اور اُنہیں عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہو،  یہ تمہاری اپنی ایجاد ہے۔ تمہارے پیشوا کی یہ تعلیم ہر گز نہیں تھی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جدل اوّل،  آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۶۸، مائدہ،  حاشیہ نمبر ۱۰۰ – ۱۰۱ – ۱۳۰۔جلد چہارم الزخرف حواشی نمبر ۵۷ – ۵۸۔

۲۴: یعنی عیسائیوں کے گروہ۔

۲۵: یہاں وہ تقریر ختم ہوتی ہے جو عیسائیوں کو سنانے کے لے نازل فرمائی گئی تھی۔ اِس تقریر کی عظمت کا صحیح اندازہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اس کو پڑھتے وقت وہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھے  جو ہم نے اِس سُورے کے دیباچے میں بیان کیا ہے۔ یہ تقریر اُس موقع پر نازل ہوئی تھی جبکہ مکے کے مظلوم مسلمان ایک عیسائی سلطنت  میں پناہ لینے کے لیے جارہے تھے، اور اس غرض کے لیے نازل کی گئی تھی کہ جب وہاں مسیح کے متعلق اسلامی عقائد کا سوال چھڑے تو یہ ’’سرکاری بیان‘‘  عیسائیوں کو سنا دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے  مسلمانوں کو کسی حال میں بھی حق و صداقت کے معاملے میں مداہنت برتنا نہیں سکھایا ہے۔ پھر وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے، اُن کی قوتِ ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے عین دربار ِ شاہی میں ایسے نازک موقع پر اُٹھ کر یہ تقریر سنادی جبکہ نجاشی  کے تمام اہلِ دربار رشوت کھا کر اُنہیں ان کے دشمنوں کے سپرد کر دینے پر تُل گئے تھے۔ اُس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پر اسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سُن کر نجاشی بھی بگڑ جائے گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گا مگر اس کے باوجود انہوں نے کلمۂ حق پیش کرنے میں ذرّہ برابر تامّل نہ کیا۔

اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کرو،  ۲۶ بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ (انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاؤ)جبکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا ’’ابّا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ ابّا جان، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ابّا جان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، ۲۷ شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ ابّا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں۔‘‘
باپ نے کہا ’’ابراہیم ؑ،  کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تُو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تُو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا۔‘‘  ابراہیم ؑ نے کہا ’’سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، الف۲۷ میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے ربّ ہی کو پکاروں گا، اُمید ہے کہ میں اپنے ربّ کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔‘‘
پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیراللہ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی نام وری عطا کی۔ ۲۸ ؏ ۳

۲۶: یہاں سے خطاب کا رُخ اہلِ مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں، بھائیوں  اور دوسرے رشتہ داروں کو اُسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم ؑ  کو ان کے باپ اور بھائی بندوں نے دیس نکالا دیا تھا۔ اس غر ض کے لیے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر حضرت ابراہیم ؑ کے قصّے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتا یا کرتے تھے۔

۲۷: اصل الفاظ ہیں  لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰن،   یعنی ’’شیطان کی عبادت نہ کریں‘‘۔ اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بُتوں کی کرتے تھے، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے،  اس لیے حضرت ابراہیم نے ان کی اِس اطاعتِ شیطان کو بھی عبادتِ شیطان قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام  نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اُس کی عبادت کا مجرم ہے،  کیونکہ شیطان بہر حال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا ’’معبود‘‘  (بمعنی معروف) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۴۹ – ۵۰)۔

۲۷a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۱۱۲۔

۲۸: یہ حرفِ تسلّی ہے اُن مہاجرین کے لیے جو گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السّلام اپنے خاندان سے کٹ کر برباد نہ ہوئے بلکہ اُلٹے سر بلند و سرفراز ہو کر رہے اُسی طرح تم بھی برباد نہ ہو گے بلکہ وہ عزّت پاؤ گے جس کا تصوّر بھی جاہلیت میں پڑے ہوئے کفارِ قریش نہیں کر سکتے۔

اور ذکر کرو اِس کتاب میں موسیٰؑ کا۔ وہ ایک چیدہ ۲۹ شخص تھا اور رسُول نبی ۳۰ تھا۔ ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا ۳۱ اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا، ۳۲ اور اپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارونؑ کو نبی بنا کر اُسے (مددگار کے طور پر)دیا۔ اور اِس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا تھا اور رسُول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے ربّ کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔ اور اِس کتاب میں ادریسؑ ۳۳ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا اور اُسے ہم نے بلند مقام پر اُٹھایا تھا۔ ۳۴ یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے،  اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمٰن کی آیات ان کو سُنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ السجدۃ ۵
پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا ۳۵ اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، ۳۶ پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنّتیں ہیں جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کر رکھا ہے ۳۷ اور یقیناً یہ وعدہ پُورا ہو کر رہنا ہے۔ وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے،جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سُنیں گے۔ ۳۸ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنّت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیز گار رہا ہے۔
اے محمدؐ ۳۹،  ہم تمہارے ربّ کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا ربّ بھُولنے والا نہیں ہے۔ وہ ربّ ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں۔ پس تم اُس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ ۴۰ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اُس کی ہم پایہ؟  ۴۱   ؏۴

۲۹: اصل میں لفظ مُخْلَص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’خالص کیا ہوا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے شخص تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنا کر لیا تھا۔

۳۰: ’’رسول‘‘  کے معنی ہیں ’’فرستادہ‘‘،   ’’ بھیجا ہوا‘‘۔ اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر،  ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہی لفظ یا تو ان ملائکہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کارِ خاص پر بھیجے  جاتے ہیں،  یا پھر اُن انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ  تعالیٰ نے خلق کی طرف اپنا پیغام  پہنچانے کے لیے مامور فرمایا۔ ’’نبی‘‘  کے معنی میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ نَبَا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی ’’خبر دینے والا‘‘  کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادّہ  نبُو  ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے ’’بلند مرتبہ‘‘  اور ’’عالی مقام‘‘۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل  نبیٔ  ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں،  اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ پس کسی شخص کو ’’رسول نبی‘‘  کہنے کا مطلب یا تو ’’عالی مقام پیغمبر‘‘  ہے،  یا ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر‘‘،  یا پھر ’’وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے‘‘۔ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے  یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سُورۂ حج، رکوع ۷ میں فرمایا   وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا۔۔۔۔۔۔ ’’ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر۔۔۔۔۔‘‘  یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہلِ تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کو تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ  رسول کا لفظ نبی کی بہ نسبت خاص ہے،  یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے، مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا، یا بالفاظِ دیگر انبیاء میں سے رسول کا لفظ اُن جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اِسی کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جو امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ۳۱۳ یا ۳۱۵ بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں،  مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔

۳۱: کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ مَدْیَنْ سے مصر جاتے ہوئے اُس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے،  اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسیٰؑ  کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ’’داہنی جانب‘‘  فرمایا گیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجائے خود پہاڑ کا کوئی دایاں یا بایاں رُخ نہیں ہوتا۔

۳۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء،  حاشیہ نمبر ۲۰۶۔

۳۳: حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے بھی پہلے گزر ے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعیّن میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے متقدم ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر اوپر گزرا ہے،  آدم کی اولاد، نوح  کی اولاد، ابراہیم کی اولاد  اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ،  عیسیٰ اور موسیٰ علیہم السّلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں،  حضرت اسماعیل  ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ اولادِ ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولادِ نوحؑ سے،  اس کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ آدم ؑ سے ہیں۔ مفسّرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک( Enoch ) بتایا گیا ہے،  وہی حضرت ادریس ؑ ہیں۔ ان کے متعلق بائیبل  کا بیان یہ ہے: ’’اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین  سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔۔۔۔ اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اُٹھا لیا‘‘۔ ( پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۱ – ۲۴)۔ تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ ’’اے حنوک، اُٹھو، گوشۂ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتاؤ جس پر ان کو چلنا چاہیے  اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے‘‘۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسلِ انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی۔ حنوک ۳۵۳ برس تک نسلِ انسانی پر حکمراں رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں۔ The Talmud Selections, PP. ۱۸-۲۱

۳۴: اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا،  لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ ’’خدا نے ان کو اُٹھا لیا‘‘،  مگر تلمود میں اس کاایک طویل قصّہ  بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ’’حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے‘‘۔

۳۵: یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے۔ یہ ہر اُمت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے۔ نماز وہ اوّلین  رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور  سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دُور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدۂ   کلیہ کے طور پر بیان فرمائی  ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہو ا ہے۔

۳۶: یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل  رہنے لگے تو جوں جوں یہ غفلت بڑھتی گئی، خواہشاتِ نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک  کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکامِ الہٰی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا۔

۳۷: یعنی جس کا وعدہ رحمان نے اس حالت میں کیا ہے کہ وہ جنتیں ان کی نگاہ  سے پوشیدہ ہیں۔

۳۸: اصل میں لفظ ’’سلام‘‘  استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسّر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت  یہ ہو گی کہ وہاں کوئی بیہودہ اور فضول اور گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بُری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مِل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ بھی سُنے گا، بھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی  سنے گا۔ اِس نعمت کی قدر وہی شخص  سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائیٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیبت،  فتنہ وفساد، شرارت، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ ‘‘

۳۹: یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلۂ  کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ  کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار  ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے  سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔ یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر،  ابنِ کثیر اور صاحب رپوح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔

۴۰: یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع  فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی  رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔

۴۱: اصل میں لفظ سَمِی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ’’ہم نام‘‘  کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ  تو الٰہ ہے،  کیا کوئی دوسرا لٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے  اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔

انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟ تیرے ربّ کی قسم،  ہم ضرور اِن سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی ۴۲ گھیر لائیں گے، پھر جہنّم کے گِرد لا کر انھیں گھُٹنوں کے بل گرا دیں گے پھر ہر گروہ میں سے ہر اُس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمٰن کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہوا تھا، ۴۳ پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون  سب سے بڑھ کر جہنّم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنّم پر وارد نہ ہو، ۴۴ یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے ربّ  کا ذِمّہ ہے۔ پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں)متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گِرا ہُوا چھوڑ دیں گے۔
اِن لوگوں کو جب ہماری کھُلی کھُلی آیات سُنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ’’بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں؟‘‘  ۴۵ حالانکہ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو اِن سے زیادہ سر و سامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے بڑھی ہوئی تھیں۔ اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اُسے رحمٰن ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔۔۔۔ خواہ وہ عذابِ الہٰی ہو یا قیامت کی گھڑی۔۔۔۔ تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور! اِس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے ۴۶ اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
پھر تُو نے دیکھا اُس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا؟ ۴۷ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمٰن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟۔۔۔۔ ہر گز نہیں، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے ۴۸ اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سر و سامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔
اِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اِن کے پُشتیبان ہوں۔ ۴۹ کوئی پُشتیبان نہ ہو گا۔ وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے ۵۰ اور اُلٹے اِن کے مخالف بن جائیں     گے۔ ؏۵

۴۲: یعنی اُن شیاطین کو جن کے  یہ چیلے بنے ہوئے ہیں، اور جن کے سکھائے  پڑھائے  میں آ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی  جو کچھ بھی ہے بس یہی  دنیا کی زندگی ہے،  اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔

۴۳: یعنی باغی گروہ کا لیڈر۔

۴۴: وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں،  مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچتی۔ اور پھر یہ بات قران مجید اور اُن کثیر التعداد صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی ورود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر، جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے،  پرہیز گار لوگ اس سے بچا لیے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیے جائیں گے۔

۴۵: یعنی ان کا  استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو، دنیا میں کون اللہ فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں؟ کس کا معیارِ زندگی زیادہ بلند ہے؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسّر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اُڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و درماندہ رہتے؟ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حواشی ۳۷، ۳۸۔

۴۶: یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالیٰ ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے،  اُن کو بُرائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہِ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

۴۷: یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے  رہو اور عذابِ الہٰی کے ڈراوے دیا کرو،  میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ میری دولت دیکھو، میری وجاہت اور ریاست دیکھو،  میرے نا مور بیٹوں کو دیکھو، میری زندگی میں آخر تمہیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ میں خدا کا مغضوب ہوں؟۔۔۔۔۔۔ یہ مکّے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے،  بلکہ کفارِ مکّہ کا ہر شیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا۔

۴۸: یعنی اس کے جرائم کے ریکارڈ میں اس کا یہ کلمۂ  غرور بھی شامل کر لیا جائے گا  اور اس کا مزا بھی اسے چکھنا پڑے گا۔

۴۹: اصل میں لفظ عِزًّا استعمال ہوا ہے، یعنی وہ ان کے لیے  سببِ عزّت ہوں۔ مگر عزّت سے مراد عربی زبان میں  کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا ہے کہا س پر کوئی  ہاتھ نہ ڈال سکے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے لیے سببِ عزت بننا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکے۔

۵۰: یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی اِن سے کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو،  اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے اِن منکرینِ حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو اِنہیں خُوب خُوب (مخالفتِ حق پر)اُکسا رہے ہیں؟ اچھا، تو اب اِن نُزوُلِ عذاب کے لیے بےتاب نہ ہو۔ ہم اِن کے دن گِن رہے ہیں۔ ۵۱ وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمٰن کے حضور پیش کریں گے، اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنّم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔ اُس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اُس کے جس نے رحمٰن کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو۔ ۵۲ وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔۔۔۔ سخت بے ہُودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا!رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ سب پر وہ محیط ہے اور اس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔
یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمٰن اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ ۵۳ پس اے محمدؐ،  اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں،  پھر آج لیں تم اُن کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بِھنک بھی کہیں سُنائی دیتی ہے؟   ؏٦

۵۱: مطلب یہ ہے کہ اِن کی زیادتیوں پر تم بے صبر نہ ہو۔ اِن کی شامت قریب آ  لگی ہے۔ پیمانہ بھرا چاہتا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے کچھ دن باقی ہیں،  اُنہیں پورا ہو لینے دو۔

۵۲: یعنی سفارش اسی کے حق میں ہو گی جس نے پروانہ حاصل کیا ہو، اور وہی سفارش کر سکے گا جسے پروانہ ملا ہو۔ آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونو ں پہلوؤں پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بات کہ سفارش صرف اسی کے حق میں ہو سکے گی جس نے رحمان سے پروانہ حاصل کر لیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں ایمان لا کر اور خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو خدا کے عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو۔ اور یہ بات کہ سفارش وہی کر سکے گا جس کو پروانہ ملا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارشیں کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لیے زبان کھول سکے گا۔

۵۳: یعنی آج مکّے کی گلیوں میں وہ ذلیل و رسوا کیے جا رہے ہیں، مگر یہ حالت دیرپا نہیں ہے۔ قریب ہے وہ وقت جبکہ اپنے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کی وجہ سے وہ محبوبِ خلائق ہو کر رہیں گے۔ دل ان کے طرف کھنچیں گے۔ دنیا ان کے آگے  پلکیں بچھائے گی۔ فسق و فجور،  رعونیت اور کبر،  جھوٹ اور ریاکاری کے بل پر جو سیادت و قیادت چلتی ہو وہ گردنوں کے چاہے جھکالے،  دلوں کو مسخر نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس جو لوگ صداقت،  دیانت،  اخلاص اور حس اخلاق کے ساتھ راہِ راست کی طرف دعوت دیں،  ان سے اوّل اوّل چاہے دنیا کتنی ہی اُپرائے،  آخر کار وہ دلوں کو موہ لیتے ہیں اور بد دیانت لوگوں کا جھوٹ زیادہ دیر تک ان کا راستہ روکے نہیں رہ سکتا۔

٭٭٭

۲۰۔ سورۂ طٰہٰ

زمانۂ نزول

 اس سورۃ کا زمانہ  نزول سورہ مریم کے زمانے قریب ہی کاہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہو چکی تھی۔

ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خبابؓ بن اَرت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں،  ہم مسلمان ہو چکے ہیں،  تم سے جو کچھ ہو سکے کر لو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کر لو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورہ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا ’’ کیا خوب کلام ہے ‘‘۔ یہ سنتے ہیں حضرت خباب بن ارت،  جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے،  باہر آ گئے اور کہا کہ ’’بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا، ابولحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر،  اللہ کی طرف چلو،  اللہ کی طرف چلو‘‘۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ۔

موضوع و مبحث

سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمدؐ ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے سلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے۔ یہ مال زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں،  یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں،  خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔

اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے،  اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں۔ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجود گی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے،  نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں :۔

۱)۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کر تا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کر لی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے،  کچھ اسی طرح بصیغۂ  راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آ گئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کو ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟

۲ )۔ جو بات آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھائی تھی۔

۳)۔ پھر جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بغیر کسی سرو سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا عَلم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے،  ٹھیک اسی طرح موسیٰ علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مدد گار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے۔

۴)۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں استعمال کیے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخر کا کون غالب آ کر رہا؟ خدا کا بے سرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں،  جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہو گیا تو وہ بے دھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا۔

۵ )۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

اس طرح قصۂ  موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہر حال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔

پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آ جاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کر لے،  توبہ کرے،  اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا۔

آخر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین  حق کے معاملے میں جلدی اور بے صبری نہ کرو۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے۔

لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔

اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر،  تحمل،  قناعت،  رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفا ت پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔ ۱ نازل کیا گیا اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمٰن( کائنات کے )تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ ۲ مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پُکار کر کہو،  وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔ ۳ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ ۴
اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ جب کہ اُس نے ایک آگ دیکھی ۵ اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ’’ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اس آگ پر مجھے(راستے کے متعلق)کوئی رہنمائی مِل جائے۔‘‘  ۶ وہاں پہنچا تو پکارا گیا ’’اے موسیٰؑ، میں ہی تیرا ربّ ہوں، جُوتیاں اُتار دے۔ ۷ تُو وادی ِ مقدس طُویٰ میں ہے۔ ۸ اور میں نے تُجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، پس تُو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ ۹ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاک ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ ۱۰ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تُجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے،  ورنہ تُو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔۔۔۔ اور اے موسیٰؑ،  یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘  ۱۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’یہ میری لاٹھی ہے، اِس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اِس سے اپنی بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اِس سے لیتا ہوں۔‘‘  ۱۲ فرمایا ’’پھینک دے اِس کو موسیٰؑ۔ ‘‘  اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا ’’پکڑ لے اِس کو اور ڈر نہیں، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ ۱۳ یہ دُوسری نشانی ہے۔ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب تُو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے۔‘‘   ؏١

۱: یہ فقرہ پہلے فقرے کے مفہوم پر خود روشنی ڈالتا ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھنے سے  صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کو نازل کر کے ہم کوئی اَن ہونا کام تم سے نہیں لینا چاہتے۔ تمہارے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے اُن کو منوا کر چھوڑ و اور جن کے دل ایمان کے لیے بند ہو چکے ہیں ان کے اندر ایمان اتار کر ہی رہو۔ یہ تو بس ایک تذکیر اور یاددہانی ہے اور اس لیے بھیجی گئی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو وہ اسے سُن کر ہوش میں آ جائے۔ اب اگر کچھ لوگ ایسے ہیں  جنہیں خدا کا کچھ خوف نہیں،  اور جنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ان کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔

۲: یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا بلکہ آپ اپنے  کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے،   خود اس نا پیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے۔

۳: یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں  سے تمہیں نیچا دکھا نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر تم بآوازِ بلند ہی فریاد کرو۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی پکار تک سُن رہا ہے۔

۴: یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔

۵: یہ اُس وقت کا قصّہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدْیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مَدْیَن ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مَدْیَنْ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔

۶: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے  سینا کے جنوبی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دور سے ایک آگ دیکھ کر انہوں نے خیال کیا یا تو وہاں سے تھوڑی سی آگ مل جائے گی تاکہ بال بچوں کو رات بھر گرم رکھنے کا بندوبست ہو جائے، یا کم از کم وہاں سے یہ پتہ چل جائے گا کہ آگے راستہ کدھر ہے۔ خیال کیا تھا  دنیا کا راستہ ملنے کا،  اور وہاں مل گیا عقبیٰ کا راستہ۔

۷: غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا   خالفو ا الیھود فانھم لا یُصَلّون فی نعا لہم ولا خفا فہم، ’’یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے‘‘ (ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے،  بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسیا کرنا جائز ہے، اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ ابوداؤد میں عَمْرو ؓ بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مُسند احمد اور ابوداؤد میں ابو سعید خُدرِی ؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جُوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ ‘‘  ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ؐ  کے یہ الفاظ ہیں ’’اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔ اور حضرت اُمِ سَلَمہؓ  کی روایت میں ہے: یطھر ہ مابعد ہٗ،   یعنی ’’ایک جگہ گندگی  لگی ہو گی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی ‘‘۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ،  امام ابو یوسف، امام اَوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جو تا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پا ک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اِس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگر چہ سمجھا یہی گیا  ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑ نے سے پاک نہیں ہوتا۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ  مسجد نبوی میں چٹائی تک کو فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ بڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں،  وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔

۸: عام خیال یہ ہے کہ ’’طُویٰ‘‘  اس وادی کا نام تھا۔ مگر بعض مفسرین نے ’’وادی مقدس طُویٰ‘‘  کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ’’وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے‘‘۔

۹: یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اُس کو اِس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کرتا کہ میں تجھے  یاد کروں، جیسا کہ دوسری جگہ  فرمایا   فَا ذْ کُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ ’’مجھے یاد کرو،  میں تمہیں یاد  رکھوں گا‘‘۔ ضمناً اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھُول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا من نسی صَلاۃ فلیصلّھا اذ اذکر ھا  لا کفارۃ لھا الا ذٰلک، ’’جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کر لے،  اِس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے‘‘ (بخاری،  مسلم،  احمد)۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جسے مسلم، ابوداؤد اور نَسائی وغیرہ نے لیا ہے۔ اور ابو قَتَادَہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ اگر ہم نماز کے وقت سو گئے ہوں تو کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا ’’نیند میں کچھ قصور نہیں،  قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے،  نماز پڑھ لے‘‘  (ترمذی، نسائی،  ابوداؤد)۔

۱۰: توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیہم السّلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعتِ منتظرہ اِس لیے آئے گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ آخرت میں پائے۔ اور اس کے وقت کو مخفی بھی اس لیے رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدّعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت  اِس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہے وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں  آتی۔

۱۱: یہ سوال طلبِ علم کے لیے نہ تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پوچھنے سے مقصُود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ ؑ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔

۱۲: اگرچہ جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ حضور،  یہ لاٹھی ہے،  مگر حضرت موسیٰ ؑ نے اس سوال کا جو لمبا جواب دیا وہ ان کی اُس وقت کی قلبی کیفیت کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب آدمی کو کسی بہت بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اپنی بات کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اُس کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔

۱۳: یعنی روشن ایسا ہو گا جیسے سورج،  مگر تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ بائیبل میں یدِ بیضا کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جو وہاں سے نکل کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گئی۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ  نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اُسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت  پر آگیا۔ یہی تعبیر اِس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا، اس لیے  اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا بھی ہوتا ہے اور کافور بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اوّل تو ذوق ِ سلیم اس سے اِبا کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو یدِ بیضا صرف اُس کی ذات کے لیے معجزہ ہو سکتا تھا،  اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رُعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے  جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہو جاتی تھی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔

موسیٰؑ نے عرض کیا ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے، ۱۴ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، ۱۵ اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون،  جو میرا بھائی ہے۔ ۱۶ اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تاکہ ہم خُوب تیری پاکی بیان کریں اور خُوب تیرا چرچا کریں۔ تُو ہمیشہ میرے حال پر نگران رہا ہے۔‘‘
فرمایا ’’دیا گیا جو تُو نے مانگا اے موسیٰؑ،  ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ ۱۷ یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اِس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے  کا دشمن اُٹھا لے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تُجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تُو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جب کہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ’’میں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟‘‘  اِس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ اور (یہ بھی یاد کر کہ)تُو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا،  ہم نے تُجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تُو آگیا ہے اے موسیٰؑ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ اور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘  ۱۸
دونوں الف۱۸ نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا۔‘‘ فرمایا ’’ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ اُس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے۔‘‘  ۱۹ فرعون ۲۰ نے کہا ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کو ن ہے اے موسیٰ؟‘‘  ۲۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’ ہمارا ربّ وہ ۲۲ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘  ۲۳ فرعون بولا ’’ اور پہلے جو نسلیں گزر چکیں ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘  ۲۴ موسیٰؑ نے کہا ’’ اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔‘‘  ۲۵۔۔۔۔ ۲۶ وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ ۲۷   ؏ ۲

۱۴: یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ ؑ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر،  وہ ثبات،  وہ تحمل،  وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکا ر ہے۔

۱۵: ‘‘ بائیبل میں اس کی جو تشریح بیان ہوئی ہے وہ یہ ے کہ حضرت موسیٰ ؑ  نے عرض کیا ’’اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے ‘‘ (خروج ۱۰:۴)۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں  یہ ذکر ہے  کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا  کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی،  مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔

یہی قصّہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اُٹھا کر مُنہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسُوس کر تے ہی ہاتھ کھینچ لیتا  ہے۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں سے آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوّت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اُس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں۔ یہی چیز  تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ ’’یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا‘‘  لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ الزُخرُف – ۵۲) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کو مددگار کے طور پر مانگا۔ سورۂ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَ رْسِلْہُ مِعِیَ رِدْاً، ’’میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج‘‘۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ  کی یہ کمزوری دُور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دَور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال  فصاحت و بلاغتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔

یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت،  شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر وہ باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا  تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے اور یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

۱۶: بائیبل کی روایت کے مطابق حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے تین برس بڑے تھے۔ (خروج ۷:۷)

۱۷: اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کو  ایک ایک کر کے وہ احسانات یا د دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے کیے تھے۔ اِن واقعات کی تفصیل سورۂ قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰؑ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اُسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور اُسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے۔

۱۸: آدمی کے راہِ راست پر آ نے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے،  یا پھر بُرے انجام سے  ڈر کر سیدھا  ہو جاتا ہے۔

۱۸۔الف: معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ ؑ مصر پہنچ گئے اور حضرت ہارون ؑ عملاً ان کے شریک کار ہو گئے۔ اس وقت فرعون کے پاس جانے سے پہلے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گزارش کی ہو گی۔

۱۹: اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السّلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصوری پیش کی گئی ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ ’’اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تُو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے‘‘  تو حضرت موسیٰؑ نے جواب  میں کہا ’’ میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں‘‘۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰؑ کو بہت کچھ سمجھایا،  ان کی ڈھارس بندھائی، معجزے عطا کیے،  مگر حضرت موسیٰؑ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ ’’اے خداوند،  میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تُو چاہے یہ پیغام بھیج‘‘۔ (خروج ۴)۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان سات دن تک اِسی بات پر رد و کد ہوتی رہی۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن، مگر موسیٰؑ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں۔ آخر  اللہ میاں نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تُو ہی بنی بن۔ اس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ لُوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے،  ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے، اور اب اپنے خاص بچوں (بنی اسرائیل) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں۔ اس پر خداوند ناراض ہو گیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا۔۔۔۔۔۔ یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ان سے یہ قصّے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۲۰: یہاں قصے کی اِن تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کس طرح فرعون کے پاس پہنچے  اور کس طرح اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی۔ یہ تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۳ میں گزر چکی ہیں اور آگے سورۂ شعراء رکوع ۲ – ۳،  سورۂ قصص رکوع ۴،  اور سورۂ نازعات رکوع ۱ میں آنے والی ہیں۔               فرعون سے متعلق ضروری معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸۵۔

۲۱: دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحبِ دعوت چونکہ  موسیٰ علیہ السّلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رُخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ ؑ کے ضعف سے فائدہ اُٹھا نا چاہتا ہو جس کا ذکر اس  سے پہلے گزر چکا ہے۔

 فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے ربّ بنا بیٹھے ہو،  مصر اور اہلِ مصر کا ربّ  تو میں ہوں۔ سورۂ نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ، ’’اے اہلِ مصر، تمہارا ربّ اعلیٰ میں ہوں‘‘۔ سورۂ زُخْرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے   یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ، ’’اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور نہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟‘‘  (آیت ۵۱)۔ سورۂ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے یٰٓاَ یّھَُا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لِکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ، فَاَوْقِدْ لِیْ یَا ھَا مٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَا جْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلّیِ اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی، ’’اے سردارانِ قوم، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے، اے ہامان، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے‘‘۔ (آیت نمبر ۳۸)۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیؑ کو ڈانٹ کر کہتا ہے لَئینِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْ نِیْنَ، ’’اگر تُو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا‘‘ (آیت نمبر۲۹)۔

 اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا (رع یا راع) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتاتھا، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ ’’واحد مرکز ِ پرستش‘‘  ہونے کا نہ تھا، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوعِ انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا  اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اُس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ،  آ کر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے۔ بعض لوگوں کو اُس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا  ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ مگر یہ بات قرآن  سے ثابت ہے کہ وہ عالمِ بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا۔ سورۂ المؤمن آیات ۲۸ تا ۳۴ اور سورۂ زخرف آیت  ۵۳ کو غور سے دیکھیے۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اُس کو انکار نہ تھا۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسُول آ کر اُس پر حکم چلائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، القصص، حاشیہ ۵۳)۔

۲۲: یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو ربّ مانتے ہیں۔ پروردگار،  آقا، مالک،  حاکم، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ ہمیں تسلیم نہیں ہے۔

۲۳: یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے،  اُسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ،  جو شکل وصورت،  جو قوت و صلاحیت،  اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے،  اُسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی،  اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان،  نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورتِ خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔

 پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا  ہو۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا  اُسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھیل پھول دینے اور زمین  کو نباتات اگانے کی ہدایت  اسی نے دی ہے۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلّم بھی ہے۔

 اِس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ ؑ  نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا ربّ کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں ربّ ہے اور کس لیے اُس کے سوا کسی اور کو ربّ نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجودِ خاص کے لیے اللہ کا ممنون ِ احسان ہے،  اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں،  تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا ربّ ہے،  اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا ربّ ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔

 مزید براں، اِسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ ؑ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو  انکار تھا۔ ان کے دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر  منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی  کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزون نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین چکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے۔

۲۴: یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ نہیں ہے،  تو یہ ہم سب کے باپ  دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آرہے ہیں، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے؟ کیا وہ سب گمراہ تھے؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی اس دلیل کا جواب۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اُس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں،  یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اِس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے،  اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل ِ دربار اور عام اہلِ مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے۔ اہلِ حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال  کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کر نے کے لیے  بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں، مکّہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے  زیادہ  اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا،  اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل برمحل تھا۔

۲۵: یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو حضرت موسیٰ نے اس وقت دیا اور اس سے حکمت تبلیغ کا ایک بہترین سبق حاصل ہوتا ہے۔ فرعون کا مقصد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، سامعین کے،   اور ان کے توسط سے پوری قوم کے دلوں میں تعصب کی آگ بھڑکانا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ کہتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے اور سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے  تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبر دست نمونہ ہوتا،  مگر یہ جواب حضرت موسیٰ کے بجائے فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا۔ اس لیے آنجناب نے کما ل دانائی کے ساتھ ایسا جواب دیا جو بجائے خود حق بھی تھا، اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جیسے کچھ بھی تھے، اپنا کام کر کے خدا کے ہاں جا چکے ہیں۔ میرے پاس ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگاؤں۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات کو خدا جانتا ہے۔ نہ خدا کی نگاہ سے کوئی چیز بچی رہ گئی ہے اور نہ اس کے حافظہ سے کوئی شے محو ہوئی ہے۔ ان سے  جو کچھ بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا موقف کیا تھا  اور ان کا انجام کیا ہو گا۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا موقف کیا ہے اور ہمیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے۔

۲۶: اندازِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب ’’نہ بھُولتا ہے‘‘  پر ختم ہو گیا، اور یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِ شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے۔ قرآں میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے،  تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و پند، یا شرح و تفسیر، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف اندازِ کلام سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے ’’میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘  سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو    رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ءٍ   سے شروع ہوا ہے۔

۲۷: یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجو حق کرنا چاہتے ہوں وہ اِن نشانات  کی مدد سے منزلِ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ نشانات اُن کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک ربّ ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے۔ کسی دوسرے ربّ کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اِس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے،  اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ ۲۸ ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں ۲۹ دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ کہنے لگا ’’اے موسیٰؑ،  کیا تُو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ ۳۰ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادُو لاتے ہیں۔ طے کر لیے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قرارداد سے پھریں گے نہ تُو پِھریو۔ کھُلے میدان میں سامنے آ جا۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں۔‘‘  ۳۱ فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا۔ ۳۲
موسیٰؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )۳۳ کہا ’’ شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ۳۴ ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھُوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔‘‘  یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلافِ رائے ہو گیا اور وہ چُپکے چُپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ ۳۵ آخر کار کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ ۳۶ یہ دونوں تو محض جادُو گر ہیں۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ ۳۷ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کر کے میدان میں آؤ۔ ۳۸ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔‘‘
جادُو گر ۳۹ بولے ’’موسیٰؑ،  تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ نہیں، تم ہی پھینکو۔‘‘
یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، ۴۰ اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ۴۱ ہم نے کہا ’’ مت ڈر، تُو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نِگلے جاتا ہے۔ ۴۲ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادُو گر کا فریب ہے، اور جادُوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے۔‘‘  آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادُو گر سجدے میں گِرا دیے گئے ۴۳ اور پُکار اُٹھے ’’ مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے ربّ کو۔‘‘  ۴۴
فرعون نے کہا ’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی۔ ۴۵ اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں ۴۶ اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ ۴۷ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۴۸ ‘‘  (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ )۔
جادُوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعدبھی (صداقت پر)تجھے ترجیح دیں۔ ۴۹ تُوجو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اِس جادُوگری سے جس پر تُو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اوروہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔۔۔۔ حقیقت ۵۰ یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو گا اُس کے لیے جہنّم ہے جس میں وہ نہ جیے گا  نہ مرے گا۔ ۵۱ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ ؏ ۳

۲۸: یعنی ہر انسان کو لازماً تین مرحلوں سے گزرنا ہے۔ ایک مرحلہ موجودہ دنیا میں پیدائش سے لے کر موت تک کا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک کا۔ اور تیسرا قیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کا مرحلہ۔ یہ تینوں مرحلے اِس آیت کی رُو سے اِسی زمین پر گزرنے والے ہیں۔

۲۹: یعنی آفاق و اَنْفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی،  اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کو پے در پے دکھائے گئے۔

۳۰: جادو سے مراد عصا  اور یدِ بیضا کا معجزہ ہے جو سورۂ اعراف اور سورۂ شعراء کی تفصیلات کے بموجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بدحواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اِس فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’تُو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ‘‘۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تُو جادوگر ہے اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تُو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے،  کھلی ہوئی بدحواسی کی علامت ہے۔ دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلّل تقریر، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہلِ دربار،  بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس لیے ا س نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے  اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اِسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو،ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے،  اقتدار کا بھُوکا ہے،  چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ اِن  ہتھکنڈوں سے وہ دعوتِ حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ (مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن،  جلد دوم کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں، الاعراف حواشی، ۸۷، ۸۸، ۸۹ – یونس، حاشیہ ۷۵۔ اِس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسرِ اقتدار لوگوں نے داعیانِ حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھُوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ اس کی مثالوں  کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف،  آیت نمبر ۱۱۰،  ۱۲۳۔ یونس، آیت نمبر ۷۸۔ المومنون،  آیت نمبر ۲۴)۔

۳۱: فرعون کا مدّعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادوگروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰ ؑ کے معجزے کا جو اثر  لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دُور ہو جائے گا۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی کیا ضرورت  ہے۔ جشن کا دن قریب ہے،  جس میں تمام  ملک کے لوگ  دار السلطنت میں کھِچ کر آ جاتے ہیں۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جائے تاکہ ساری قوم دیکھ لے۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔

۳۲: فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کی فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اُسے لے آئیں۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا (ملاحظہ ہو سورۂ شعراء رکوع ۳)۔

اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مصر  کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی، دونوں کے عملی طریقے  اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا (ملاحظہ ہو    Toynbee  کی  A study of History  صفحہ ۳۱ – ۳۲)۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدّد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نسبت ایک توحید ی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے  ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صد حصہ تھے۔ اس کے علاوہ اُس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمِینوفِس یا اَخناتون (سن ۱۳۷۷۔ ۱۳۶۰ ق م) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتُون باقی رکھا گیا تھا۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے اُلٹ دیا گیا، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا۔ اِن حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کو وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی۔

۳۳: یہ خطاب عوام سے نہ تھا جنہیں ابھی حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ معجزہ دکھاتے ہیں یا جادو،  بلکہ خطاب فرعون اور اس کے درباریوں سے تھا جو انہیں جادوگر قرار دے رہے تھے۔

۳۴: یعنی اُس کے معجزے کو جادو اور اس کے پیغمبر کو ساحِر کذّاب نہ قرار دو۔

۳۵: اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی کمزوری کو خود محسُوس کر رہے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے آئے تھے،  اور جب عین موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کو للکار کر متنبہ کیا تو ان کا عزم یکایک متزلزل ہو گیا۔ ان کا اختلاف رائے اس امر میں ہوا ہو گا کہ آیا اِس بڑے تہوار کے موقع پر،  جبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی اکٹھے ہیں، کھلے میدان  اور دن کی پوری روشنی میں یہ مقابلہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر یہاں ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کا فرق کھل گیا تو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی۔

۳۶: اور یہ کہنے والے لازماً فرعونی پارٹی کے وہ سر پھرے لوگ ہوں گے  جو حضرت موسیٰ کی مخالفت میں ہر بازی کھیل جانے پر تیار تھے۔ جہاندیدہ اور معاملہ فہم لوگ قدم آگے بڑھاتے ہوئے جھجک رہے ہوں گے۔ اور یہ سرپھرے جوشیلے لوگ کہتے ہوں گے کہ خواہ مخواہ کی دور اندیشیاں چھوڑ دو اور جی کڑا کر کے مقابلہ کر ڈالو۔

۳۷: یعنی اُن لوگوں کا دار و مدار دو باتوں پر تھا۔ ایک یہ کہ اگر جادوگر بھی موسیٰ کی طرح لاٹھیوں سے سانپ بنا کر دکھا دیں گے تو موسیٰ کا جادوگر ہونا مجمع عام میں ثابت ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ تعصبات کی آگ بھڑکا کر حکمران طبقے کو اندھا جوش دلانا چاہتے تھے اور یہ خوف انہیں دلا رہے تھے کہ موسیٰ کا غالب آ جانا تمہارے ہاتھوں سے ملک نِکل جانے اور تمہارے مثالی (Ideal ) طریقِ زندگی کے ختم ہو جانے کا ہم معنی ہے۔ وہ ملک کے با اثر طبقے کو ڈرا رہے تھے کہ اگر موسیٰ کے ہاتھ اقتدار آگیا تو یہ تمہاری ثقافت،  اور یہ تمہارے آرٹ، اور یہ تمہارا  حسین و جمیل تمدّن، اور یہ تمہاری تفریحات، اور یہ تمہاری خواتین کی آزادیاں(جن کے شاندار نمونے حضرت یوسف کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں) غرض وہ سب کچھ جس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد تو نری ’’ملّائیت‘‘  کا دور دورہ  ہو گا جسے برداشت کرنے سے مر جانا بہتر ہے۔

۳۸: یعنی اِن کے مقابلے میں متحدہ محاذ پیش کرو۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑ گئی اور عین مقابلے  کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں اور ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق  پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے، بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو۔

۳۹: بیچ کی یہ تفصیل چھوڑ دی گئی  کہ اِس پر فرعون کی صفوں میں اعتماد بحال ہو گیا اور مقابلہ شروع کرنے کا فیصلہ کر کے جادوگروں کو احکام دے دیے گئے کہ میدان میں اُتر آئیں۔

۴۰: سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ  فَلَمَّآ اَلْقَوْ ا سَحَرُوْٓ ا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْ ھُمْ، ’’جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا‘‘ (آیت ۱۱۶)۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا،  خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال  پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔

۴۱: معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ کی زبان سے ’’پھینکو‘‘  کا لفظ نکلا،  جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ اِس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسُوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ انسان بہر حال انسان ہی ہوتا ہے۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، انسانیت کے تقاضے اُس سے منفک نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بریں یہ  بھی ممکن ہے کہ اُس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے۔

اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق  کر رہا ہے کہ عا م انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے،  یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے،  یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر یک گو نہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔ اس سے اُن لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جادو  کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف اُن روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرانے لگتے ہیں۔

۴۲: ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے اُن سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹھیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اُس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ سورۂ اَعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفُ مَا یَا فِکُوْنَ، ’’جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے  اس کو وہ نگلے جا رہا تھا ‘‘۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا، ’’ وہ نگل جائے گا اُس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے‘‘۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نِگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی،  لاٹھی اور ہر رسی،  رسی بن کر پڑی رہ گئی۔

۴۳: یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے، اُن کے فن کی چیز ہر گز نہیں ہے، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے  میں گرے جیسے کسی نے اُٹھا اُٹھا کر اُن کو گرا دیا ہو۔

۴۴: اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر  ہو رہا ہے۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے  اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ،  خالقِ زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسرِ عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے۔ بالفاظ ِ دیگر،  وہاں فرعون اور جادوگروں اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے، اور امتحان اِس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قِسم سے ہے یا اُس معجزے کی قِسم سے جو ربّ العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادُو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ’’ہم نے مان لیا،  موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ‘‘،  بلکہ انہیں فوراً یقین آگیا کہ موسیٰ واقعی اللہ ربّ العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اُٹھے کہ ہم اُس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں۔

 اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمعِ عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے،  اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہُوا ہو گا۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اِس اُمید پر کرایا تھا کہ کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے،  ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے،  تو موسیٰ کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اُسی پر اُلٹ پڑی،  اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے  سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اِس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ ان کے فن کی چیز نہیں ہے،  یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے۔

۴۵: سورۂ اعراف میں الفاظ یہ ہیں  اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْ ہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِ جُوْ ا  مِنْھَا اَھْلَھَا، ’’ یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دارالسلطنت میں ملی بھگت کر کے  کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو‘‘۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے، بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرُو ہے،  تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی  ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اُس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب برپا کر دو۔

۴۶: یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں۔

۴۷: صلیب یا  سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سالے کر زمین میں گاڑ دیتے تھے،  یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے۔ اس طرح مجرم تختے کے بل  لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدّت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں۔

۴۸: یہ ہری ہوئی بازی جیت لینے کے لیے فرعون کا آخری داؤ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرا لے کہ واقعی یہ اُن کی اور موسیٰ علیہ السّلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے مل کر سلطنت کے خلاف سازش کر چکے تھے۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اُس کا یہ داؤں بھی اُلٹ دیا۔ انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو کر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لیے ایک بے شرمانہ سیا سی چال کے طور پر گھڑا گیا ہے، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السّلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں۔

۴۹: دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم اُن روشن نشانیوں کے مقابلے میں جو ہمارے سامنے آ چکی ہیں،  اور اس ذات کے مقابلے میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  تجھے ترجیح دیں‘‘۔

۵۰: یہ جادوگروں کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا اضافہ ہے۔ اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصّہ نہیں ہے۔

۵۱: یعنی موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا رہے گا۔ نہ موت آئے گی کہ اس تکلیف اور مصیبت کا خاتمہ کر دے، اور نہ جینے کا ہی کوئی لطف اسے حاصل ہو گا کہ زندگی کو موت پر ترجیح دے سکے۔ زندگی سے بیزار ہو گا، مگر موت نصیب نہ ہو گی۔ مرنا چاہے گا مگر مر نہ سکے گا۔ قرآن مجید میں دوزخ کے عذابوں کی جتنی تفصیلات دی گئی ہیں اُن میں سب سے زیادہ خوفناک  صورت ِ عذاب یہی ہے جس کے تصوّر سے رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔

ہم ۵۲ نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے ۵۳،  تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے)ڈر لگے۔ پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ ۵۴ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ ۵۵
۵۶ اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب ۵۷ تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا ۵۸ اور تم پر من و سلویٰ اُتارا ۵۹۔۔۔۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹُوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ ۶۰ ۶۱ اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟ ۶۲
اُس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ  ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے ربّ، تاکہ تُو مجھ سے خوش ہو جائے۔‘‘  فرمایا ’’اچھا، تو سُنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری ۶۳ نے اُنہیں گمراہ کر ڈالا۔‘‘ موسیٰؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ ۶۴ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ ۶۵ یا تم اپنے ربّ کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟‘‘  ۶۶ انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا‘‘  ۶۷۔۔۔۔ ۶۸ پھر اِسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اُٹھے ’’یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ اِسے بھُول گیا۔‘‘  کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ ؏ ۴
ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے )پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ’’لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو۔‘‘  مگر اُنہوں نے اُس سے کہہ دیا کہ ’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ واپس نہ آ جائے۔‘‘  ۶۹ موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارونؑ کی طرف پلٹا اور )بولا ’’ ہارونؑ،  تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے  تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘  ۷۰ ہارونؑ نے جواب دیا ’’ اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، ۷۱ مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تُو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھُوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔‘‘  ۷۲ موسیٰؑ نے کہا ’’ اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟‘‘  اس نے جواب دیا ’’ میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا۔‘‘  ۷۳ موسیٰؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پُکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھُونا۔ ۷۴ اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تُو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے۔‘‘
اے محمدؐ، ۷۵ اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ’’ذِکر‘‘  (درسِ نصیحت)عطا کیا ہے۔ ۷۶ جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے،اور قیامت کے دن اُن کے لیے (اِس جرم کی ذمّہ داری کا بوجھ)بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا، ۷۷ اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا ۷۸ اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی، ۷۹ آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے ۸۰۔۔۔۔ ۸۱ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ)اُس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔ ؏ ۵

۵۲: بیچ میں اُن حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد  مصر کے طویل زمانۂ  قیام میں پیش آئے۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۵ – ۱۶، سورۂ یونس رکوع ۹، سورۂ مومن رکوع ۳ تا ۵، اور سورۂ زُخرف رکوع ۵۔

۵۳: اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو  ( جن کے لیے ’’ میرے بندوں‘‘   کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصّے سے ہجرت کے لیے نِکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے۔ اُس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھُلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا  کی طرف نکل جائیں۔ لیکن اُدھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقُب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہُوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر ِ فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل  گھِر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ  اِضْرِبْ بعَصَاکَ الْبَحْرَ، ’’اپنا عصا سمندر پر مار‘‘  فَا نْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَا اطَّوْدِ الْعَظیْمِ، ’’ فوراً سمندر پھٹ گیا  اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا۔ ‘‘  اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نِکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصّہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا  نہیں ہو جاتا،  اور بیچ  کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ نمبر ۴۷)۔

۵۴: سورۂ شُعَراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کے گزرتے ہی فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر  کے اس درمیانی راستے میں اتر آیا (آیات ۶۴ – ۶۶)۔ یہاں بیان کیا گیا  ہے کہ سمندر نے اس کو اور اس کے لشکر کو دبوچ لیا۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ہے بنی اسرائل سمندر کے دوسرے کنارے پر سے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (آیت ۵۰) اور  سورۂ یونس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون پکار اُٹھا   اٰ مَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ آ اِسْرَآئییْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، ’’ میں مان گیا کہ کوئی خدا نہیں ہے اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،  اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘  مگر اس آخری لمحہ کے ایمان کو قبول نہ کیا گیا اور جواب مِلا   اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ،  فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْ نَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰ یَۃً، ’’اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فساد کیے چلا گیا۔ اچھا، آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا رہے‘‘ (آیات ۹۰ – ۹۲)۔

۵۵: بڑے لطیف انداز میں کفار ِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار  اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی  نہ تھی۔ اِس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل کے بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ اُن لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں  کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔ بائیبل کی کتاب  خروج(Exodus ) میں اِس قصّے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسبِ ذیل اجزاء قابل ِ توجہ ہیں:

 (۱) باب۴، آیت  ۲ – ۵ میں بتایا گیاہ ے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت ۱۷ میں انہی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’تُو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا‘‘۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب ۷ سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔

(۲) باب ۵، میں فرعون سے حضرت موسی ٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اُس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر اُن کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ’’ خداوند کون ہے کہ میں اُس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا‘‘۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اِس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ ’’عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۲ – ۳)۔

 (۳) جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان بس اِن چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے: ’’اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے۔ اور موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی  لاٹھی سامنے ڈالی اور  وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی‘‘۔ (باب ۷۔ آیت ۸ – ۱۲)۔ اِس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بُری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا،  اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا،  جو قصّے کی اصل جان تھا،  سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔

 (۴) قرآن کہتا ہے کہ حضرت  موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ’’ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیے قربانی کریں‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۳)۔

(۵) مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب ۱۱ سے ۱۴ تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات،  اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور  ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب ۱۴ کی آیات ۱۵ – ۱۶ میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تُو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصّے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل جائیں گے‘‘۔ لیکن آگے چل کر آیت ۲۱ – ۲۲ میں کہا جاتا ہے کہ ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصّے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا‘‘۔ یہ  بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ؟ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب  صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟ تلمود کا بیان نسبتًا بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ایک جگہ براہِ راست  علمِ وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینہ بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: The Talmud Selections. H. Polano.  PP. ۱۵۰-۵۴,

۵۶: سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہِ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۶ – ۱۷ میں گزر چکی ہے۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن۔ جلد دوم،  الاعراف،  حاشیہ نمبر ۹۸)۔

۵۷: یعنی طُور کے مشرقی دامن میں۔

۵۸: سورۂ بقرہ رکوع ۶، اور سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے۔

۵۹: ‘‘ من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل البقرہ، حاشیہ نمبر ۷۳۔ الاعراف،  حاشیہ نمبر ۱۱۹۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشتِ سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا،  اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا( خروج، باب ۱۶۔ گنتی، باب ۱۱۔ آیت ۷ – ۹۔ یشوع، باب ۵، آیت ۱۲)۔ کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے:

’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گو ل چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں،  زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اُسے دیکھ کر آپس میں کہنے  آ٭٭راتتلگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانے تھے کہ  وہ کیا ہے‘‘ (باب ۱۶ – آیت ۱۳ – ۱۵)۔ ’’

اور بنی اسرائیل نے اُس کا نام مَن رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے نے ہوئے پوئے کی طرح تھا ‘‘  (آیت ۳۱)۔

 گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے:

’’لوگ اِدھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اُسے ہانڈیوں میں اُبال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ مَن بھی گرتا تھا‘‘  (باب ۱۱، آیت ۸ – ۹)۔           

   یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ ۴۰ برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے،  نہ مَن ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے اُن علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے ۴۰ سال تک دشت نوردی کی تھی۔ مَن اُن کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے مَن کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔

۶۰: یعنی مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں۔ اوّل توبہ، یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آ جانا۔ دوسرے، ایمان، یعنی اللہ اور رسول اور کتاب اور آخرت کو صدق ِ دل سے مان لینا۔ تیسرے عملِ صالح،  یعنی اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا۔ چوتھے ابتداء، یعنی راہِ راست پر ثابت قدم رہنا اور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا۔

۶۱: یہاں سے سلسلہء بیان اُس واقعہ کے ساتھ جُڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھیرو،  اور چالیس دن کی مدّت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔

۶۲: اس فقرے  سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر  حضرت موسیٰ اپنے ربّ کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے۔ طور کی جانبِ اَیمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اُس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدارِ الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلّی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بےہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصّہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفارِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بُت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اُٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جا یا کرتے ہیں۔

۶۳: ‘‘ یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی  نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح  السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اِس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام اُن اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ،   معاذ اللہ،  قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت ’’سامریہ‘‘  اِس واقعہ کے کئی صدی بعد سن ۹۲۵ ق م  کے قریب زمانے میں تعمیر ہو ا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ’’سامریوں‘‘  کے نام سے شہرت پائی۔ اُن کا خیال ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ محمد  (صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس بات کی سُن گُن  پالی ہو گی،  اس لیے اُنہوں نے لے  جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اِسی طرح کی باتیں اِن لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے،  اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسو یرس (شاہ ایران) کے درباری امیر ’’ہامان‘‘  سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہُوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی،  اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے،   یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے  جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل  کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرمانروا اعمری نے ایک شخص ’’سمر‘‘  نامی  سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین ۱، باب ۱۶ – آیت ۲۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے ’’سمر‘‘  نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔

۶۴: ’’اچھا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ  ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے ربّ نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا،  غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے اِن صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ  کیا گیا تھا،  کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا؟

۶۵: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا اُن کو کچھ بہت زیادہ مدّت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سر مست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے  کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا  ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔

۶۶: اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم  اپنے نبی سے کرتی ہے۔ اُس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی  ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔

۶۷: یہ اُن لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی،  نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم بے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے۔

’’لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے‘‘،   اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری بھاری زیورات  پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم  پر بار ہو گئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے  تھے اور اِس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ’’ہجرت‘‘  کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو، بلکہ یہ کارِ خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا،  اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہو تا ہے: ’’خدا نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے پر چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے‘‘۔ (باب ۳۔ آیت  ۱۴ تا ۲۲) ’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ سو اب تُو لوگوں کو کان میں یہ بات ڈال دے کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے،  اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا‘‘ (باب ۱۱۔ آیت ۲ – ۳) ’’اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے اِن لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزّت بخشی کہ جو کچھ اِنہوں نے مانگا اُنہوں نے دیا، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا‘‘۔ (باب ۱۲ – آیت ۳۵ – ۳۶) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اِس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور  ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اِسی لُوٹ کا بوجھ تھا۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے ’’اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا‘‘  کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں،  اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا  سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے، پھر اِن کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے،  تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر ان کو لاد کر چلا جا سکے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا۔

۶۸: یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب ’’پھینک دیا تھا‘‘  پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔ اس سے صورتِ واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بے خبر،  اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کر تے چلے گئے، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی،  اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نِکلتی تھی۔ اِس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے۔

۶۹: بائیبل اِس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہِ عظیم انہی سے سرزد ہو ا تھا: ’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگا ئی تو وہ  ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے اگے چلے، کیونکہ  ہم نہیں جانتے کہ اِس مرد موسیٰ کو،  جو ہم  کو ملک مصر سے نکال کر لایا، کیا ہو گیا۔ ہارون نے اُن سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنا یا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے  اے اسرائیل،  یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ خداوند کے لیے عید ہو گی‘‘  (خروج،  باب ۳۲ – آیت ۱ – ۵)

 بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اِس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو، اور بعد کے لوگوں نے اِس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے، بچھڑے کو خدا اُن کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اِس داغ کو صاف کر کے  قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ اُلٹا قصور کیا ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اِسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لاوِی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہِ عظیم کیا ہے اُنہیں قتل کیا جائے، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اُس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گوسالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتلِ عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا؟ کیا بنی لاوِی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ،  ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں  اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’’ جس نے میرا گناہ کیا  ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا‘‘۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا۔ بلکہ اِس کے برعکس  ان کو اور ان کی اولاد  کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب،  یعنی بنی لاوِی کی سرداری اور مَقدِس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا (گنتی،  باب ۱۸ – آیت ۱ – ۷)۔ کیا بائیبل کی  یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے؟

۷۰: حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت،  اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے  وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا۔ سورۂ اعراف میں اسے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ،  ’’اور موسیٰ نے (جاتے ہوئے) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو،  اصلاح کرنا،  مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا‘‘۔ (آیت ۱۴۲)۔

۷۱: ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے،  اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔

۷۲: حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع  رہنا اس کے راہِ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ  شرک ہی کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ  اِبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ ا سْتَضْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ زصلے   فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآ ءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ  مَعَ الْقَوْ مِ الظّٰلِمِیْنَ۔ ’’ میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے او ر اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ‘‘۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی،  مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تُل گئے۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے،  اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت ِ حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم  نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا،  میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورۂ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔

۷۳: اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔

 ایک گروہ،  جس میں قدیم مفسرین اور قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے،  اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ ’’سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اُٹھا لی تھی،  اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بُت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی  اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی‘‘۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ  رہا کہ فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی،  اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔

 دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ ’’مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا اُن کے دین  میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کی،  مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا‘‘۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی،  پھر امام رازی نے ا س کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرزِ جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف  محاورے اور روز مرّہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت ِ زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سُن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات  بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں  اس سے مراد لیے جاتے ہوں،  اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہر گز  اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا،  زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب  ضرور مانا جا سکتا ہے۔ اس  قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود اِن حضرات کی اردو تحریروں میں،  یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے،  تو شاید اپنے کلام کی دوچار ہی تاویلیں سُن کر یہ حضرات چیخ اُٹھیں۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اُس وقت کی جاتی ہے جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔

 اس طرزِ فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اِس سلسلۂ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پُر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی بھر  مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن  ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا،  تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینی چاہتا تھا،  تاکہ وہ اسے اپنے نقشِ قدم کی مٹی کا کرشمہ  سمجھ کر پھُول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکار ا ہے  اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پُر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔

۷۴: یعنی صر ف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا،  بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کر ے اور دور ہی سے لوگوں کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں، مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ : ’’اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اُس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہے، اس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو‘‘۔ (باب ۱۳۔ آیت ۴۵ – ۴۶) اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا، یا پھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو گی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اُسی طرح اِس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا جائے، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ میں ناپاک ہوں،  مجھے نہ چھونا۔

۷۵: موسیٰ علیہ السّلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رُخ اُس مضمون کی طرف مڑتا ہے  جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی اُن ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ  کا قصہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع ِ بحث کیا ہے، بیچ میں قصۂ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے، اور اب قصّہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے۔

۷۶: یعنی یہ قرآن،  جس کے متعلق آغازِ سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی اَن ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کرنے کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت (تذکرہ) ہے ہر اُس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو۔

۷۷: اس میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص اس درسِ نصیحت،  یعنی قرآن سے منہ موڑے گا  اور اس کی ہدایت و رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرے گا،  وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھیجنے والے خدا کا کچھ نہ بگاڑ ے گا۔ اُس کی یہ حماقت دراصل اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہو گی۔ دوسری بات یہ بتائی گئی  کہ کوئی شخص،  جس کو قرآن کی یہ نصیحت پہنچے اور پھر وہ اسے قبول کرنے سے پہلو تہی کرے،  آخرت میں سزا پانے سے بچ نہیں سکتا۔ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ کسی قوم،  کسی ملک، کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ جب تک یہ قرآن دنیا میں موجود ہے، جہاں جہاں،  جس جس ملک اور قوم کے،   جس  شخص کو بھی یہ پہنچے گا،  اس کے لیے دو ہی راستے کھلے ہوں گے۔ تیسرا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ یا تو اس کو مانے اور اس کی پیروی  اختیار کرے۔ یا اس کو نہ مانے اور اس کی پیروی  سے منہ موڑ لے۔ پہلا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام آگے آ رہا ہے۔ اور دوسرا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام یہ ہے  جو اِس آیت میں بتا دیا گیا ہے۔

۷۸: صُور،  یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ  اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جاتا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہٖ ان محدود معنوں میں لے لیں، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے  سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے مِلتی جُلتی ہو۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اُٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، النمل، حاشیہ نمبر ۱۰۶)۔

۷۹: اصل میں لفظ ’’زُرْقًا‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو  اَزْرَق  کی جمع ہے۔ بعض  لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ جو خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ازرق العین (کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدّتِ ہول سے ان کے دے دے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید ہو جاتا ہے۔

۸۰: دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’’ موت کے بعد سے اِس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے‘‘۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی،  اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ o قَالُوْ ا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَادِّیْنَ۔ ’’اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصّہ رہے ہوں گے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے‘‘  (المومنون آیات ۱۱۲ – ۱۱۳)۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے   وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْ ا غَیْرَ سَا عَۃٍ کَذٰلِکَ کَا نُوْ ا یُؤْفَکُوْنَo وَقَالَ الَّذیْنَ اُوْتُوْ ا الْعِلْمَ وَ ا لْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo ’’اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر  کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا  تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے، مگر تم جانتے نہ تھے‘‘ (الروم – آیات ۵۵ – ۵۶)۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی  اور برزخ کی زندگی،  دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت  کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کفِ افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد ِ موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالمِ آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی  کے ساتھ ان کے ذہن میں اُترا ہی نہ تھا۔ یہی تصوّرات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدار ہوں گے  اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نرسنگھے کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پائیں گے تو وہ شدید گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ  سے دوچار ہونے کے  بعد سے اِس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا۔ اُن کی کھوپڑی میں اُس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا  میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے ہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اُڑا دیا کرتے تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا یہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں،  اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے  والے صاحب لوگ صور کی  آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں۔

۸۱: یہ جملۂ  معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سامعین کے اس شبہہ کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخر اُس وقت میدانِ حشر میں بھاگتے ہوئے لوگ چپکے چپکے جو باتیں کریں گے وہ آج یہاں کیسے بیان ہو رہی ہیں۔

۸۲ یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا ربّ ان کو دھُول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے ۸۳۔۔۔۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ ۸۴ کے سوا تم کچھ نہ سُنو گے۔ اُس روز شفاعت  کار گر نہ ہو گی اِلّا یہ کہ کسی کو رحمٰن اس کی اجازت دے اور اس کی بات سُننا پسند کرے ۸۵۔۔۔۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے ۸۶۔۔۔۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیّوم کے آگے جھُک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہو گا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔ ۸۷
اور اے محمدؐ،  اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے ۸۸ اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہو کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں۔ ۸۹ پس بالا و برتر ہے اللہ،  پادشاہِ حقیقی۔ ۹۰
اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے  مزید علم عطا کر۔ ۹۱
۹۲ ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، ۹۳ مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ ۹۴ ؏ ٦

۸۲: یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ  جس وقت یہ سُورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سُنائی جا رہی ہو گی اس وقت کسی نے مذاق اُڑانے کے لیے یہ سوال اُٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اُس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے  چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ مکہ جس مقام  پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوُٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرّے،  اور ان کو دھُول کی طرح اُڑا کر ساری زمین  ایک ایسا ہموار  میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا۔ اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ  تک نہ ہو۔

۸۳: عالم ِ آخرت میں زمین کی جو نئی شکل بنے گی اسے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر بیان کیا گیا ہے۔ سُورۂ انشقاق میں فرمایا   اِذَ ا الْاَرْضُ مُدَّتْ ’’زمین پھیلا  دی جائے گی‘‘۔ سُورۂ انفطار میں فرمایا  اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ،  ’’سمندر پھاڑ دیے جائیں گے‘‘،  جس کا مطلب غالباً  یہ ہے کہ سمندروں کی تہیں پھٹ جائیں گی اور سارا پانی زمین کے اندر اُتر جائے گا۔ سُورۂ  تکویر میں فرمایا   اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ، ’’سمندر بھر دیے جائیں گے یا پاٹ دیے جائیں گے‘‘۔ اور یہاں بتایا جا رہا ہے کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے ساری زمین ایک ہموار میدان کی طرح کر دی جائے گی۔ اس سے جو شکل ذہن میں بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمِ آخرت میں یہ پورا کرۂ زمین سمندروں کو پاٹ کر،  پہاڑوں کو توڑ کر،  نشیب و فراز کو ہموار اور جنگلوں کو صاف کر کے بالکل ایک گیند کی طرح بنا دیا جائے گا۔ یہی  وہ شکل ہے جس کے متعلق سُورۂ ابراہیم آیت ۴۸ میں فرمایا   یَوْمَ تُبَدِّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ، ’’ وہ دن جبکہ زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی‘‘۔ اور یہی زمین کی وہ شکل ہو گی جس پر حشر قائم ہو گا اور اللہ تعالیٰ عدالت میں فرمائے گا۔ پھر اس کی آخری اور دائمی شکل وہ بنا دی جائے گی جس کو سُورۂ زُمر آیت نمبر ۷۴  میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: وَ قَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَ ہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ،  فِنِعْمَ اَجْرَ الْعٰمِلِیْنَ oیعنی متقی لوگ ’’کہیں گے کہ  شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم سے اپنے وعدے پورے کیے اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم اس جنت  میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آخر کار یہ پورا کُرہ جنت بنا دیا جائے گا اور خدا کے صالح و متقی بندے اس کے وارث ہوں گے۔ اُس وقت پوری زمین ایک ملک ہو گی۔ پہاڑ،  سمندر،  دریا، صحرا، جو آج زمین کو بے شمار ملکوں اور وطنوں میں تقسیم کر رہے ہیں،  اور ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی بانٹے دے رہے ہیں، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گے۔ (واضح رہے کہ صحابہ و تابعین میں سے ابنِ عباس ؓ اور قتادہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اِسی زمین پر ہو گی،  اور سورۂ نجم  کی آیت عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی o عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ جنت ہے جس میں اب شہدا ء کی ارواح رکھی جاتی ہیں)۔

۸۴: اصل میں لفظ ’’ہَمس‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو قدموں کی آہٹ،  چپکے چپکے بولنے کی آواز، اونٹ کے چلنے کی آواز اور ایسی ہی ہلکی آوازوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی آواز، بجز چلنے والوں کے قدموں کی آہٹ اور چپکے چپکے بات کرنے والوں کی کھُسر پھُسر  کے نہیں سُنی جائے گی۔ ایک پُر ہیبت سماں بندھا ہوا ہو گا۔

۸۵: اس آیت کے  دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’ اُس روز شفاعت کا ر گر نہ ہو گی اِلَّا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو‘‘۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأتنہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہِ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا  مَنْ ذَ ا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بَاِذْنِہٖ، ’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ‘‘  (بقرہ – آیت ۲۵۵)۔ اور یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئیکَۃُ صَفًّا،  لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہْ الرَّ حْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا، ’’وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے‘‘  (النبا – آیت۳۸)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا   وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ، ’’ اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو،  اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں‘‘ ( الانبیاء – آیت ۲۸)۔ اور کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰ تِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتھُُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْم ’’بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآ ءُ وَیَرْضٰی، ’’کتنے  ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے  کہ  اللہ  سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے‘‘  (النجم،  آیت ۲۶)۔

۸۶: ’’یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں  یا انبیاء یا اولیاء،  کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے  اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے،  کون دنیا میں کیا کرتا  رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتُوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے  ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے  کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا  لائیں گے،  درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نا فرض شناس،  رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتُوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہِ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح،  معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا۔ نیک بندے،  جو دنیا میں خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اُسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ  وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ  صَوَابًا (اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربّانی صاف بتا رہا ہے۔ بَونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں،  ہزاروں بندگانِ خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اُٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔

۸۷: یعنی وہاں فیصلہ ہر انسان کے اوصاف (Merits ) کی بنیاد پر ہو گا۔ جو شخص کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا،   خواہ اس نے ظلم اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو، یا خلقِ خدا کے حقوق پر،  یا خود اپنے نفس پر،  بہرحال یہ چیز اسے کامیابی کا منہ نہ دیکھنے دے گی۔ دوسری طرف جو لوگ ایمان اور عملِ صالح (محض عمل ِ صالح نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح، اور محض ایمان بھی نہیں بلکہ عملِ صالح کے ساتھ ایمان) لیے ہوئے آئیں گے،  اُن کے لیے وہاں نہ تو  اس امر کا کوئی  اندیشہ ہے کہ ان پر ظلم ہو گا، یونی خواہ مخواہ بے قصُور  ان کو سزا دی جائے گی، اور نہ اسی امر کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے گا اور ان کے جائز حقوق مار کھائے جائیں گے۔

۸۸: یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز۔ اِس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے۔ اور اس کا سلسلۂ بیان اُن آیات سے جُڑتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سُورہ اور پھر قصّۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد  فرمائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ’’تذکرہ‘‘  جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے،  اور وہ ’’ذِکر‘‘  جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے، اِس شان کا تذکرہ اور ذِکر ہے۔

۸۹: یعنی اپنی غفلت سے چونکیں، بھُولے ہوئے سبق کو کچھ یاد کریں، اور ان کو کچھ اِس  امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے۔

۹۰: اِس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائے  جاتے ہیں،  اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا  پر ہو۔ اندازِ بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلیٓ اٰ دَمَ سے دوسری تقریر شروع ہو تی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہو ں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمِ الہٰی کے تحت ان کو سورہ میں جمع کر دیا  ہا گا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔

۹۱: فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ  پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کر نے کے دَوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب  نہ سمجھا گیا،  اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر  یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دُہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار  بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذِ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ رہی ہو گی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسُوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی  وصول کر نے کا صحیح طریقہ  سمجھا یا جائے،  اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے۔

 اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ   طٰہٰ کا یہ حصّہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ  میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو ابھی اخذِ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ  سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہو ا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اِس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہُوا تھا اور اس پر سلسلۂ  کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ  لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَجْعَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰ نَہٗ، فَاِذَا قَرَ اْنٰہٗ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ، ’’ اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اِسے یاد کرا دینا  اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا  دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘  سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھُولیں گے نہیں، سَنُقْرِ ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔

۹۲: جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے،  یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں۔ مثلاً یہ کہ:

 (۱) وہ بھُولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تحا اور جسے یاد دلاتے  رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا،  اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ’’ذکر‘‘  آتے رہے ہیں۔

 (۲) انسان اُس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے، اور یہ کمزوری وہ آغازِ آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے۔ سب سے پہلی بھُول اُس کے اوّلین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے، اِسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاددہانی کرائی جاتی رہے۔

(۳) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اُس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِس ’’ذِکر‘‘  کے ساتھ وہ کرے گا،  آغازِ آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی۔ آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کر و گے تو گمراہی و بدبختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلائے مصیبت ہو گے۔

(۴) ایک چیز ہے بھُول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی  دشمن،  شیطان کے بہکائے میں آ جائے اور غلطی کر بیٹھے۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح  کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور کوب سوچ  سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا۔ اِس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام  ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا۔

۹۳: آدم علیہ السّلام کا قصہ اس سے پہلے سورۂ  بقرہ،  سورۂ اعراف (دو مقامات پر )،  سورۂ حِجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دُہرایا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سلسلۂ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں۔ قصّے کے جو اجزا ء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں،  دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے،  یا طرزِ بیان ذرا  مختلف ہو گا۔ پورے قصّے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق  اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا  ہے۔

۹۴: یعنی اُس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی  سرکشی  کی بنا پر نہ تھا،  بلکہ غفلت اور بھُول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پرو ا  کرتا ہوں،  اس کا حکم ہے تو ہوا کرے،  جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اِس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی،  بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا  تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا  اُس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے)  یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر تا۔

 بعض لوگوں نے ’’اُس میں عز م نہ پایا‘‘  کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا‘‘  یعنی اُس نے جو کچھ کیا بھُولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الْعِصْیَانِ  کہا جاتا نہ کہ محض   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعتِ حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السّلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصّہ بیان  نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ’’ہم نے اس میں اطاعت ِ امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا‘‘۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ آدم علیہ السّلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نا مناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ   لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ’’مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سُن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی  اور نہ موقع محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد ۱۶۔ صفحہ ۲۴۳)۔

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ ۹۵ سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ۹۶،  ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنّت سے نکلوا دے ۹۷ اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آزمائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھُوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھُوپ تمہیں ستاتی ہے۔‘‘  ۹۸ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا۔ ۹۹ کہنے لگا ’’ آدم،  بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟‘‘  ۱۰۰ آخر کار دونوں(میاں بیوی)اُس درخت کا پھل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی اُن کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ ۱۰۱ آدمؑ نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ ۱۰۲ پھر اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ کیا ۱۰۳ اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ ۱۰۴ اور فرمایا ’’تم دونوں (فریق،  یعنی انسان اور شیطان)یہاں سے اُتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دُشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔ اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہو گی ۱۰۵ اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔‘‘  ۱۰۶۔۔۔۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘  اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو،  جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں،  تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔ ‘‘  ۱۰۷۔۔۔۔ اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں)بدلہ دیتے ہیں،  ۱۰۸ اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔
پھر کیا اِن لوگوں کو ۱۰۹ (تاریخ کے اِس سبق سے )کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ)بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں ۱۱۰ بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔ ؏۷

۹۵: یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام  کو دیا گیا تھا،  یعنی یہ کہ ’’اِس خاص درخت کا پھل نہ کھانا‘‘۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید  میں بیان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے،  اور کسی طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف  ہوتا ہے،  اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اُس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی۔

۹۶: دشمنی کا مظاہرہ اُسی وقت ہو چکا تھا۔ آدم اور حوا علیہما السّلام نے خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف  یہ کہہ کر کیا ہے کہ  اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ، ’’میں اس سے بہتر ہوں،  تُو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۲۔ ص۔ آیت ۷۶)۔ اَرَ اَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ، ’’ذرا دیکھ تو سہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تُو نے مجھ پر فضیلت دی ہے‘‘۔ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا، ’’ اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تُو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۶۱ – ۶۲)۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے، میں اِسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ۔ اعراف، حِجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورۂ ص میں بھی آ رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا  دشمن ہے، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی،  بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سُن چکے تھے۔

۹۷: اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکائے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں۔

۹۸: یہ تشریح ہے اُس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا،  یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا، پانی، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کر نے کے لیے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا  علیہما السّلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نِکل کر انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنار،  یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور پانی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ  جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصّہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت۔

۹۹: یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السّلام تھے نہ کہ حضرت حوا۔ اگرچہ سورۂ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رُخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہے کہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا(پیدائش،  باب ۳)۔

۱۰۰: سورۂ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے  وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ، ’’اور اس نے کہا کہ تمہارے ربّ نے تم کو اس درخت سے صرف اس لے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو‘‘۔ (آیت ۲۰)۔

۱۰۱: بالفاظِ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرکاری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں، اور اس کا اوّلین ظہُور لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا۔ غذا، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد  ہی میں آسکتی تھی۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری  پوشاک تھی جو اسی وقت اُتروا لی گئی۔

۱۰۲: یہاں اُس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے  جو آدم علیہ السّلام سے ظہُور میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور ربّ جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہِ راست علم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ شیطان اُن کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکاؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا۔ اِن ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آ کر ایک بہتر حالت(زندگیِ جاوداں اور سلطنتِ لازوال) کا لالچ دیا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھِسل گئے،  حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے۔ بس ایک فوری جذبے نے،  جو شیطانی تحریص کے زیرِ اثر اُبھر آیا تھا، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقامِ بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔ یہی وہ ’’بھول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  ہے جس کا ذکر قصّے کے آغاز میں کیا گیا تھا، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی  اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہو ئی، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو۔

۱۰۳: یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا، اطاعت کی کوشش میں ناکام ہو کر جہاں وہ گر گئے تھے وہیں انہیں پڑا  نہیں چھوڑ دیا،  بلکہ اُٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ ایک سلوک وہ ہے جو بالارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر  اپنے ربّ کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض ’’بھُول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائے۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا،  کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اُٹھے تھے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ، ’’اے ہمارے پروردگار،  ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا،  اور اگر تُو ہم سے درگزر نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم برباد ہو جائیں گے‘‘ (اعراف۔ آیت ۲۳)۔

۱۰۴: یعنی صرف معاف ہی نہ کیا،  بلکہ آئندہ کے لیے راہِ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا۔

۱۰۵: دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا۔ کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے  ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرّت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔

۱۰۶: ’’اس جگہ آدم علیہ السّلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں،  اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السّلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین  پر بنائی گئی ہو۔ بہر حال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمّہ تھا اور خدمت گار (فرشتے) اُس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہد ے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھُل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا۔ چنانچہ امتحان لیا گیا  اور جو بات کھُلی وہ یہ تھی کہ اُمیدوار تحریص و اِطماع کے اثر میں آ کر پھسل جاتا ہے، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہ رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آ جاتا ہے۔ اِس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجائے آزمائشی خلافت دی گئی،  اور آزمائش کے لیے ایک مدّت (اجلِ مسمّٰی،  جس اختتام قیامت پر ہو گا) مقرر کر دی گئی۔ اِس آزمائش کے دَور میں اُمیدوار کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں اور اگر بھُول لاحق ہوتی ہے،   یا تحریص و اطماع کے اثر میں آ کر پھسلتے ہیں،  تو تنبیہ،  تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے  بھی ہیں یا نہیں؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے،  طاعت کا یا معصیت کا؟ اس آزمائشی خلافت کے دَوران میں ہر ایک کے طرزِ عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت،  اُس دائمی  زندگی  اور لازوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ  دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جائے گی۔ اُس وقت یہ پُوری زمین جنت بنا دی جائے گی اور اس کے وارث خدا کے صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر، یا بھُول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اور وہاں خلافتِ الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ مگر ان ترقیات اور اُن خدمات کا تصوّر کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی۔ اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف  انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی  لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ  کر سکتے ہیں۔

 اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ آدم و حوا کا قصّہ  جس طرح بائیبل میں بیان ہو ا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا  تھا وہاں رکھا‘‘۔ ’’اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا  اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔ کیونکہ جس روز تُو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا اُس پسلی  سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا‘‘۔ ’’اور  آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے  نہ تھے‘‘۔ ’’ اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا،  چالاک تھا،  اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا‘‘ ؟ ’’سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور  اپنے شوہر کو بھی کھلایا۔ ’’تب دونوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی  کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھر تا تھا، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا‘‘۔ ’’پھر خدا نے آدم کو پکارا  کہ تُو کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سُن کر ڈرا اور چھُپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا۔ خدا نے کہا ارے، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تُو ننگا ہے۔ ضرور تُو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوّا نے اس کا پھل کھلایا، اور حوّا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا ’’ اس لیے کہ تُو نے یہ کیا  تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھیرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور   عمر بھر  خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کی درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا  اور تُو اس کی ایڑی پر کاٹے گا‘‘۔ اور عورت کو یہ سزا دی کہ ’’میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا،  تُو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا‘‘۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا ’’ اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی، مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا۔۔۔۔۔۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا‘‘۔ پھر ’’خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُن کو پہنائے‘‘۔ ’’اور خداوند نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان  میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن  سے باہر کر دیا‘‘ (پیدائش، باب ۲،  آیات ۷ – ۲۵۔ باب ۳،  آیات ۱ – ۲۳) بائیبل کے اِس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۱۰۷: قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی  ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآ ءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ، ’’ تُو اِس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا،  اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے‘‘  یعنی تجھے نظر آ رہا ہے۔(ق۔ آیت ۲۲)۔ دوسری کیفیت یہ ہے:  اِنَّمَا یُؤَ خِّرھُُْ لِیَوْ مٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَا رُ  مھُْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفھُُمْ وَاَفْئیدَ تھُُمْ ھَوَآ ء، ’’ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی  کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اُڑتے جاتے ہیں‘‘  (ابراہیم۔ آیت ۴۳)۔ تیسری کیفیت یہ ہے:   وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَا بًا یَّلْقٰہُ مَنْشُورًا،  اِقْرَأْ کِتَابَکَ،  کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا، ’’ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا۔ پڑھ اپنا  نامۂ اعمال،  آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۱۳ – ۱۴)۔ اور انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے  جو آیت زیرِ بحث میں بیان ہوئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامتِ اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے، لیکن بس ان کی بینائی  یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی۔ باقی دوسری حیثیتوں سے ان کا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو،  جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو، اور  اس کو کچھ نہ سُوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے۔ اسی کیفیت کو اِن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ ’’ جس طرح تُو نے ہماری آیات کو بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے‘‘،  یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تُو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا  ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا،  کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا،  اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی۔

۱۰۸: اشارہ ہے اس ’’تنگ زندگی‘‘  کی طرف جو اللہ کے ’’ذِکر‘‘  یعنی اس کتاب اور اس کے بھیجے ہوئے درسِ نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں بسر کرائی جاتی ہے۔

۱۰۹: اشارہ ہے اہلِ مکّہ کی طرف جو اُس وقت مخاطب تھے۔

۱۱۰: یعنی تاریخ کے اِس سبق میں،  آثارِ قدیمہ کے اس مشاہدے میں، نسلِ انسانی کے اِس تجربے میں۔

اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدّت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔ پس اے محمدؐ،  جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے ربّ کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سُورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، ۱۱۱ شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔ ۱۱۲ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔وہ تو ہم نے اُنہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے ربّ کا دیا ہوا رزقِ حلال ۱۱۳ ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو ۱۱۴ اور خود بھی اُس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ ۱۱۵
وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ)کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آگیا؟  ۱۱۶ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تُو نے ہمارے پاس کوئی رسُول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رُسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔اے محمدؐ،  اِن سے کہو، ہر ایک انجامِ کار کے انتظار میں ہے، ۱۱۷ پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں۔ ؏ ۸

۱۱۱: یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا،  اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے، اس لیے اُس کی دی ہوئی اس مُہلت کے دَوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اُس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و تُرش باتیں سُنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اِس تحمل و برداشت اور اِس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں اِن اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ ’’رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح‘‘ کرنے سے مراد نماز ہے، جیسا کے آگے چل کر خود فرما دیا   وَأْ مُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا، ’’ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو او ر خود بھی اس کے پابند  رہو‘‘۔ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ سُورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ سُورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے،  تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے،  دوسرا کنارہ زوالِ آفتاب، اور تیسرا کنارہ شام۔ لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر  اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم۔ ہود،  حاشیہ نمبر ۱۱۳۔ بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۹۱ تا ۹۷۔ جلد سوم، الروم حاشیہ نمبر ۲۴۔ جلد چہارم،  المومن، حاشیہ نمبر ۷۴۔

۱۱۲: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مِشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو ابھی سزا نہیں دی جائے گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ  تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو،  اس کا نتیجہ  وہ کچھ سامنے آئے گا  جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا  عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ’’توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام ِ محمود پر پہنچا دے گا‘‘  آیت ۷۹۔ اور سُورۂ ضحٰی میں فرمایا   وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ o وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ، ’’ تمہارے لیے بعد کا دَور یقیناً پہلے دَور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا ربّ تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے‘‘۔

۱۱۳: رزق کا ترجمہ ہم نے ’’رزق حلال‘‘  کیا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو ’’رزقِ ربّ‘‘  سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہری چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں،  اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابلِ رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔

۱۱۴: یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں اِن حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز اُن کے زاویۂ نظر  کو بدل دے گی۔ ان کے معیارِ قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اُس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اُس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے۔

۱۱۵: یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔

۱۱۶: یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک اُمی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتبِ آسمانی کی مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اُن کتابوں میں جو کچھ تھا، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا،  بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحرا نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

۱۱۷: یعنی جب سے یہ دعوت تمہارے شہر میں اُٹھی ہے،  نہ صرف اس شہر کا بلکہ گردو پیش کے علاقے کا بھی ہر شخص انتظار کر رہا ہے کہ اس کا انجام آخر کار کیا ہوتا ہے۔

٭٭٭

۲۱۔ سورۂ الْانبیاء

نام

اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے،  اس لیے اس کا نام ’’ الانبیاء‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے۔

زمانۂ نزول

مضمون اور انداز بیان، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایا ں طور پر محسوس ہوتی ہے۔

موضوع و مضمون

 اس سورہ میں ہو کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی۔ وہ لوگ آں حضرتؐ کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوت توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ در اصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔

دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں :

۱) کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔

۲) ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے۔

۳) ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے،  اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے،  کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس غفلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے،  اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے۔

۴) شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں۔

۵) ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں  سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت،  دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دورا ن میں خدا کی طرف سے آئے تھے تھے،  انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ بتھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں،  اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں،  مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے،  اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں۔

آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار  کرنے پر ہے۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے۔اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت،  ۱ اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲ ان کے پاس جو تازہ نصیحت ہی ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے ۳ اُس کو بے تکلف سُنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، ۴ دل اُن کے ( دوسری ہی فکروں میں)منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتےہیں کہ ’’یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟‘‘  ۵ رسُولؐ نے کہا،  میرا ربّ ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔ ۶ وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں،  بلکہ یہ اِس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ ۷ ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسُول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔‘‘ حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟ ۸
اور اے محمدؐ،  تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسُول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ ۹ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو۔ ۱۰ اُن رسُولوں  کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ آخر کار ہم نے اُن کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور اُنہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔ ۱۱ لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے،  کیا تم سمجھتے نہیں  ہو؟ ۱۲  ؏١

۱: مراد ہے قرب قیامت۔ یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا  حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دَور میں داخل ہو رہی ہے۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؐ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا   بُعِثتُ انا وَ السَّا عَۃُ کَھَا تَیْنِ،  ’’ میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ہیں۔‘‘  یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جا ؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔

۲: یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا ہے اور نہ اُس پیغمبر کی بات سُنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۴: وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے،  اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی کا کھیل ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی  کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سُنتے ہیں۔

۵: ’’پھنسے جاتے ہو‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے،  اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفارِ مکہ کہ وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر نے کی بڑی فکر لاحق تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا،  کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے،  بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اِس میں وہ نِرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہون اور ہماری بہ نسبت اِس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جو ل رکھو،  کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے  جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ’’سحر‘‘  کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی سن ۱۵۲ ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خوار کے باپ) نے سردارانِ قریش سے کہا، اگر آُ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابرِ قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید،  تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، ’’ بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزّت حاصل تھی،  تم خود جانتے ہو، اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبُودوں کی بُرائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ۔ سرداری  چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار  مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری  ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے  میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مِل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں ‘‘۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا  اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپؐ نے فرمایا ’’ ابو الولید،  جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں یا اور کچھ کہنا ہے؟ ‘‘  اس نے کہا بس مجھے جو کچھ  کہنا تھا میں  نے کہہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اب   میری سُنو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، حٰمٓ،  تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد  کچھ دیر تک مسلسل آپؐ  سورۂ حٰم السجدہ  کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا،  اور پھر سر اُٹھا کر عُتبہ سے فرمایا، ’’ابو الولید،   جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سُن لیا،  اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔ عتبہ یہاں اُٹھ کر سردارانِ قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں  نے دُور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے  جسے لے کر وہ گیا تھا‘‘۔ اس کے  پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا،  ’’ کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو‘‘ ؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سُنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سُنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے،  نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش،  میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سُنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا،  دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر  یہ عرب پر غالب آگیا تو  اس کی حکومت تمہاری حکومت  ہو گی  اور اس کی عزّت تمہاری عزّت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’واللہ،  ابو الولید  تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ‘‘۔ اس نے کہا ’’ یہ میری رائے ہے،  اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابنِ ہشام، جلد اوّل، ص ۳۱۳ – ۳۱۴)۔ بیہقی نے اِس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک  روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ؐ سورۂ حٰم السجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے کہ    فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَا عِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ،  تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ  پر ہاتھ رکھ دیا  اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ ’’

دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلۂ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اُونٹ لے کر مکّہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اُونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَاشی نے تنگ آ کر ایک روز حرمِ کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمعِ عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسرے طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف  فرما تھے۔ سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے‘‘۔ اراشی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’آج لطف آئے گا‘‘۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپؐ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان  کی طرف روانہ ہو گئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے  پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا ’’کون‘‘ ؟ آپؐ نے جواب دیا ’’محمد ؐ‘‘۔ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپؐ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو‘‘۔ اس نے جواب میں کوئی چون و چرا نہ کی،  اندر گیا اور اس کے اُونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ  حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سُنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے کہ جو کبھی نہ دیکھا تھا،  حَکَم بن ہِشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد ؐ کو دیکھتے ہی اُس کا  رنگ فق ہو گیا اور جب محمد ؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام  کے جسم میں جان نہیں ہے۔(ابن ہشام،  جلد ۲، ص ۲۹ – ۳۰)

یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔

۶: یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign ) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ’’تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے،  خواہ زور سے کہو، خواہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو‘‘۔ وہ کبھی بے انصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اُتر آیا۔

۷: ’’اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع  کی جائے اور ہر اس شخص کو،  جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان  کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ  ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی،   مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے،  اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ  رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے،  دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ  تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت  ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں  ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو  وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔ اس کی دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمر و دَوسی کا قصہ ہے جسے  ابن اسحاق  نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ دَوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کی چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بدگمان ہو گیا اور میں نے یہ طے کر لیا کہ  آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کونوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسُوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ  کیا کہتا ہے۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ پ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی  جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سُنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ہیں۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے،  آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں مجھ کر قرآن کا ایک حصہ سُنایا اور میں اس سے  اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعتِ اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوۂ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، جلد ۲،  ص ۲۲ – ۲۴)

 ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سردارانِ قریش  اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارِث نے تقریر کی کہ ’’ تم لوگ محمد ؐ کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر  جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑ ھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے  کو آ گئے،  تم کہتے ہو  یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے ساحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے،   ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سُنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں ان کا ہمیں علم ہے۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے،  شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اُس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے،  مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں؟ اے سردارانِ قریش،  کچھ اَور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو‘‘۔ اس  کے بعد اُس نے  یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفند یار کے قصّے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا  اور خود نَضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام،  جلد اوّل،  ص ۳۲۰ – ۳۲۱)

۸: اس  مختصر سے جملے میں نشانی کی مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسُولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو،  مگر یہ بھُول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ اُن نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ  لائے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ  جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔ تیسرے یہ کہ تمہاری  منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں؟

۹: یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ’’یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے‘‘۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے  جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے،  وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے  ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  یٰسین،  حاشیہ نمبر ۱۱)۔

۱۰: یعنی یہ یہودی،  جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ  پیچ سکھایا کرتے ہیں، انہی سے پوچھ لو کہ   موسیٰ اور دوسرے انبیاء ِ بنی اسرائیل کون تھے۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق؟

۱۱: یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ  پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان تھے،  بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی نصرت و تائید کے،   اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کر دینے کے،  جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو۔

۱۲: یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے، یہ ساحری ہے،  یہ پراگندہ خواب ہیں، یہ من گھڑت افسانے ہیں، وغیرہ۔ اس پر فرمایا  جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملاتِ زندگی  زیرِ بحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف  میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھا یا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اِس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو؟

کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پِیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری کسی قوم کو اُٹھایا۔ جب اُن کو ہمارا عذاب محسوس ہوا ۱۳ تو لگے وہاں سے بھاگنے۔ (کہا گیا) ’’بھاگو نہیں، جاؤ اپنے اُنہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے۔ ‘‘  ۱۴ کہنے لگے ’’ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔‘‘  اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک اُن میں نہ رہا۔
ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۱۵ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ ۱۶ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جا تا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ ۱۷
زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ ۱۸ اور جو (فرشتے)اُس کے پاس ہیں ۱۹ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملُول ہوتے ہیں۔ ۲۰ شب و روز اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَ م نہیں لیتے۔ کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ ( بے جان کو جان بخش کر)اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟ ۲۱
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان)دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ ۲۲ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش ۲۳ اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کے لیے ( کسی کے آگے)جواب دہ نہیں ہے اور سب جواب دہ ہیں۔ کیا اُسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمد ؐ،  ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی۔ ‘‘  ۲۴ مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲۵ ہم نے تم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔
یہ کہتے ہیں ’’رحمٰن اولاد رکھتا ہے۔‘‘  ۲۶ سُبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے  اوجھل ہے اُس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سُننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ ۲۷ اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اُسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ ؏ ۲

۱۳: یعنی جب عذابِ الہٰی سر پر آگیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آ گئی شامت۔

۱۴: نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، مثلاً: ذرا اچھی طرح اِس عذاب کا معائنہ کرو تا کہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو۔ اپنے وہی ٹھا ٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہے۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو،  شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے  کے لیے دنیا حاضر ہو۔

۱۵: یہ تبصرہ ہے اُن کے اُس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے۔ چند روز کی بھلی بُری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اِس بات کا ہم معنی  تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے۔ اور یہی خیال دعوتِ پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا  اصل سبب  تھا۔

۱۶: یعنی ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کر ہم خود ہی کھیل لیتے۔ اِس صورت میں یہ ظلم تو ہر گز نہ کیا جاتا کہ خواہ مخواہ ایک ذی حِس،  ذی شعور، ذمہ دار مخلوق کو پیدا کر ڈالا جاتا، اُس کے درمیان حق و باطل کی یہ کشمکش اور کھینچا تانیاں کرائی جاتیں، اور محض اپنے لطف و تفریح کے لیے ہم دوسروں کو بلاوجہ تکلیفوں میں ڈالتے۔ تمہارے خدا نے یہ دنیا کچھ رومی اکھاڑے(Coliseum ) کے طور پر نہیں بنائی ہے کہ بندوں کی درندوں سے لڑوا کر اور ان کی بوٹیاں نچوا کر خوشی کے ٹھٹھے لگائے۔

۱۷: یعنی ہم بازی گر نہیں ہیں،  نہ ہمارا کام کھیل تماشا کرنا ہے۔ ہماری یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام ہے جس میں کوئی باطل چیز نہیں جم سکتی۔ باطل یہاں جب بھی سر اُٹھاتا ہے، حقیقت  سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخر کار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے۔ اس دنیا کو اگر تم تماشا گاہ سمجھ کر جیو گے،   یا حقیقت  کے خلاف باطل نظریات پر کام کرو گے تو نتیجہ تمہاری اپنی ہی تباہی ہو گا۔ نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض ایک تماشا گاہ،  محض ایک خوانِ  یغما، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے در پے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جب سمجھانے والا سمجھائے تو اس کا مذاق اُڑاؤ، اور جب اپنے ہی کیے کرتُوتوں کے نتائج عذاب الہٰی کی صورت میں سر پر آئیں تو چیخنے لگو کہ ’’ہائے ہمارے کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے‘‘۔

۱۸: یہاں سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر گفتگو شروع ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مشرکینِ مکہ کے درمیان اصل بنائے نزاع تھی۔ اب مشرکین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کائنات کا یہ نظام جس میں تم جی رہے ہو (جس کے متعلق ابھی یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے،  جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اور با مقصد اور مبنی بر حقیقت نظام ہے،  اور جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس میں باطل ہمیشہ حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے) اِس کی حقیقت یہ ہے کہ اس پورے نظام کا خالق، مالک، حاکم اور ربّ صرف ایک خدا ہے، اور اس حقیقت کے مقابلے میں باطل یہ ہے کہ اسے بہت سے خداؤں کی مشترک سلطنت سمجھا جائے،  یا یہ خیال کیا جائے کہ ایک بڑے خدا کی خدائی میں دوسرے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بھی کچھ دخل ہے۔

۱۹: یعنی وہی فرشتے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی اولاد سمجھ کر، یا خدائی میں دخیل مان کر معبود بنائے ہوئے تھے۔

۲۰: عنی خدا کی بندگی کرنا  ان کو ناگوار بھی نہیں ہے کہ بادل نا خواستہ بندگی کرتے کرتے وہ ملول ہو جاتے ہوں۔ اصل میں لفظ  لا یستحسرون استعمال کیا گیا ہے۔ استحسار میں تکان کا مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ تکان ہے جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہو تی ہے۔

۲۱: اصل میں لفظ ’’یُنشرون‘‘  استعمال ہوا ہے جو ’’اِنشار‘‘  سے مشتق ہے۔ اِنشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اُٹھا کھڑا کرنا۔ اگرچہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعدِ موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادّے میں زندگی  پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اور موقع  و محل کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے،  کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادّۂ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اور مشرکینِ عرب خود  مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ اُن  کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں؟

۲۲: یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ سادہ سی بات،  جس کو ایک بدوی،  ایک دیہاتی، ایک موٹی  سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے،  یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحبِ خانہ ہوں۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں  سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ اِن بے شمار اشیاء  اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن،  جلد دوم، بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ نمبر ۸۵)۔

۲۳: ربّ العرش،  یعنی کائنات کے تختِ سلطنت کا مالک۔

۲۴: پہلے دو استدلال عقلی تھے۔ اور یہ استدلال  نقلی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا  کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں،  ان میں سے کسی میں یہ نکال کر دکھا دو کہ ایک اللہ، خالقِ زمین و آسمان  کے سوا کوئی دوسرا بھی خدائی کا کوئی شائبہ رکھتا ہے اور کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے  جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں۔

۲۵: یعنی نبی کی بات پر اِن کا توجہ نہ کران علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابلِ التفات سمجھتے ہیں۔

۲۶: یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے۔

۲۷: مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ ان کے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع(سفارشی ) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُ لَآءِ شُفَعَآ ؤُ نَا عِنْدَاللہِ (یونس،  آیت ۱۸)۔ اور   مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفًا  (الزمر، آیت ۳)۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے۔ اِس جگہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہیں اور اُن باتوں کو بھی جو اُن سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ آخر ان کو سفارش کر نے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین،  ہر ایک  کا اختیار ِ شفا لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطورِ خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا  بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سرِ نیاز جھکایا جائے اور دستِ سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، طٰہٰ،  حاشیہ نمبر ۸۵ – ۸۶)۔

کیا وہ لوگ جنہوں نے ( نبی کی بات ماننے سے )انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، ۲۸ اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ ۲۹ کیا وہ ( ہماری اِس خلاقی کو )نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تا کہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، ۳۰ اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، ۳۱ شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ ۳۲ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، ۳۳ مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف ۳۴ توجہ ہی نہیں کرتے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔ ۳۵
۳۶ اور اے محمدؐ،  ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو موت کا مزّہ چکھنا ہے، ۳۷ اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ ۳۸ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟‘‘  ۳۹ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں۔ ۴۰
انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ۴۱ ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ ۴۲۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’آخر یہ دھمکی پُوری کب ہو گی اگر تم سچے ہو؟‘‘  کاش اِن کافروں کو اُس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اُس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گے۔ مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اُڑایا جا چکا ہے مگر اُن کا مذاق اُڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ ؏۳

۲۸: اصل میں لفظ ’’رتق‘‘  اور ’’فتق‘‘  کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رَتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass ) کی سی تھی،  بعد میں اُس کے الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اَجرامِ فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  حٰمٓ السجدہ،  حاشیہ نمبر ۱۳ – ۱۴ – ۱۵)۔

۲۹: اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سببِ زندگی اور اصلِ حیات بنایا، اُسی میں اور اُسی سے زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جگہ اس مطلب کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،  وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآ ءٍ  (النور، آیت نمبر ۴۵) ’’اور خدا نے ہر  جاندار کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔

۳۰: اس کی تشریح سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۲ میں گزر چکی ہے۔

۳۱: یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے  رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اِسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے  یا بنا لی جا سکتی ہے۔

۳۲: ذو معنی فقرہ ہے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے  راہ پائیں،  اور یہ بھی کہ وہ اِس حکمت اور اس کاریگری اور اِس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں۔

۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ  الحِجر، حواشی نمبر ۸،  ۱۰، ۱۱، ۱۲۔

۳۴: یعنی اُن نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں۔

۳۵: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۶: یہاں سے پھر سلسلۂ تقریر اُس کشمکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی۔

۳۷: ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کلپ کلپ۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۸: یعنی راحت اور رنج،  مفلسی اور امیری، غلبہ اور مغلوبی، قوت اور ضعف، صحت اور بیماری،  غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے،  تاکہ دیکھیں  تم اچھے حالات میں متکبّر، ظالم،  خدا فراموش، بندۂ نفس تو نہیں بن جاتے،  اور بُرے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے۔ لہٰذا کسی صاحبِ عقل آدمی کو اِن مختلف  حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ جو حالت بھی اُسے پیش آئے،  اُس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے  اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایک احمق اور کم ظرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جائے اور جب بُرے حالات پیش آ جائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے۔

۳۹: یعنی برائی کے ساتھ اُن کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں  اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے، بلکہ مذاق اُڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اُڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے ہوں گے۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کو خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے۔

۴۰: یعنی بتُوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں،  مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سُن کر آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔

۴۱: اصل میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’ انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے،  یا پیدا کیا گیا ہے ‘‘۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پُتلا ہے،  اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے، اُسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس کی سرشت میں ہے۔ یہی بات جس کو یہاں خُلِقَ الْاِ نْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے،  دوسری جگہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا،  ’’انسان جلد باز واقع ہوا ہے‘‘  (بنی اسرائیل،  آیت ۱۱) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

۴۲: بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں ’’نشانیوں‘‘  سے کیا مراد ہے۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اُڑاتے تھے اُن میں سے ایک عذاب ِ الہٰی،  اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اسی  کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔

اے محمدؐ،  ان سے کہو ’’ کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمٰن سے بچا سکتا ہو؟‘‘  ۴۳ مگر یہ اپنے ربّ کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کے حمایت کریں؟ وہ تو نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید ان کو حاصل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آبا و اجداد کو ہم زندگی کا سر و سامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ ان کو دن لگ گئے۔ ۴۴ مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ ۴۵ پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟ ۴۶ ان سے کہہ دو کہ ’’میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں‘‘۔۔۔۔مگر بہرے پُکار کو نہیں سُنا کرتے جب کہ انہیں خبر دار کیا جائے۔ اور اگر تیرے ربّ کا عذاب ذرا سا انہیں چھُو جائے ۴۷ تو ابھی چیخ اُٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے،  پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا ہو ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔ ۴۸ ۴۹ پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’’ذکر‘‘  ۵۰ عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے ۵۱ جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈریں اور جن کو ( حساب کی )اُس گھڑی ۵۲ کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ اور اب یہ بابرکت( ذکر)ہم نے ( تمہارے لیے)نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟  ؏ ۴

۴۳: یعنی اگر  اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست  ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر  وہ کونسا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا؟

۴۴: یعنی ہماری اِس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ اِن کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لازوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہو گئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔

۴۵: یہ مضمون اس سے پہلے سُورۂ رعد آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۰)۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے  یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں،  کبھی وبا کی شکل میں،  کبھی سیلاب کی شکل میں،  کبھی زلزلے کی شکل میں،  کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی  آ جاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد ۴، السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳)۔

۴۶: یعنی  جب کہ اِن  کے تمام وسائلِ زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں،  جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں،  تو کیا یہ  اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آ جائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں؟ کیا یہ آثار ان کی یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔

۴۷: وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا۔

۴۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸ – ۹۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل  ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہو گی جو مادّی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان  کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ’’ترازو‘‘  کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب  فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی،  یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصوّر دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں،  اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامۂ زندگی کو جانچ کر بے کم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا۔

۴۹: یہاں سے انبیاء علیہم السّلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور  پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ِ ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:

 اوّل یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے، کوئی نِرالی مخلوق نہ تھے۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔

 دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کر رہے ہیں۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔

 سوم یہ کہ انبیاء  علیہم السّلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے۔ بڑے بڑے مصائب سے رہ گزرے ہیں۔ سالہا سال مصاءً میں مبتلا رہے ہیں۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے،  اس نے اپنے فضل و رحمت  سے اُن کو نوازا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے،  ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول ِ بارگاہ ہونے کے باوجود،  اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود، تھے وہ بندے اور بشر ہی۔ الوہیّت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی۔ بیمار بھی  وہ ہوتے تھے۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے۔ حتّٰیٰ کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا۔

۵۰: تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی، اور وہ اولادِ آدم کو اس کا بھُولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔

۵۱: یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے، مگر اس سے فائدہ عملاً وہی لوگ اُٹھا سکتے تھے جو اِن  صفات سے متصف ہوں۔

۵۲: جس کا ابھی اُوپر ذکر گزرا ہے،  یعنی قیامت۔

اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔ ۵۳ ۵۴ یاد کرو  وہ موقع جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟‘‘  انہوں نے جواب دیا ’’ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔‘‘  اس نے کہا ’’ تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘  انہوں نے کہا ’’ کیا تُو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟‘‘  ۵۵ اُس نے جواب دیا ’’ نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا ربّ وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا ربّ  اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے۔ اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں۔ اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا۔‘‘  ۵۶ چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۵۷ اور صرف ان کے بڑے کو  چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رُجوع کریں۔ ۵۸ (اُنہوں نے آ کر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو)کہنے لگے ’’ ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ۔‘‘ (بعض لوگ)بولے ’’ ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے۔‘‘  اُنہوں نے کہا ’’تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں( اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)۔‘‘  ۵۹ (ابراہیمؑ کے آنے پر)اُنہوں نے پوچھا ’’ کیوں ابراہیمؑ، تُو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ بلکہ یہ سب کچھ اِن کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پُوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔‘‘  ۶۰ یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دِلوں میں)کہنے لگے ’’ واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔‘‘  مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی ۶۱ اور بولے ’’تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔‘‘  ابراہیمؑ نے کہا ’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پُوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پُوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘  اُنہوں نے کہا ’’جلا ڈالو اِس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔‘‘  ۶۲ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں۔ مگر ہم نے اُن کو بُری طرح ناکام کر دیا۔ اور ہم اُسے اور لوطؑ ۶۳ کو بچا کر اُس سر زمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ ۶۴ اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، ۶۵ اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے اُنہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ ۶۶
اور لُوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا ۶۷ اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی۔۔۔۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری،  فاسق قوم تھی۔۔۔۔ اور لُوط ؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ ؏ ۵

۵۳: ’’ہوشمندی‘‘  ہم نے ’’ رشید‘‘  کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں ’’صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا‘‘۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ’’رشد‘‘  کا ترجمہ ’’راست روی‘‘  بھی ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ رُشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اُس راست روی کو  ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقلِ سلیم کے استعمال کا،  اس لیے ہم نے ’’ہوشمندی‘‘  کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے۔ ’’ابراہیم کو اُس کی ہوشمندی بخشی‘‘  یعنی جو ہوشمندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔ ’’ہم اُس کو خوب جانتے تھے‘‘  یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیسا آدمی ہے، اس لیے ہم نے اس کو نوازا۔ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ، ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے‘‘۔ (الانعام،  آیت نمبر ۱۲۴)۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سردارانِ قریش کے اُس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اِس شخص میں کون سے سرخاب  کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں  دیا گیا ہے۔ یہاں صرف اِس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملکِ عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیّت ہے،  اس لیے ان کی پوری قوم میں سے اُن کو اِس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرتِ پاک کے مختلف پہلو اِس سے پہلے سُورۂ بقرہ آیات ۱۲۴ تا ۱۴۱ – ۲۵۸ – ۲۶۰۔ الانعام،  آیات ۱۲۰ تا ۱۳۳ میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

۵۴: جس واقعہ کا آگے ذکر کیا  جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے، کعبہ انہی کا تعمیر کردہ تھا کہ یہ اولادِ ابراہیم ہیں اور کعبۂ ابراہیمی کے مجاور ہیں۔ آج اِس زمانے اور عرب سے دُور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے،  مگر جس زمانے اور ماحول میں اوّل اوّل یہ بیا کیا گیا تھا،  اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی۔

۵۵: اِس فقرے  کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’کیا تُو ہمارے سامنے حق پیش کر رہا ہے یا کھیلتا ہے‘‘۔ لیکن اصل مفہوم وہی ہے جس کی ترجمانی اوپر کی گئی ہے۔ ان لوگوں کو اپنے دین کے برحق ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ یہ تصوّر کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ یہ باتیں کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ تم محض مذاق اور کھیل کر رہے ہو یا واقعی تمہارے یہی خیالات ہیں۔

۵۶: یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا  کہ یہ بے بس ہیں،  ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں،  اور ان کو خدا بنانا غلط ہے۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے،  تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اُس موقع پر نہیں بتائی۔

۵۷: یعنی موقع  پا کر جب کہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے،  حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے،  اور سارے بُتوں کو توڑ ڈالا۔

۵۸: ’’اُس کی طرف‘‘  کا اشارہ بڑے بُت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم ؑ  کی طرف سے اُن کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے۔ یعنی اگر اِن کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور، آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا؟ کون یہ کام کر گیا؟ اور  آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کاروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید اِن کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

۵۹: یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی، کیونکہ وہ بھی  یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پُجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بُت جو اُن کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ اِس طرح اِن پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کرائی تھی اور اِنہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب  کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں  معجزہ ہے۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ عوام کے سامنے اُن کے مکر و فریب کا طلسم توڑ دیں۔

۶۰: یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بُت شکنی کے اِس فعل کو بڑے بُت کی طرف جو منسُوب کیا ہے اِس سے اُن کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجّت قائم کر رہے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جو اب میں خود ان کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبُود بالکل بے بس ہیں اور اُن سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلافِ واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھُوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا،  کیونکہ نہ وہ خود جھُوٹ کی نیّت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اِسے جھُوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجّت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اُسے اسی معنی میں لیتا ہے۔

 بد قسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’جھوٹ ‘‘ تو یہ ہے،  اور دوسرا ’’جھوٹ‘‘  سورۂ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول ا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ، اور تیسرا ’’جھوٹ‘‘  اُن کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل  کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں  ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کے لے کر پورے ذخیرۂ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں۔ اور نہ فنِ حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابلِ اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابلِ اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے،  اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہ حدیث،  جس میں حضرت ابراہیم کے تین ’’جھوٹ‘‘  بیان کیے گئے ہیں، صرف اِسی وجہ سے قابلِ اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محلِّ نظر ہیں۔ اُن میں سے ایک ’’جھوٹ‘‘  کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اِس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ ’’جھوٹ‘‘  کا اطلاق نہیں کر سکتا، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاذاللہ اس سخن نا شناسی  کی توقع کریں۔ رہا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ  والا واقعہ تو اس کا جھُوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک  یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اُس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی اُن کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اِس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو  بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی کہ کہہ دے گا کہ یہ ہر گز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصّہ اُس وقت کا بتایا جا تا ہے جب حضرت ابراہیم  اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائیبل  کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ۷۵ اور حضرت سارہ کی عمر ۶۵ برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان  تو بچ جائے (پیدائش،  باب ۱۲)۔ حدیث کی زیرِ بحث روایت میں تیسرے ’’جھوٹ‘‘  کی بنیاد اِسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت  پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسُوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی  اِفراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اُس تفریط  تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرینِ حدیث کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل،  جلد دوم، ص ۳۵ تا  ۳۹)۔

۶۱: اصل میں  نُکِسُوْ ا عَلیٰ رُءُ وْ سِھِمْ (اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل) فرمایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے۔ لیکن موقع و محل اور اسلوبِ بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صحیح مطلب،  جو سلسلۂ  کلام  اور اندازِ کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے،  یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں  میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو،  کیسے بے بس  اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد  اور جہالت سوار ہو گئی اور،  جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے،  اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی۔ دماغ سیدھا  سوچتے سوچتے یکایک اُلٹا سوچنے لگا۔

۶۲: الفاظ صاف بتا رہے ہیں،  اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا،  اور جب آگ کا الاؤ تیار کر کے اُنہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی اُن معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظامِ عالم کے معمول() سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے،  تو آخر وہ خدا کو ماننے  ہی کی زحمت  کیوں اُٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں،  تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندۂ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ  ہے،  ماننے کے لیے تیار نہیں ہے،  اسے اس کے حال پر چھوڑ و۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اِس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ عنکبوت،  حاشیہ نمبر ۳۹)۔

۶۳: بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے دو بھائی تھے، نَحور اور حاران۔ حضرت لوط ؑ حاران کے بیٹے تھے (پیدائش باب ۱۱، آیت ۲۶)۔ سُورۂ عنکبوت میں حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ؑ ہی ان پر ایمان لائے تھے (ملاحظہ ہو آیت ۲۶)۔

۶۴: یعنی شام و فلسطین کی سرزمین۔ اس کی برکتیں مادّی بھی ہیں او ر روحانی بھی۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ اور روحانی حیثیت سے وہ ۲ ہزار برس تک انبیاء علیہم السّلام کا مہبط رہی ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں۔

۶۵: یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہو ا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

۶۶:  حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم  واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش،  بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد،  آگ میں ڈالے جانے کا قصہ،  اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا،  ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘  کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے،  مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں،  پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب  ۱۱۔ آیات  ۲۷ تا  ۳۲)۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘  (باب  ۱۲۔ آیت ۱۔ ۳)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی۔

 تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ مطر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے،  بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے،  توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستاں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں۔

 تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں  ۱۰ سال تک وہ رہے۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور  ۳۹ سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ  کی بھتیجی تھیں۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف  ۱۰ سال بتاتی ہے۔ پیدائش۔ باب  ۱۱۔ آیت  ۲۹۔ اور باب  ۱۷۔ آیت ۱۷ )۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ  کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے  ۱۲ بت رکھے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا  گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لگوں نے دیکھا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے،  آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے،  مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام،  الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آ کر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمود از ایچ پولونو، لندن۔ صفحہ ۳۰ تا  ۴۲۔ )۔

 کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے؟

۶۷: ’’حکم اور علم بخشنا‘‘  بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کر نے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘  سے مراد حکمت بھی ہے، صحیح قوت فیصلہ بھی،  اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی (Authority ) حاصل ہونا  بھی۔ رہا ’’علم‘‘  تو اس سے مراد وہ علم  حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا  کیا گیا ہو۔ حضرت لوط ؑ  کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۸۰ تا ۸۴۔ ھود،  آیات ۶۹ تا ۸۳۔ الحِجر،  آیات ۵۷ تا ۷۶۔

اور یہی نعمت ہم نے نُوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا ۶۸ تھا۔ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کَربِ عظیم ۶۹ سے نجات دی اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے،  پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔اور اسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ  کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔ ۷۰
داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، ۷۱ اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ اور ہم نے اُس کے تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے، ۷۲ پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ ۷۳ اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ۷۴ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ ۷۵ اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت)ہم نے ایوبؑ ۷۶ کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔‘‘  ۷۷ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، ۷۸ اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ ۷۹
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ ۸۰   اور ذوالکفلؑ ۸۱ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ان کو  ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔ اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ ۸۲ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا ۸۳ اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ ۸۴ آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا ’’ ۸۵ نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا۔‘‘  تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
اور زکریاؑ کو،  جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ اے پروردگار،  مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے۔‘‘  پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ ۸۶ یہ  لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھُوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھُکے ہوئے تھے۔ ۸۷ اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ۸۸ ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھُونکا ۸۹ اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دُنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔ ۹۰
یہ تمہاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ )انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۹۱۔۔۔۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ ؏ ٦

۶۸: اشارہ ہے حضرت نوح ؑ  کی اُس دُعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کر تے رہنے کے بعد آخر کا تھک کر انہوں نے مانگی تھی کہ  اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَا نْتِصِرْ،  ’’پروردگار،  میں مغلوب ہو گیا ہوں، اب میری مدد کو پہنچ‘‘  (القمر۔ آیت ۱۰)۔ اور  رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا،  ’’پروردگار،  زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ‘‘ (نوح۔ آیت ۲۶)۔

۶۹: کَربِ عظیم سے مراد یا تو ایک بدکردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے،  یا پھر طوفان۔ حضرت نوح ؑ کے قصّے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس، آیات ۷۱  تا ۷۳۔ ھُود،  آیات ۲۵ تا ۴۸، بنی اسرائیل،  آیت ۳۔

۷۰: اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے،  اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ مسلمان مفسرین نے اس کو جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھُس گئی تھیں۔ اُس نے حضرت داؤد کے ہاں استغاثہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس کی بکریاں چھین کر اِسے دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا  اور یہ رائے دی کہ بکریاں اُن وقت تک کھیت والے پاس رہیں جب تک بکری والا اُس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان ؑ کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے،  اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں،  نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی  تھے،  الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی تھی اور وہ فیصلہ  کرنے کرنے میں غلطی کر گئے،  حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے۔ آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہی  کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے۔

ضمنًا اِس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں،  تو اگر چہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا،  لیکن دونوں برحق ہوں گے، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بخاری میں عمر ؓ و بن العاص کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا   اذا ا جتھد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فا خطأ فلہ اجرٌ۔ ’’اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر‘‘۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بُرَیْدَہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’قاضی تین قسم کے ہیں، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان  جائے  تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔

۷۱: مَعَ دَاؤدَ   کے الفاظ ہیں،  لِدَاؤدَ   کے الفاظ نہیں ہیں، یعنی ’’ داؤد علیہ السّلام کے لیے‘‘  نہیں بلکہ ’’ان کے ساتھ‘‘  پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے،  اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدُوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِا لْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ o   وَاطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌ o  ’’ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے، اور پرندے بھی مسخر کر دیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورۂ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے  یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ  ’’پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دُہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ اِن ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اُٹھتے تھے، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی  کی تائید اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری،  جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے،  قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر سے گزرے  تو اُن کی آواز سُن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سُنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ ؐ نے فرمایا   لقد اوتی مزمارًا من مزا میر اٰل داؤد،  یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصّہ ملا ہے۔

۷۲: سورۂ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے :  وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْفِیْ السَّرْدِ، ’’اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا  (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک انداز ے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی،  اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron – Age ) سن ۱۲۰۰ اور سن ۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے،  اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اوّل اوّل شام اور ایشیائے کوچک کو حِتّی قوم (Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ سن ۲۰۰۰ ق م سے سن ۱۲۰۰ ق م تک رہا ہے،  لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو ا  اور وہ  شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فِسِتِیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حِتّیوں اور فِلِستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتےتھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیا ر بھی تھے ( یشوع باب ۱۷۔ آیت ۱۶۔ قُضاۃ باب ۱۔ آیت ۱۹۔ باب ۴۔ آیت ۲ – ۳) سن ۱۰۲۰ ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصّہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (سن ۱۰۰۴ – سن ۹۶۵ ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصّے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی۔ اس زمانہ میں آہن سازی  کا  وہ راز جو حتّیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں اَدُوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے،    اور حال میں آثار ِ قدیمہ کی جو کھُدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقَبہ اور اَیلَہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندر گاہ عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ  کیا گیا ہے کہ اس میں بعض و ہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدّت پہلے آس پاس کی دُشمن قوموں نے اِسی لوہے کے ہتھیاروں سے اُن کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔

۷۳: حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۲۵۱، بنی اسرائیل حاشیہ نمبر ۷ – ۶۳۔

۷۴: اس کی تفصیل سورۂ سبا میں یہ آئی ہے : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوّھَُ شَھْرٌ وَّ رَوَ احھَُا شَھْرٌ،  ’’اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اُس کا چلنا شام کو۔‘‘  پھر اس کی مزید تفصیل سورۂ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ رُخَآ ءً حَیْثُ یَشَآءُ،  ’’پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اِس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ اُن کی مرضی کے مطابق بادِ موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے  وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دَور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحرِ روم کے بندرگاہوں سے ان بیڑہ (جسے بائیبل میں ’’ترسیسی بیڑہ‘‘  کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں اَدوم کے علاقۂ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا  کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں استعمال  کیا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ  جہاز سازی میں بھی استعمال  کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اُس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ   وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ’’ اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا‘‘۔ نیز اِس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک  مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ’’مسخر‘‘ کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اُس زمانے میں بحری سفر کا انحصار  بادِ موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرمِ خاص تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی  مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو،  جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے،  تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات  چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دِل دُکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔

۷۵:  سورہ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِ ذْنِ رَبِّہٖ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ۔ ہ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآ ءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّ اسِیَاتٍ ……………….. فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَ لَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْ کَلُ مِنْسَاَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَا نُوْ ا یَعْلَمُوْ نَ الْغَیْبَ مَلَبِثُوْ ا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ ’’ اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے،  اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کر تا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ……………………. پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے ‘‘۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوۓ تھے،  اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے،  وہ سن تھے،  اور جن بھی جن جن کے برے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ انکو علم غیب حاصل ہے۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے،  اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوۓ نظریات کا تابع بناۓ بغیر پڑھے،  یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق ’’ شیطان ‘‘ اور ’’جن ‘‘کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے،  اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جِن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔
جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے،  انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوۓ تھے۔ لیکن صرف یہی نہیں ہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے،  بلکہ قرآن میں جہا ں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ ان ہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ ’’جن‘‘ اور ’’ شیاطین‘‘ فراہم نہیں ہوۓ جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟

۷۶: حضرت ایوبؑ کی شخصیت،  زمانہ،  قومیت،  ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جدید زمانے کے محققین میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے،  کوئی مصری اور کوئی عرب۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے کا ہے، کوئی انہیں حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے،  اور کوئی ان سے بھی متاخر۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اُس سِفرِ ایّوب یا صحیفۂ ایّوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل ہے۔ اسی کی زبان،  اندازِ بیان، اورکلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں،  نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر۔ اور اس سِفرِ ایّوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جا سکتا۔ لہٰذا ہم اس پر قطعاً اعتماد نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ قابلِ اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کے صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں۔ رہی ان کی قومیت تو سورۂ نساء آیت ۱۶۳ اور سورۂ انعام آیت ۸۴ میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، مگر وہب بن  مُنَبِّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسُو کی نسل سے تھے۔

۷۷: دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’تُو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ آگے کوئی شکوہ یا شکایت  نہیں،  کوئی عرض مدّعا نہیں،  کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزِ دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ ’’میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں‘‘،  آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔

۷۸: سورۂ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا   اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ، ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ دٌ وَّشَرَابٌ،  ’’ اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی  میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جِلدی بیماری ہو گئی تھی،  اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا (ایوب،  باب ۲، آیت ۷)۔

۷۹: اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اِس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں، اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفرِ ایّوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت،  اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اُس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں ’’نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا‘‘۔ ’’میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا‘‘۔ ’’میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی‘‘۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ ’’ قادرِ مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں،  میری رُوح انہی کے زہر کو پی رہی ہے،  خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں‘‘۔ ’’اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں؟ تُو  نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تُو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دُور کر دیتا ‘‘ ؟ ’’میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھیرا، مجھے بتا کہ تُو مجھ سے کیوں جھگڑتا  ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے‘‘ ؟ اُس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں،  مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اِس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم  ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں،  اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سُن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب  کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ’’اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا‘‘۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے۔ اِس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اُس صبرِ مجسّم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔

 حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصّہ کچھ کہہ رہا ہے،  بیچ کاحصّہ کچھ،  اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے۔ تینوں حصّوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصّہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز،  خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ ’’اہلِ مشرق میں وہ سب سے  بڑا آدمی تھا‘‘۔ ایک روز خدا کے ہاں اُس کے (یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہا ر کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور  کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا ’’اچھا،  اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیو۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ’’ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘۔ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ اُن کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا،  جناب،  ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  کرے گا۔ اللہ میاں نے فرمایا، اچھا،  جا،  اُس کو تیرے اختیار میں دیا گیا،  بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے ’’ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دُکھ دیا‘‘۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا ’’کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں‘‘۔

یہ ہے سِفرِ ایّوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے بعد تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خڈا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے، اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خداکا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر،  ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں دور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دو چند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت  آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،  اورپھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے  تا کہ شیطاب کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔

یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے،  نہ خود حضرت ایوب کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصۂ ایوب کو بنیاد بنا کر ’’یوسف زلیخا‘‘  کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایُوب،  الیفز تَیمانی، سوخی بِلدو، نعماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیریکٹر ہیں جن کی زبان سے نظامِ کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری اور اس کے زور ِ بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے،  مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفۂ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے  کوئی معنی نہیں۔ ایوب علیہ السّلام کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ’’یوسف زلیخا‘‘  کا تعلق سیرت ِ یوسفی سے ہے، بلکہ شاید اُتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصّے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں اُن میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا  جو اس زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہو گا جو اب ناپید ہے۔

۸۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، سورۂ مریم، حاشیہ نمبر ۳۳۔

۸۱: ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے ’’صاحب ِ نصیب‘‘،  اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب ِ آخرت کے لحاظ سے صاحبِ نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قران مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے  اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ نام نہیں  لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے،  کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آ رہا ہے)، کوئی کہتا ہے  یہ حضر ت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے  یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے،  سورۂ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ)، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے،  اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ’’یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حِزقیال (حِزقِی اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (سن ۵۹۷ ق م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابُور کے کنارے پر ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے‘‘۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے میں مفسرین نے اپنا میلان حِزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے،  لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابلِ ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائییبل کے صحیفۂ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے،  یعنی صابر اور صالح۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے  خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل ابیِب تھا۔ اِسی مقام پر سن ۵۹۴ ق م میں حضرت حزقی ایل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے،  جبکہ ان کی عمر ۳۰ سال تھی، اور مسلسل ۲۲ سال ایک طرف گرفتارِ بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکا نے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کارِ عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے  کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال اُن کی بیوی،  جنہیں وہ خود ’’منظورِ نظر‘‘  کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور یہ اپنا دُکھڑا چھوڑ کر اپنی مِلّت کو اُس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تُلا کھڑا تھا(باب ۲۴۔ آیات ۱۵ – ۲۷)۔ بائیبل کا صحیفۂ حزقی ایل  اُن صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔

۸۲: مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ذو النون‘‘  اور  ’’صاحب الحوت‘‘  یعنی  ’’مچھلی والے‘‘   کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا،  جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

۸۳: یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اِس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور اُن کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا۔

۸۴: انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر  تو عذاب آنے والا ہے، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تاکہ خود بھی عذاب میں نہ گھِر جاؤں۔ یہ بات بجائے خود تو قابلِ گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن ِ الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابلِ گرفت تھا۔

۸۵: یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید۔

۸۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، آل عمران آیات نمبر ۳۷ تا ۴۱ مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات نمبر ۲ تا ۱۵ مع حواشی۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دُور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے۔ ’’بہترین وارث تو تُو ہی ہے‘‘،  یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے۔

۸۷: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبی الوا العزم۔۔۔۔۔

۸۸: مراد ہیں حضرت مریم علیہا السّلام۔

۸۹: حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا  ہے کہ  اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ، فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَا جِدِیْنَ، ( ص۔ آیات ۷۱ – ۷۲) ’’ میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں،  پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا   رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ، (آیت ۱۷۱) ’’ اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا  اور اس کی طرف سے ایک روح‘‘۔ اور سورۂ  تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت ۱۲)۔ ’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اُس میں اپنی رُوح سے ‘‘۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی  پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت  عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے،  چنانچہ سُورۂ آل عمران میں فرمایا   اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَ مَ،  خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ،  (آیت ۵۹)۔ ’’ عیسیٰ کے مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ’’ ہو جا‘‘  اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقۂ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ  کسی کو براہِ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو  ’’اپنی روح سے پھونکنے‘‘  کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس رُوح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی  شان رکھتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  النساء،  حواشی ۲۱۲ – ۲۱۳۔

۹۰: یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ’’نشانی‘‘  وہ کس معنی میں تھے،  اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم،  حاشیہ نمبر ۲۱۔ اور سورۂ المومنون،  حاشیہ نمبر ۴۳۔

۹۱: ’’تم ‘‘  کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو! تم سب حقیقت میں ایک ہی اُمت اور ایک ہی ملت تھے، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے  وہ سب ایک ہی دین  لے کر آئے تھے، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا ربّ ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے  وہ اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے۔ اُ س کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی  اور نے، اور پھر ہر ایک نے ایک جُز اُس کا لے کر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنا ڈالی، اور انسانیت میں یہ مِلتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے،  محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف مِلّتیں اپنے آُ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں،  اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملّتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔

پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں۔ اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پلٹ سک ۹۲ ے۔ یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدہٴِ بر حق کے پُورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا ۹۳ تو یکایک اُن لوگوں کے دے دے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کُفر کیا تھا۔ کہیں گے ’’ ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے۔‘‘  ۹۴ بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پُوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے۔ ۹۵ اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ  پھُنکارے ماریں گے ۹۶ اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سُنائی دے گی۔ رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً  اُس سے دُور رکھے جائیں گے، ۹۷ اُس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، ۹۸ اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ ’’ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے۔ اور زَبُور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔ ۹۹
اے محمدؐ،  ہم نے جو تم کو بھیجا ہے  تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ ۱۰۰   اِن سے کہو ’’میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے،  پھر کیا تم سرِ اطاعت جھُکاتے ہو؟‘‘  اگر ہو منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ’’ میں نے علی الاعلان تم کو خبر دار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ۱۰۱ قریب ہے  یا دُور۔ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآواز ِ بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھُپا کر کرتے ہو۔ ۱۰۲ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر)تمہارے لیے ایک فتنہ ہے ۱۰۳ اور تمہیں ایک وقت ِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔‘‘ (آخر کار) رسُولؐ نے کہا کہ ’’ اے میرے ربّ، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمٰن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔‘‘  ؏ ۷

۹۲: اس آیت کے تین مطلب ہیں:

 ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذابِ الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اُٹھ سکتی۔ اس کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی حیاتِ نَو ممکن نہیں ہے۔

 دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اِس دنیا میں اُس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اُس کی پیشی ہو گی۔

 تیسرے یہ ہے جس قوم کی بد کاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت ِ حق سے پیہم رو گردانیاں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اُسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اُس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے۔

۹۳: ’’یاجوج ماجوج کی تشریح سورۂ کہف حاشیہ ۶۲، ۶۹ میں کی جا چکی ہے۔ اُن کے  کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا  پر اس طرح ٹُوٹ پڑیں گے جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ’’وعدۂ حق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا‘‘  کا اشارہ صاف طور پر اِس طرف ہے کہ یاجوج ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آ جائے گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول  دیتا ہے جو مسلم نے حُذَیفہ بن اَسِید الغِفَاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ’’قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو: دھُواں، دجّال، داّبتہ الارض، مغرب سے سُورج کا طلوع، عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج کی یورش، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یا  Landslide ) ایک مشرق میں،  دوسرا مغرب میں، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اُٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جائے گی )۔ ایک اور حدیث میں یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور  ؐ نے فرمایا اُس وقت قیامت اِس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے، رات کو یا دن کو (کالحا مل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤ ھم بولدھا لیلا اونھارًا)۔ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا  پر ٹُوٹ پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑجائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے۔

۹۴: ’’غفلت‘‘  میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے،  اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آ کر اِس دن سے خبردار کیا تھا، لہٰذا درحقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے۔

۹۵: روایات میں آیا ہے کہ  اس آیت پر عبداللہ بن الزَّ بَعری نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، نعم،  کل من احبّ ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہٗ،   ’’ہاں،  ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اُس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلقِ خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ انہی کو معبود بنا بیٹھے،  یا جو غریب اِس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اِس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی  معبود ہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو اِن اَشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا۔ شیطان  بھی اسی ذیل میں آتا ہے، کیونکہ اُس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے، اصل معبود  وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بُتوں اور دوسرے سامانِ پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا تاکہ وہ ان پر آتشِ جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے  وہ شفاعت کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ اُن پر اُلٹے عذاب کی شدّت کے موجب بنے ہوئے ہیں۔ ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)

۹۶: اصل میں لفظ  زَفِیْر  استعمال ہوا ہے۔ سخت گرمی،  محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا  سانس لے کر اس کو ایک پھُنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں۔

۹۷: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ  پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی۔

۹۸: یعنی روز ِ محشر اور خدا کے حضور پیشی کا وقت، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کا وقت ہو گا، اس وقت  نیک لوگوں پر ایک اطمینان کی کیفیت طاری رہے گی۔ اس لیے کہ سب کچھ اُن کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ ایمان و عملِ صالح کی جو پونجی لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے وہ اُس وقت خدا کے فضل سے اُن کی ڈھارس بندھائے گی اور خوف و حزن کے بجائے ان کے دلوں  میں اُمید پیدا کر ے گی کہ عنقریب وہ اپنی سعی کے نتائج خیر سے ہم کنار ہو نے والے ہیں۔

۹۹: ’’اِس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن  کی تردید  اور پورے نظام ِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا  مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدۂ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت ِ زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر  اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں  جو دُنیا میں پہلےوارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق،  فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق،  فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا  خدا کے منکر،  مخالف،  بلکہ مدِّ مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارثِ زمین ہوئے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کر دہ قاعدۂ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ’’صالح‘‘     کے مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصوّر تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں ’’صالح‘‘  قرار پا سکیں،  قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصوّر  کی تلاش میں ڈارو ن کا نظریۂ  ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصوّرِ ’’اصلاح‘‘  کوڈار دینی تصوّرِ ’’صلاحیت‘‘  (Fitness ) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔

 اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیرِ بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور اُن پر زورو قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی ’’خدا کا صالح بندہ‘‘  ہے اور اس کا یہ فعل تمام ’’عابد‘‘  انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’’عبادت‘‘  اِس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے،  اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثتِ زمین سے محرُوم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے۔

یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہااگر ’’صلاح‘‘  اور ’’عبادت‘‘  کا تصوّر یہ ہے  تو پھر وہ ایمان (ایمان  باللہ،  ایمان بالیوم الآخر، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکُتُب) کیا ہے جس کے بغیر، خود اِسی قرآن کی رُو سے،   خدا کے ہاں کوئی عملِ صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اِس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اُس نظامِ اخلاق اور قانون ِ زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے؟  اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر، فاسق،  عذاب کا مستحق اور مغضُوب ِ بارگاہِ خداوندی ہے؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان، اسلام،  توحید،  آخرت،  رسالت،  ہرچیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب اُن کی اِس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جائیں۔ اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمّتِ دین سے اختلاف کرتے ہیں اُن کو  یہ اُلٹا الزام دیتے ہیں کہ ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل مادّی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بُری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔

 ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کی خلاف پڑتی ہے، حالانکہ اصولًا قرآن کی  ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظامِ فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے،  اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ ’’مادّی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت‘‘  کی ہم معنی نہیں ہے، اور ’’صالح ‘‘  کو اگر ’’صاحبِ صلاحیت‘‘  کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکڑا جاتی ہے۔

 دوسرا سبب، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے،  یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلّف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں،  حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر  سے جو مضمون مسلسل چلا آرہا ہے وہ عالمِ آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا  ہے۔

 تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں،  جس کا ذکر اس سے پہلے  کی آیت  میں ہوا ہے،  زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اُس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظامِ زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ مضمون سورۂ مومنون آیات ۱۰ – ۱۱ میں بھی ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورۂ زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخِ صورِ اوّل و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے،  پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ  وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا ط حتیٰ اِذَا جَآ ءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابھَُا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتھَُا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ o وَقَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ  وَاَوْرَ ثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآ ءُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ o ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ  لے جائے جائیں گے  یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو، تم بہت اچھے رہے،  آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جاؤ۔ اور  وہ کہیں گے کہ حمد ہے اُس خدا کی جس نے ہم سے اپنا  وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین  کا وارث   کر دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ‘‘۔ دیکھیے، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں،  اور دونوں جگہ وراثتِ زمین کا تعلق عالمِ آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔

 اب زَبُور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیرِ بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اِس وقت پائی جاتی ہے  یہ اپنی اصلی غیر محَرّف صورت میں ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں مزامیر داوٗ د  کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہو گئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکّل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا، تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ  ہو گا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے۔۔۔۔۔۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہو گی۔۔۔۔۔۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے ‘‘  (۳۷ داؤد کا مزمور۔ آیات ۹ – ۱۰ – ۱۱ – ۱۸ – ۲۹)۔

 دیکھیے، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اِس دنیا کی  زندگی سے۔

 دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثھَُا مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عَبَادِ ہٖ۔ (آیت ۱۲۸) ’’زمین اللہ کی ہے،  اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے‘‘۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن  اور کافر،  صالح اور فاسق،  فرماں بردار اور نافرمان،  سب کو ملتی ہے،  مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر،  جیسا کہ اِسی آیت  کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَ یَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ o (آیت ۱۲۹) ’’اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا  پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس آخرت میں اِسی زمین کا دوامی بندوبست ہو گا، اور قرآن کے متعدّد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اِس قاعدے پر ہو گا کہ ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے  صرف مومنینِ صالحین کو اس کا وارث بنائے گا،  امتحان کے طور پر نہیں،  بلکہ اُس نیک رویّے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  النور، حاشیہ نمبر ۸۳)۔

۱۰۰: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ‘‘۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے،  کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکا یا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے،  اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی۔ کفارِ مکّہ حضور ؐ  کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھُوٹ ڈال دی ہے، ناخُن سے گوشت جدا کر  کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا  گیا کہ نادانو، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت  تمہارے لیے  خدا کی رحمت ہے۔

۱۰۱: یعنی خدا کی پکڑ جو دعوتِ رسالت کو رد کر دینے کی صورت میں آئے گی، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے۔

۱۰۲: اشارہ  ہے اُن مخالفانہ باتوں اور سازشوں اور سرگوشیوں کی طرف جن کا آغاز ِ سورہ میں ذکر کیا گیا تھا۔ وہاں بھی رسول کی زبان سے اِن کا یہی جواب دلوایا گیا تھا کہ جو باتیں تم بنا رہے ہو وہ سب خدا سُن رہا ہے اور جانتا ہے۔ یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ہوا میں اُڑ گئیں اور کبھی ان کی باز پرس نہ ہو گی۔

۱۰۳: یعنی تم اس تاخیر کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو۔ تاخیر تو اس لیے کی جا رہی ہے کہ تمہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دی جائے اور جلد بازی کر کے فوراً ہی نہ  پکڑ لیا جائے۔ مگر تم اِس سے اِس غلط فہمی میں پڑ گئے ہو کہ نبی کی سب باتیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر یہ سچا نبی ہوتا اور خدا ہی کی طرف سے آیا ہوتا تو اس کو جھٹلا دینے کے بعد ہم کبھی کے  دھر لیے گئے ہوتے۔

٭٭٭

۲۲۔ سورۂ الحج

نام

  چوتھے رکوع کی دوسری آیت وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّ سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

 اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں۔

ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت ۲۴ (وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے۔

اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت ۲۵  سے ۴۱ تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے،  اور آیت ۳۹۔ ۴۰ کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا،  مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا،  اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار  کر دی،  ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا  ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس،  مجاہد،  عَرْوَہ بن زُبَیر،  زید بن اسلم، مقاتل بن حیان،  قَآتَدہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر ۲ ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔

موضوع و مبحث

 اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں۔ مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان، اور مومنین صادقین۔

مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خیالات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے،  اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو  تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔

مذبذب مسلمان،  جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے،  ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت،  عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں،  پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔

اہل ایمان سے خطاب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے  جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔

پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے،  حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو  سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔

 دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے  دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا  گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو،  تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ،  ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔

اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
لوگو، اپنے ربّ کے غضب سے بچو،  حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی( ہولناک)چیز ہے۔ ۱ جس روز تم اُسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دُودھ پلانے والی اپنے دُودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ۲ ہر حاملہ کا حمل گِر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔ ۳
بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں ۴ اور ہر شیطان ِ سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا  اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذابِ جہنّم کا راستہ دکھائے گا۔ لوگو، اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے ۵،  پھر خون کے لوتھڑے سے،   پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ ۶ (یہ ہم اِس لیے بتا رہے ہیں)تاکہ تم پر حقیقت واضح  کریں۔ ہم جس (نطفے)کو چاہتے ہیں ایک وقتِ خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صُورت میں نکال لاتے ہیں( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں)تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بُلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ۷ اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سُوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پَھبک اُٹھی اور پھُول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اُگلنی شروع کر دی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے، ۸ اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے،  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ ( اِس بات کی دلیل ہے )کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں،  اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اُٹھائے گا جو قبروں میں جاچکے ہیں۔ ۹
بعض اور لوگ ایسے ہیں کہ کسی علم ۱۰ اور ہدایت ۱۱ اور روشنی بخشنے والی کتاب ۱۲ کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے ۱۳،  خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں۔ ۱۴ ایسے شخص کے لیے دنیا میں رُسوائی ہے اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔۔۔۔ یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ؏ ١

۱: یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک اُلٹی پھرنی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمَہ اور شَعْبِی نے بیا ن کی ہے کہ  یکون ذلک عند طلوعِ الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اُس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ نفخِ صور کے تین واقع ہیں۔ ایک نفخِ فَزَع،  دوسرا نفخِ صَعْق اور تیسرا نفخِ قیام الربّ العالمین۔ یعنی پہلا نفخِ عام سراسیمگی پیدا کرے گا،   دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں  گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اُس وقت زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اُس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بُری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اُس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً:

فَاِذَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَ ۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَ ۃً فَیَوْ مَئیذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ)

 پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ ۂ عظیم پیش آ جائے گا۔

 اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا، وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ (الزلزال)

 جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال  پھینکے گی،  اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔

 یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ، قُلُوْبٌ یُّوْمَئیذٍ وَّاجِفَہ، اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النازعات )

جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔

اَذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ)

 جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اُڑنے لگیں گے۔

فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِن ْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِ  السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ۔ (الزلزال)

اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا۔  

             اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مُردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں گے،  اور اس کی تائید میں متعدّد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن  قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ قرآن اِس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی،  اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن  کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص  اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دُور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سند اً قوی تر ہیں،  لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدمِ مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔

۲: آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْ ضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مُرضِعْ اُس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو، اور مُرْضِعَہ اُس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔

۳: واضح رہے کہ یہاں اصل مقصودِ کلام قیامت کا حال بیان کر نا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر اُن باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا قیامت کی اِس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔

۴: آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے  وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات  اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے،  اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑ تے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخر کار جس چیز پر جا کر ٹھیرتا تھا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا،  اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی۔

۵: اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان اُن مادّوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب  زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اِس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی  ہے۔ یا یہ کہ نوعِ انسانی کا آغاز آدم علیہ السّلام سے کیا گیا جو براہِ راست مٹی سے بنائے گئے تھے،  اور پھر آگے نسلِ انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سُورۂ سجدہ میں فرمایا وَبَدَ ءَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ۔ (آیات ۷ – ۸)’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر  پانی کی شکل میں نکلتا ہے‘‘۔

۶: یہ اشارہ ہے اُن مختلف ادوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی  جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آ سکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اُس زمانے کے عام بدّو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہو تا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاطِ حمل کی مختلف  حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے، اس لیے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اُس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔

۷: یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا،  بوڑھا ہو کر اُس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔

۸: اس سلسلۂ  کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمہارا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ،  واجب الوجود اور علّت العلل (First Cause ) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعلِ مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت،  اپنے ارادے،  اپنے علم اور اپنی حکمت  سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پُر حکمت ہیں۔

۹: اِن آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات،  اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے:

 (۱)یہ کہ اللہ ہی حق ہے،

(۲) یہ کہ وہ مُردوں کو زندہ کر تا ہے،

(۳) یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے،

(۴) یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور

(۵) یہ کہ اللہ ضرور اُن سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔

اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔

پورے نظامِ کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے  کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کا ر فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے  کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل  سے گزرتا ہے اس میں ایک حکم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اُس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفسِ انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور  کہیں ہڈی بنتی ہے،  اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اُس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکمِ مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے ( Egg Cell  ) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز ۹ مہینے  اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے  اُن میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیمِ فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے،  یا گوشت کی بوٹی، یا نا تمام بچے کی شکل  میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے اَن گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گُونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بدصورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کوَدن اور کُند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے،  اِس کے دَوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ  بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم ۹۰ فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں،  قوموں کے،  بلکہ پوری نوع ِ انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی  اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں،  ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے،  اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما  نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کو نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ’’حق ‘‘ہے اور صرف اللہ ہی ’’حق‘‘ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔

دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ لوگوں کو تو یہ سُن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مُردوں کو زندہ کرے گا،  مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے  کہ وہ تو ہر وقت مُردے جِلا رہا ہے۔ جن مادّوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے اُن کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفسِ انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر انہی مردہ،  بے جان اور مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے۔ پھر انہی مادّوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مَردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردو پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج  تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوندِ خاک ہوئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کو کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مُردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا  پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مُردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

 تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اِسی زمین کو لے لیجیے،  اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اُس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کو کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدابس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے،  انسان کے متعلق پچھلی  صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑی بنا سکتا ہے،  ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا ہے کہ انسان کے ’’امکانات‘‘ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے  کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اُس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے  اس کے سوا وہ کچھ  نہیں کر سکتا،  تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خد ا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔

 چوتھی اور پانچویں بات،  یعنی یہ کہ ’’قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں‘‘،اُن تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ  وہ جب چاہے قیامت بر پا کر سکتا ہے اور جب چاہے اُن سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اُس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پور ا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا  کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے  اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت  اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھرا سی حکمت کی بنا پر آدمی اِرادی اور غیر اِرادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے،  اِرادی  افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصوّر وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے،  اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے،  اور بُرے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ،  حتیٰ کہ خود ایک نظام ِ عدالت اِس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے،  کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا؟ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھُول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو بُرے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں،  یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی،  اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعدِ موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا  سراسر بعید از عقل ہے۔

۱۰: یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو۔

۱۱: یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے۔

۱۲: یعنی وہ واقفیت جو خد ا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہو ئی ہو۔

۱۳: اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں: جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور ِ نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔

۱۴: پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تُلے  رہتے ہیں۔

اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ بندگی کرتا ہے، ۱۵ اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو اُلٹا پھر گیا۔ ۱۶ اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ ۱۷ پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارتا ہے جو نہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ، یہ ہے گمراہی کی انتہا۔ وہ اُن کو پکارتا ہے جن کا نقصان اُن کے نفع سے قریب تر ہے، ۱۸ بدترین ہے اُس کا مولیٰ اور بدترین ہے اُس کا رفیق۔ ۱۹ (اِس کے برعکس)اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ۲۰ یقیناً ایسی جنتّوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ ۲۱ جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کر ے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کے ناگوار ہے ۲۲۔۔۔۔ ایسی ہی کھُلی کھُلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے، ۲۳ اور جو یہوُدی ہوئے، ۲۴ اور صابئی، ۲۵ اور نصاریٰ، ۲۶ اور مجوس ۲۷،  اور جن لوگوں نے شرک کیا، ۲۸ ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں ۳۰ وہ سب جو آسمانوں میں ہیں ۳۱ اور جو زمین میں ہیں؟ سُورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان ۳۲ اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ ۳۳ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے ۳۴،  اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ ۳۵     ۵ السجدة
یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ ۳۶ اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں، ۳۷ اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے اُن کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصّے تک گل جائیں گے، اور اُن کو خبر لینے کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کر جہنّم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھّو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔ ؏ ۲

۱۵: یعنی دائرۂ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر،  یا بالفاظِ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو،  اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے۔

۱۶: اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت،  مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں،  ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو،  نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے،  اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی،  پھر ان کو خدا کی  خدائی اور رسول کی رسالت اور دین  کی حقانیت، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا۔ پھر وہ ہر اُس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو۔

۱۷: یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر  ہوتا ہے۔ کافر اپنے ربّ سے بے نیاز،  آخرت سے بے پروا،  اور قوانینِ الٰہی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسُوئی کے ساتھ مادّی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو  چاہے وہ اپنی آخرت کھودے، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین  کی پیر وی کرتا ہے تو اگر چہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر ہی رہتی ہے،  تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے،  آخرت میں بہر حال اس کی فلاح  و کامرانی یقینی ہے۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان  جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدُود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے،  اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسُوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اُس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخر ت بھی۔

۱۸: پہلی آیت میں معبودانِ غیر اللہ کے نافع و ضار ہونے کی قطعی نفی کی گئی ہے، کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی نفع و ضرر کی قدرت نہیں رکھتے۔ دوسری آیت میں اُن کے نقصان کو اُن کے نفع سے قریب تر بتایا گیا ہے، کیونکہ ان سے دعائیں مانگ کر اور ان کے آگے حاجت روائی کے لیے ہاتھ پھیلا کر وہ اپنا ایمان تو فوراً اور یقیناً کھو دیتا ہے۔ رہی  یہ بات کہ وہ نفع اسے حاصل ہو جس کی امید پر اس نے انہیں پکارا تھا، تو حقیقت سے قطع نظر،  ظاہر حال کے لحاظ سے بھی وہ خود مانے گا کہ  اس کا حصول نہ تو یقینی ہے اور نہ قریب الوقوع۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کو مزید فتنے میں ڈالنے کے لیے کسی آستانے پر اس کی مراد  بر لائے، اور ہو سکتا ہے کہ اُس آستانے پر وہ اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھا آئے اور اپنی مراد بھی نہ پائے۔

۱۹: یعنی جس نے بھی  اس کو اس راستے پر ڈالا،  خواہ وہ کوئی انسان ہو یا شیطان،  وہ بدترین کار ساز و سرپرست اور بدترین دوست اور ساتھی ہے۔

۲۰: یعنی جن کا حال اس مطلب پرست،  مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا  اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کر تے ہیں، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہِ حق پر چلتے رہتے ہیں،  خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا بُرے حالات سے،  خواہ مصائب کے پہاڑ  ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں۔

۲۱: یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ دنیا میں، یا آخرت میں،  یا دونوں جگہ،  وہ جس  کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دِلوانے والا نہیں۔

۲۲: اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے:

(۱) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے۔

(۲)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جانے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔

(۳)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا  سلسلہ منقطع کر نے کی کوشش کر دیکھے۔

(۴)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔

 (۵) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خودکشی کر لے۔

(۶) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے۔

 ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں،  لیکن کلام کے ٹھیک مدّعا تک نہیں پہنچتے۔ سلسلۂ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے،  اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے، یا کسی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے،  تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ قضائے الٰہی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے،  حتیٰ کہ آگر آسمان کو پھاڑ کر تھِگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر ِ الٰہی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش  جس کا انسان تصوّر کر سکتا ہو۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے۔

۲۳: یعنی’’مسلمان‘‘ جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء،  اور اس کی کتابوں کو مانا، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی  تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر ’’کنارے ‘‘ پر رہ کر بندگی کرتے تھے، اور کفر و ایمان کے درمیان مذبذب تھے۔

۲۴: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اوّل، النساء، حاشیہ نمبر ۷۲۔

۲۵: صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے، اور حضرت یحییٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہماالسلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیّاروں کی اور سیّاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حَرّاں تھا اور عراق کے مختلف حصّوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور فنِ طِب کے کمالات کے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزولِ قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا۔

۲۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  المائدہ،  حاشیہ نمبر ۳۶۔

۲۷: یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مَزْدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا،  حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پایا گیا تھا۔

۲۸: یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورۂ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مُشْرِکِیْن اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْ کے اصطلاحی ناموں سے یاد کر تا ہے، اگرچہ اہلِ ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا۔

۳۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد، حاشیہ نمبر ۲۴ – ۲۵، النحل، حاشیہ نمبر ۴۱ – ۴۲۔

۳۱: یعنی فرشتے، اَجرامِ فلکی،  اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا ء دوسرے جہانوں میں ہیں خواہ  وہ انسان  کی طرح ذی عقل و اختیار ہوں،  یا حیوانات،  نباتات،  جمادات اور ہوا روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔

۳۲: یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ  اور بطوع و رغبت  بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے،  مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بذھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے۔

۳۳: مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا، لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ  زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیّاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی  کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے،  مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا ہے وہ بھی اُس کی اطاعت پر اُسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی نبی اور ولی،  اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفات اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جا سکے،  یا خداوند ِ عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکے۔ کسی قانون ِ بے حاکم اور فطرتِ بے صانع اور نظامِ بے ناظم کے لیے یہ ممکن  ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے او ر قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا برسر ِ باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا۔

۳۴: یہاں ذلت اور عزّت سے مراد حق  کا انکار اور اس کی پیروی ہے،  کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلّت اور عزّت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے،  اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی ِ حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اِس عزت سے سرفراز کر دے۔

۳۵: یہاں سجدہ ۂ تلاوت واجب ہے،  اور سورۂ حج کا   یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔ سجدہ ۂ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۱۵۷۔

۳۶: یہاں خدا کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر خدا کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے،  خواہ اس کے اندر آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کر لی ہوں۔

۳۷: مستقبل میں جس چیز کا پیش آنا بالکل قطعی اور یقینی ہو اس کو زور دینے کے لیے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ گویا وہ پیش آچکی ہے۔ آگ کے کپڑوں سے مراد غالباً وہی چیز ہے جسے سُورۂ ابراہیم آیت ۵۰ میں  سَرَ ابِیْلُھُمْ مِنْ قَطِرَانٍ  فرمایا گیا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  ابراہیم، حاشیہ نمبر ۵۸۔

(دُوسری طرف)جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتّوں میں داخل کرے گا جِن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے ۳۸ اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی ۳۹ اور انھیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا۔ ۴۰
جن لوگوں نے کُفر کیا ۴۱ اور جو (آج)اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں ۴۲ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں ۴۳ (اُن کی روِش یقیناً سزا کی مستحق ہے)۔ اِس (مسجدِ حرام)میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا ۴۴ اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں   گے۔ ؏ ۳

۳۸: اِس سے یہ تصور دلانا  مقصُود ہے کہ اُن کو شاہانہ لباس پہنائے جائیں گے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے،  اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں۔

۳۹: اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں، مگر مراد ہے وہ کلمۂ طیبہ اور عقیدۂ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر ہو مومن ہوئے۔

۴۰: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے،  ہمارے نزدیک یہاں سُورے کا وہ حصّہ ختم ہو جاتا ہے جو مکّی دَور میں نازل ہو ا تھا۔اِس حصّے کا مضمون اور اندازِ بیان وہی ہے جو مکّی سورتوں کا ہوا کر تا ہے، اور اس میں کوئی  علامت بھی ایسی نہیں  ہے جس کی  بنا پر  یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصّہ،  یا اِس کا کوئی جُز مدینے میں نازل ہوا ہو۔ صرف آیت ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْ ا فِیْ رَبِّھِمْ۔ (یہ دونوں فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب  کے بارے میں جھگڑا ہے) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت  مدنی ہے۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ  ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگِ بدر کے فریقین ہیں، اور یہ کوئی  مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو۔ الفاظ عام ہیں،  اور سیاق ِ عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اُس نزاعِ عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جنگِ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق   ہوتا تو اس کی جگہ سورۂ انفال میں تھی نہ کہ اِس  سورے میں اور اِس سلسلہ ۂ  کلام میں۔ یہ طریقِ تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر اُن کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا۔ حالانکہ قرآن  کا نظمِ کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے۔

۴۱: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو ماننے  سے انکار کر دیا۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ اِن سے مراد کفارِ مکہ ہیں۔

۴۲: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے پیرووں کو حج  اور عمرہ نہیں کرنے دیتے۔

۴۳: یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے، بلکہ وقفِ عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کا حق نہیں ہے۔ یہاں فقہی نقطۂ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں: اوّل یہ کہ ’’مسجد حرام‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف مسجد یا پورا حرم مکّہ؟ دوم یہ ہے کہ اس میں عاکف (رہنے والے) اور باد (بارہ سے آنے والے) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم،  جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ   یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احدًا طاف بھٰذا البیت او صلّٰی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔’’ اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہوا سے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے۔‘‘ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجدِ حرام سے پورا  حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر  سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ مکّہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوقِ ملکیت و وراثت اور حقوقِ بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے،  حتّٰیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صَفوان بن اُمَیَّہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے۔ اس  کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکّہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی،  مُزدلفہ،  عرفات، سب  مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں  متعدد  مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا   وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ، ’’ مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہِ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے‘‘۔ (بقرہ۔ آیت ۲۱۷)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالنا نہیں بلکہ مکّہ  سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا   ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلَہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ’’یہ رعایت اُس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ۔ آیت ۱۹۶)۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ’’مسجد حرام‘‘ میں مساوات  کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں کیا جا سکتا،  بلکہ یہ حرمِ مکّہ میں مساوات ہے۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے،  بلکہ حرمِ مکّہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سرزمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوقِ ملکیّت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھیر سکتا ہے، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا  و لا تؤ اجر بیوتھا، ’’مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں‘‘۔ ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت کہ حضور ؐ نے فرمایا   مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا، ’’مکّہ کو اللہ  نے حرم قرار دیا ہے،  اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے‘‘۔ (واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ  کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریباً  انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا‘‘۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے  تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے  ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں،  اور فقہا میں سے امام مالک،  امام ابو حنیفہ، سُفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَ یْہ کی بھی یہی رائے ہیں کہ اراضی مکّہ کی بیع،  اور کم از کم موسمِ حج میں مکّے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکّہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کہ مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہلِ مکّہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس ِ فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکانِ زمین اور مالکانِ مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لُوٹیں۔ وہ ایک وقفِ عام ہے تمام اہلِ ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں  جگہ پائے ٹھیر جائے۔

۴۴: اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھا نے تک کو الحاد فی الحرم  میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجۂ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً: حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔ حرم کی حیثیت حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلی آتی ہے،  اور فتح مکّہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اُٹھائی گئی،  پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔ قرآن کا ارشاد ہے  وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا، ’’جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آ گیا‘‘۔ حضرت عمر،  عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہلِ حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا۔ وہاں جنگ اور خونریز ی حرام ہے۔ فتح مکّہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپؐ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’’لوگو، اللہ نے مکّے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے۔ کسی شخص کے لیے،  جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ  ’’اگر میری اِس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا، پھر آج اُس کی حرمت اُسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی‘‘۔ وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا، نہ خود رو گھاس اُکھاڑی جا سکتی ہے، نہ پرندوں اوردوسرے  جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں جانوروں کو بھگایا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے۔ اِس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے مو ذی جانور مستثنٰی ہیں۔ اور خود رو گھاس سے اِذْخِر اور خشک گھاس مستثنٰی کی گئی ہے۔ اِن امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں۔ وہاں کی گری پڑی چیز اُٹھا نا ممنوع ہے، جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے   ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن لقطۃ الحاج،  یعنی ’’آپؐ نے حاجیوں کی گِری پڑی چیز اُٹھانے سے منع فرما دیا تھا‘‘۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عُمرے کی نیت سے آئے وہ اِحرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سےداخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بِلا احرام داخل نہیں ہو سکتے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کو مؤید ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ اِحرام کی قید سے مستثنٰی ہیں جن کو بار بار  اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو۔ باقی سب کو احرام بند  جانا چاہیے۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکّہ میں بِلا احرام داخل ہو سکتا ہے،  مگر جو حدودِ میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بِلا اِحرام نہیں جا سکتا۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ   کا قول ہے۔

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ)کی جگہ تجویز کی تھی اِس  ہدایت کے ساتھ)کہ ’’میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو، ۴۵ اور لوگوں کو حج کے لیے اِذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں ۴۶ پر سوار آئیں، ۴۷ تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، ۴۸ اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انھیں بخشے ہیں، ۴۹ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، ۵۰ پھر اپنا مَیل کچَیل دُور کریں ۵۱ اور اپنی نذریں پُوری کریں، ۵۲ اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ ۵۳یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد)اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حُرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے ربّ کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔ ۵۴
اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ۵۵ ماسوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جاچکی ہیں۔ ۵۶ پس بُتوں کی گندگی سے بچو، ۵۷ جھُوٹی باتوں سے پرہیز کرو، ۵۸ یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گِر گیا، اب یا تو اُسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔ ۵۹
یہ ہے اصل معاملہ( اِسے سمجھ لو)اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر ۶۰ کا احترام کرے  تو یہ دِلوں کے تقویٰ سے ہے۔ ۶۱تمہیں ایک وقتِ مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں)سے فائدہ اُٹھانے کا حق ہے، ۶۲ پھر اُن (کے قربان کرنے)کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔ ۶۳ ؏ ۴

۴۵: بعض مفسرین نے ’’پاک رکھو‘‘ پر اُس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو دیا گیا تھا، اور ’’حج کے لیے اذنِ عام دے دو‘‘  کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف ہے اور اُسی حکم کا ایک حصّہ ہے جو اُن کو خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصودِ کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اوّل روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذنِ عام تھا۔

۴۶: اصل میں لفظ ’’ضامر‘‘  استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دُبلے اُونٹوں کے لیے بولتے ہیں۔ اس سے اُن مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آرہے ہوں اور راستے میں اُن کے اُونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دُبلے ہو گئے ہوں۔

۴۷: یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداءً حضرت ابراہیمؑ کو دیا گیا تھا، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اِس کلام کا خاتمہ’’اِس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘ پر ہوا ہے، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانۂ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا۔ (حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر خانۂ  کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات  کے لیے ملاحظہ ہو،  سورۂ بقرہ، آیات ۱۲۵ – ۱۲۹۔ آل ِ عمران،  آیات ۹۶ – ۹۷۔ ابراہیم، آیات ۳۵ – ۴۱)۔

۴۸: اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدہ بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ ۂ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکزِ وحدت حاصل رہا جس نے اُن کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم  ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت  ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات،  معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم  چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصّے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت  گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج  ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  آلِ عمران، حواشی ۸۰ – ۸۱۔ المائدہ،  حاشیہ  ۱۱۳)۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ  اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گئے۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے  اہلِ توحید کے لیے رحمت ہو گیا۔

۴۹: جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں،  یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ،  بکری،  جیسا کہ سورۂ انعام آیات ۱۴۲ – ۱۴۴ میں بصراحت بیا ن ہوا ہے۔

 اُن پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اُس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے،  جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ  کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کر ے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا،  اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔

 ایّام معلومات (چند مقرر دنوں) سے مراد  کون سے دن ہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباس ؓ،  حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے  یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام  شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی ۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابنِ عباس ؓ، ابن عمر ؓ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء  کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں، اور امام شافعی ؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں،  یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر،  علی، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ، سعید بن مُسَیَّب اور سعید بن جُبَیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہاء میں سے سُفیانؒ ثوری، امام مالکؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمد ؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے،کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا  مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے۔

۵۰: ’’بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب  ہیں، کیونکہ حکم بصیغۂ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے،  اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد و اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ  فَکُلُوْ ا مِنْھَا میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا  ہی ہے جیسے فرمایا  وَاِ ذَا حَلَلْتُمْ فَا صطَادُوْا، ’’ جب تم حالتِ اِحرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘۔(المائدہ۔ آیت ۲) اور فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰ ۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ، ’’پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘‘(الجمعہ۔ آیت ۱۰)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے ہیں اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں، اسے کھاؤ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا۔ دوست، ہمسائے، رشتہ دار، خواہ محتاج  نہ ہوں، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقَمَہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا،  خود بھی کھانا، مساکین کو بھی دینا اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصّہ کھاؤ، ایک حصّہ ہمسایوں کو دو، اور ایک حصّہ مساکین میں تقسیم کرو۔

۵۱: یعنی یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ ) کو قربانی  سے فارغ ہو کر احرام کھول دیں، حجامت کرائیں، نہائیں،  دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں۔ لغت میں تَفَث کے اصل معنی اُس غبار اور مَیل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے۔ مگر حج کے سلسلے میں جب میل کچیل دُور کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔ کیونکہ حاجی جب تک مناسِک حج اور قربانی سے فارغ نہ ہو جائے،  وہ نہ بال  ترشوا سکتا ہے،  نہ ناخن کٹوا سکتا ہے،  اور نہ جسم کی دوسری صفائی کر سکتا ہے۔ (اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قربانی سے فراغت کے بعد دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر بیوی کے پاس جانا اُس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طوافِ افاضہ نہ  کر لے)۔

۵۲: یعنی جو نذر بھی کسی نے اِس موقع کے لیے مانی ہو۔

۵۳: کعبہ کے لیے ’’بیتِ عتیق‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔’’عتیق‘‘ عربی زبان میں تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک قدیم۔ دوسرے آزاد، جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو۔ تیسرے،  مکرم اور معزّز۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں۔ طواف سے مراد طوافِ  افاضہ، یعنی طوافِ زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے اور اِحرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ارکانِ حج میں سے ہے۔ اور چونکہ قضائے تَفَث کے حکم سے متصل اس کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طواف قربانی کرنے اور اِحرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہیے۔

۵۴: بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے، مگر اس سلسلہ ۂ کلام میں وہ حرمتیں بدرجۂ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرمِ مکّہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسکِ حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کر کے  اُن بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں۔

۵۵: اس موقع  پر مویشی جانوروں کی حِلّت کا ذکر کرنے سے مقصُود  دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اوّل یہ کہ قریش اور مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت ِ احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اُس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا  کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے۔

۵۶: اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورۂ انعام اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ (اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے)۔ (الانعام، آیت ۱۴۵۔ النحل، آیت ۱۱۵)۔

۵۷: یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھِن کھاتا ہے اور دُور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی اُن سے نجس اور پلید ہو جائے گا۔

۵۸: ’’اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلۂ کلام میں خاص طور پر اشارہ اُن باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیا دہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات،  صفات،  اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا  وہ سب بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی براہِ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورۂ نحل میں فرمایا   وَلَا نَقُوْلُوْ ا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ،  ’’اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلا ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘۔( آیت ۱۱۶)

اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا    عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ، ’’جھُوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے‘‘،اور پھر آپؐ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اُ س کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمر ؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا   یُضْرب ظھرہ و یحلق راۂ سہ و یسخم و جھہ و یطال حبسہ، ’’اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے‘‘۔ عبداللہ بن عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن برسرِ عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے،  اِسے پہچان لو، پھر اس کو قید  کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تشہیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے۔

۵۹: اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اُس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے،  اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے نہ کہ پستیوں کی طرف۔ لیکن شرک (اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان،  جن کا اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک  اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشاتِ نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے، اسے اُڑائے اُڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اُس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔

سَحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں۔ کسی جگہ کو سحیق اُس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پُرزے اُڑ جائیں۔

۶۰: یعنی خدا پرستی کی علامات،  خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز،  روزہ، حج وغیرہ،  یا اشیاء ہوں جیسے  مسجد اور رَہدی کے اونٹ وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل،  المائدہ، حاشیہ نمبر ۵۔

۶۱: یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے تبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے،  یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اُتر آیا ہے۔

۶۲: پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھیرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں، جیسا کہ اہلِ عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ  وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ءِ رِ اللہِ، ’’اور ان ہدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ‘‘۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں  تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سوار ی کرنا،  یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اِسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے  خلاف نہیں ہے۔ یہی بات اُن احادیث سے معلوم ہوتی ہے جس اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جا رہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ اُس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ارے سوار ہو جا‘‘۔

 مفسرین میں سے ابن عباس، قتادہ، مجاہد، ضَحّاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ سے مراد ’’جب تک جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے‘‘ ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہَدی کے نام سے موسوم نہ کر دے۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے،  پھر  اسے کوئی فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اوّل تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی  بے معنی ہے۔ کیونکہ ’’ہدی‘‘ کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر ’’شعائر اللہ‘‘ کا اطلاق ہوا،  اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے۔ دُوسرے مفسرین،  مثلاً عُرْوَہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ’’ وقتِ مقرر ‘‘ سے مراد ’’قربانی کا وقت‘‘ ہے۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں،  ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں،  ان کے بچے بھی لے سکتے ہیں اور اُن کا اون، صوف، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں،  لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرطِ ضرورت استفادہ جائز ہے۔

۶۳: جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا   ھَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَۃِ (المائدہ۔ آیت نمبر ۹۵) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر،  یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے، بلکہ حرام کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ،  یا بیت اللہ،  یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرمِ مکّہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت۔

ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس اُمّت کے )لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے ان کو بخشے ہیں۔ ۶۴ (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے)پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیعِ فرمان بنو۔ اور اے نبیؐ،  بشارت دے دے عاجزانہ روِش اختیار کرنے والوں کو، ۶۵ جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ۶۶ اور (قربانی کے )اُونٹوں ۶۷ کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے،  تمہارے لیے اُن میں  بھلائی ہے ۶۸،  پس انھیں کھڑا کر کے ۶۹ ان پر اللہ کا نام لو، ۷۰ اور جب (قربانی کے بعد)ان کی پیٹھیں زمین پر ٹِک جائیں ۷۱ تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھِلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ ۷۲ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ۷۳ اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ ۷۴ اور اے نبیؐ،  بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔ ۷۵ یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ ۷۶ یقیناً اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۷ ؏ ۵

۶۴: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الٰہیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیراللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الٰہیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبودانِ باطل کی تیرتھ یا ترا کی ہے۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مَقْدِس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبُودوں کے لیے جانوروں کی قربانی بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں،  مگر سب کی رُوح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔

۶۵: اصل میں لفظ ’’مُخْبِتِیْن‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں۔ استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اُس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا۔

۶۶: اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کی چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخچا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریا کارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’انفاق‘‘ قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چُرائے،  تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہے ہے،  مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام ’’اِنفاق‘‘ نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’بخل‘‘ اور’’ شُحِّ نفس‘‘ کہتا ہے۔

۶۷: اصل میں لفظ ’’بدُن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اُونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے،  اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کرسکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ   امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان نشترک فی الا ضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے‘‘۔

۶۸: یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اُٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکرِ نعمت کے لیے،  بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کر نے کے لیے بھی،  تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اُس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز او ر روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ اُن اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ  نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریّے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم الشان نعمت پر اُس کا شکر ادا  کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوا ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں،  جن کے گوشت کھاتے ہیں،  جن کے دودھ پیتے ہیں، جن کی کھالوں  اور بالوں اور خون اور ہڈی، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اُٹھاتے ہیں۔

۶۹: واضح رہے کہ اُونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے۔ اُس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے،  پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اُونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَوَافّ کا۔ ابن عباس،  مجاہد، ضحّاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابنِ عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا  ابعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم۔’’ اس کو پاؤں  باندھ کر کھڑا کر، یہ  ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اُسے کھڑا کرتے تھے، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اِسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے:  اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، ’’جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں‘‘۔ اُسی صورت میں بولیں گے جبکہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

۷۰: یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے  خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصوّر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت  بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر  کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت ۳۶ میں فرمایا    فَا ذْ کُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا، ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت ۳۷ میں فرمایا    لِتُکَبِّرُوْ االلہَ عَلیٰ مَا ھَدٰ کُمْ ’’تا کہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت  پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً (۱) بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَر،  اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ’’اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۲) اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ الّٰھُمّ منک ولک،’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۳) اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلوٰ تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمیْنَ،  اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، ’’میں نے یکسُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔

۷۱: ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گِر ٹھیر جائیں،  یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نِکل جائے۔ ابوداؤد، ترمذی اور مُسْنَد احمد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ   ما قُطع (اَومابان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے‘‘۔

۷۲: یہاں پھر اشارہ ہے اِس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اُس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخّر کر کے تمہیں بخشی ہے۔

۷۳: جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا  گوشت بتوں پر لے کا چڑھاتے تھے، اُسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت  پیش کیا جائے۔ اس جہالت  کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون یا گوشت نہیں،  بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکرِ نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہی بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا   ان اللہ لا ینظر الیٰ صورکم و لا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم، ’’اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے‘‘۔

۷۴: یعنی دل سے اس کی بڑائی  اور برتری مانو  اور عمل  سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر ِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے،  بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں،  اور جس نے  انہیں  ہمارے لیے مسخر کیا ہے،  اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں،  تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جا تا ہے کہ  اللھم منک ولک، ’’خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ اس مقام پر یہ جان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا  جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکّے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریہ  اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو  جائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی  نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا  کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود مدینۂ طیّبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید  کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مُسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

 من وجد سعۃ فلم یُضَحِّ فلا یقربن مصَلّانا۔ جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے،  وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔

 اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔ ترمذی میں ابنِ عمرؓ کی روایت ہے :

 اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔

بخاری میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقر عید کے روز فرمایا:

من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد و من ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پو ری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔

 اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکّے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔

 مسلم میں جابر ؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینے میں بقر عید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھرا عادہ کریں۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا  بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی،  امام ابو حنیفہ، امام مالک،  امام محمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی،  اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سُفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علماء امت  میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سُوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔

۷۵: یہاں سے تقریر کا رُخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے۔ سلسلۂ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی  ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اُس ظلم کے داغ تازہ تھے  جو مکّے میں ان پر کے گئے تھے بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکّے سے نِکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی  اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ  کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اِس صورت ِ حال  کو بدلنے کے لیے اُٹھیں۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا   کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصّہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تا کہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا  کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصّے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلا ف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔

۷۶: ‘‘مدافعت دفع کر سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دُور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں  دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت  ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا  ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہلِ ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ  کی مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہلِ ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے  ضرر کو اُن سے دفع کرتا رہتا ہے۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہلِ حق کے لیے ای بہت بڑے بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔

۷۷: یہ وجہ ہے ا س بات  کی کہ اِس کشمکش میں اللہ کیوں اہلِ حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے، اور کافرِ نعمت ہے۔ وہ ہر اس امانت  میں خیانت کر رہا ہے  جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے، اور ہر  اس نعمت کا جواب نا شکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے۔

اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں،  ۷۸ اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ ۷۹ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے ۸۰ صرف اِس قصُور  پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا ربّ اللہ ہے۔‘‘ ۸۱ اگر اللہ  لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد ۸۲ اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے،  سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔ ۸۳ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ ۸۴ اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ ۸۵ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ۸۶  اے نبیؐ،  اگر وہ تمہیں جھُٹلاتے ہیں ۸۷ تو اُن سے پہلے قومِ نوحؐ اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیمؐ  اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مَدیَن بھی جھُٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ ۸۸ اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ ۸۹ کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنوئیں ۹۰ بےکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ۹۱
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ ۹۲ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے ربّ کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ ۹۳ کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ اور سب کو واپس تو میرے ہی پاس آنا ہے۔ ؏ ٦

۷۸: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے،  یہ قتال فی  سبیل اللہ کے بارے میں اوّلین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں سورۂ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا، یعنی    وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ، (آیت ۱۹۰) اور وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ وَاَ خْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْ کُمْ (آیت ۱۹۱) اور   وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (آیت ۱۹۳) اور   کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (آیت ۲۱۶) اور   وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَا عْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (آیت ۲۴۴)۔ اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ سن ۱ ھ  میں نازل ہوئی،  اور حکم جنگ ِ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان سن ۲ ھ میں نازل ہوا۔

۷۹: یعنی اس کے باوجود  کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں،  اللہ ان کو تمام مشرکین ِ عرب پر غالب کر سکتا ہے۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اُٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی،  مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ او ر اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد ہوا کہ ’’اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘ نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے اُبھارا جا رہا تھا، اور کفارِ  کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ دراصل  ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ۔

۸۰: یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورۂ حج کا یہ حصّہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔

۸۱: جس  ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں: حضرت صُہَیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار ِ قریش نے ان سے کہا کہ تم  یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہو گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں  کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔

حضرت اُمِ سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مَغِیرہ (اُم سَلَمہ کے خاندان)  نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے  پھرتے رہے،  مگر ہماری لڑکی کو لے کر  نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر بنی عبد الاسد (ابو سَلَمہ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے،  اسے ہمارے حوالے کر دو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال  تک حضرت اُم سلمہ بچے اور شوہر  کے غم میں تڑپتی رہیں،  اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکّے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جا رہی تھی  جن سے مسلح قبائل  بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔

 عیّاش بن رَبِیعہ، ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا  اور بات بنائی کہ امّاں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم  بس چل کر اُنہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکّے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’اے اہلِ مکّہ، اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے‘‘۔ کافی مدّت تک بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔

 اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا۔

۸۲: اصل میں  صَوَ امِعُ  اور   بِیَعٌ  اور   صَلَواتٌ   کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں۔ بِیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صَلَوات سے مراد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute ) اور (Salutation ) اسی سے نِکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔

۸۳: یعنی یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کر تا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے   وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضُھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ،’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل  فرمانے والا ہے‘‘۔ (آیت ۲۵۱)۔

۸۴: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلقِ خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دینِ حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی  و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مددگار ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۵۰)۔

۸۵: یعنی اللہ کے مددگار اور اُس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے، اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس یک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں  اور  کارفرماؤں کی خصوصیات کا جو ہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔

۸۶: یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت  کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں۔ مگر جو  طاقت ایک ذرا سے بیج کو تنا ور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو ہیزم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے،  اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا  ان کو کون ہلا سکے گا اُنہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونہ ۂ عبرت بن جائیں، اور جنہیں دیکھ کر  کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ کبھی اُٹھ سکیں گے اُنہیں ایسا سربلند کرے کہ دنیا میں اُن کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں۔

۸۷: یعنی کفارِ مکّہ۔

۸۸: ’’یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اُس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کفارِ مکّہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ درحقیقت یہ مہلتِ غور و فکر جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں  نے فائدہ نہ اُٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے۔

۸۹: اصل میں لفظ  نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بُری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس کو ایسی سزا دی جائے، جو اس کی حالت دگر گوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ  یہ وہی شخص ہے۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی‘‘۔

۹۰: عرب میں کُنواں اور بستی قریب قریب ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ کسی قبیلے کی بستی کا نام لینا ہو تو کہتے ہیں    ماء بنی فلان  یعنی فلاں قبیلے کا کنواں۔ ایک عرب کے سامنے جب یہ کہا جائے گا کہ کنوئیں بیکار پڑے ہیں تو اس کے ذہن میں اس کا یہ مطلب آئے گا کہ بستیاں اُجڑی پڑی ہیں۔

۹۱: خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں نہ اُلجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے۔ ادبی زبان میں احساسات،  جذبات،  خیالات،  بلکہ قریب قریب تمام ہی افعالِ دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسُوب کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی چیز کے ’’یاد ہونے‘‘ کو بھی یوں کہتے ہیں کہ ’’وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے‘‘۔

۹۲: یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے   نبی بر حق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ،  اور جس  کی دھمکیاں بھی تم بار ہا ہم کو دے چکے ہو۔

۹۳: یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی  اور کل اس کے اچھے یا بُرے نتائج ظاہر ہو گئے۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرزِ عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہو گی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرزِ عمل کو اختیار کیے ہمیں دس، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں،  ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔

اے محمدؐ،  کہہ دو کہ ’’لوگو، میں تو تمہارے لیے صرف وہ شخص ہوں جو (بُرا وقت آنے سے پہلے)صاف صاف خبردار کر دینے والا ہو۔ ۹۴ پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن کے لیے مغفرت ہے اور عزّت کی روزی۔ ۹۵ اور جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ دوزخ کے یار ہیں۔ اور اے محمدؐ،  تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسُول ایسا بھیجا ہے نہ نبی ۹۶ (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ)جب اُس نے تمنا کی ۹۷،  شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہو گیا۔ ۹۸ اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے  اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، ۹۹ اللہ علیم ہے اور حکیم۔ ۱۰۰ (وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے )تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے اُن لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو ( نفاق کا )روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل  کھوٹے ہیں۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔۔۔۔ اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے ربّ کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جُھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ ۱۰۱ انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے، یا ایک منحوس دن ۱۰۲ کا عذاب نازل ہو جائے۔ اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ جو ایمان رکھنے والے اور عملِ صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتّوں میں جائیں گے، اور جنہوں نے کُفر کیا  ہو گا اور ہماری آیات کو جھُٹلایا ہو گا اُن کے لیے رُسوا کُن عذاب ہو گا۔  ؏ ۷

۹۴: یعنی میں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صرف خبردار کرنے والا ہوں۔ میرا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ شامت آنے سے پہلے تم کو متنبہ کر دوں۔ آگے فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی طے کرے گا کہ کس کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب کس صورت میں اس پر عذاب لانا ہے۔

۹۵: ’’مغفرت‘‘ سے مراد ہے خطاؤں اور کمزوریوں اور لغزشوں سے چشم پوشی و درگزر۔ اور ’’رزقِ کریم‘‘ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عمدہ رزق دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ عزّت کے ساتھ بٹھا کر دیا جائے۔

۹۶: رسول اور نبی کے فرق کی تشریح سورۂ مریم حاشیہ نمبر ۳۰ میں کی جا چکی ہے۔

۹۷: تمنّٰی کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک معنی تو وہی ہیں جو اُردو میں لفظ تمنّا کے ہیں، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو۔ دوسرے معنی تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔

۹۸: ’’تمنّا‘‘   کا لفظ اگر  پہلے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہو گی کہ جب بھی اُس نے کلامِ الٰہی لوگوں کو سنایا،  شیطان نے اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنی اس کو پہنائے،  اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے اُلٹے سیدھے مطلب لوگوں کو سمجھائے۔

۹۹: پہلے معنی کے لحاظ سے  اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شیطان کی خلل اندازیوں کے باوجود آخر کار نبی کی تمنا کو(آخری نبی کی تمنا اس کےسوا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی مساعی بار آور ہوں اور اس کا مشن فروغ پائے) پورا کرتا ہے اور اپنی آیات کو (یعنی ان وعدوں کو جو اس نے نبی سے کیے تھے) پختہ اور اٹل وعدے ثابت کر دیتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات و اعتراضات کو اللہ رفع کر دیتا ہے اور ایک آیت کے بارے میں جو الجھنیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتا ہے انہیں بعد کی کسی واضح تر آیت سے صاف کر دیا جاتا ہے۔

۱۰۰: یعنی وہ جانتا ہے کہ شیطان نے کہاں کیا خلل اندازی کی اور اس کے کیا  اثرات ہوئے۔ اور اس کی حکمت ہر شیطانی فتنے کا توڑ کر دیتی ہے۔

۱۰۱: یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش،  اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ اِنہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے برحق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے،  ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلْملاتا۔

 سلسلۂ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اِن آیات کا مطلب صاف سجھ میں آ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہی تھا کہ ایک شخص،  جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے،  وہ تیرہ برس معاذاللہ سرمارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیرووں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں جب لوگ آپؐ کے اس بیان کو دیکھتے  تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے،  تو انہیں آپؐ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ  نظر آنے لگتی تھی،  اور آپؐ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید،  اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں،  اب کیوں نہیں آ جاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جا تے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اِن آیتوں میں اُس کا رُخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جوب کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھراس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثارِ قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آ گیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔

پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں،، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اِن شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوتِ حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھِنچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھَٹ کر الگ ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں اِن آیات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی  خطرے میں پڑ گئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب ِ علم فہمِ قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی طرح سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا  نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔

 قصّہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفارِ قریش کی نفرت دُور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں۔ یا کم از کم اُن کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپؐ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپؐ پر سورۂ نجم نازل ہوئی اور آپؐ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپؐ   اَفَرَ اَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰیo وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰo پر پہنچے تو یکایک آپؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے   تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپؐ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتامِ سورہ پر آپؐ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدہ میں گر گئے۔ کفارِ قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد سے  کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے،  البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ  نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپؐ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل،  رکوع ۸ میں ہے کہ  وَاِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۔ یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرتؐ کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرینِ حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفارِ مکّہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکّہ واپس آ گئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ  صُلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کُفر کی دشمنی جُوں کی تُوں قائم ہے۔ یہ قصہ ابن جَریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں،  ابن سعد نے طبقات میں،  الواحدی نے اسباب النزُول میں،  موسیٰ بن عُقبہ نے مَغازِی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں،  اور ابن ابی حاتم، ابن المُنْذِر،  بَزار، ابنِ مَرْدُوْییہ اور طَبرَانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظِی، عُروہ بن زبیر، ابو صالح، ابو العالیہ، سعید بن جُبَیر، ضَحّاک، ابوبکر بن عبد الرحمٰن بن حارث، قَتَادہ، مجاہد، سُدِّی، ابن ِ شہاب زُہْرِی، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے)۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب  ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو ۱۵ عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رُو سے یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپؐ پر القا کر دیے اور آپؐ سمجھے کہ یہ جبریل لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اُس خواہش کے زیرِ اثر سہواً آپؐ کی زبان سے نِکل گئے۔ کسی میں  ہے کہ اُس وقت آپؐ کو اُونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپؐ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپؐ کی آواز میں آواز مِلا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا  یہ گیا کہ آپؐ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔

 اِبنِ کَثِیر، بَیْہقی، قاضی عیاض، ابن خُزَیمہ، قاضی ابوبکر ابن العربی، امام رازی، قُرطُبی، بدر الدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ’’جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے، سب مُرسَل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔‘‘بیہقی کہتے ہیں کہ ’’ازروئے نقل یہ قصّہ ثابت  نہیں ہے۔‘‘ ابنِ خُذیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ زنادقہ کا گھڑا ہو ا ہے۔‘‘ قاضی عیاض کہتے  ہیں کہ ’’اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے۔‘‘ امام رازی،  قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کر کے اسے بڑے پر زور طریقے سے رد کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حَجَر جیسے بلند پایہ محدث اور ابوبکر جَصّاص جیسے نامور فقیہ اور زَمَحشَرِی جیسے عقلیت پسند مفسِّر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت ِ زیرِ بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدّثانہ استدلال یہ ہے کہ:

 ’’سعید بن جُبَیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسندِ صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بزّار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حمّاد عن اُمَیَّہ بن خالد عن شُعْبَہ عن ابی بِشْر عن سعید بن حُبَیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طَبرَی نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق مُعتَمِر بن سلیمان و حماد بن سَلَمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ‘‘۔

 جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند  اس کی نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس  کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصّے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق   شک پیدا ہو جاتا ہے  کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت  کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں،  یا جواَب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں،  ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا  کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ تو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین،  اور متعدد و معتبر راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہُوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جبکہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے؟

اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابلِ قبول قرار پاتا ہے،  چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔

 پہلی چیز خود اُس کی اندرونی شہادت ہے جو اُسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصّے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکّہ واپس آ گیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے:

—- ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب سن ۵ نبوی میں واقع ہوئی،  اور مہاجرین ِ حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سُن کر تین مہینے  بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں) مکّے واپس آ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لامحالہ سن ۵ نبوی کا ہے۔

—- سورۂ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فعل پر بطورِ عتاب نازل ہوئی تھی،  معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رُو سے سن ۱۱ یا سن۱۲ نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔

—- اور زیرِ بحث آیت،  جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے  سن ۱ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسُوخ کر دیا ہے۔

 کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان ۹ سال بعد؟

 پھر اس قصّے میں بیان کیا گیا ہے   کہ یہ آمیزش سورۂ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آرہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پر پہنچ کر آپ نے بطورِ خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا،  اور آگے پھر سورۂ نجم  کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ کفارِ مکّہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور  انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلۂ کلام میں اس الحاقی فقرے کے شامل کر کے تو دیکھیے:

 ’’پھر تم نے کچھ غور کیا اِن  لات اور عُزّیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہے مگر چند نام  جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے ربّ کی طرف سے صحیح رہنمائی آ گئی ہے‘‘۔

 دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر اُن پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصّے میں آئیں بیٹیاں! یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نِکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کے شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سُن رہا تھا،  بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سُن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورۂ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلا ف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سُننے کے بعد یہ پکار اُٹھے ہوں گے کہ چلو آج ہمارا اور محمد ؐ  کا اختلاف ختم ہو گیا؟

 یہ تو ہے اس قصّے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شانِ نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے؟ قصّے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورۂ نجم میں کی گئی تھی،  جو سن ۵ نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورۂ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورۂ حج کی زیرِ بحث آیت میں کی گئی۔ اب لا محالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتیں بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورۂ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورۂ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ یہ دونوں آیتیں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورۂ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی  تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورۂ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے ۶ سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اُس بے تُکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔

 یہاں پہنچ کر نقدِ صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے،  یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔ اس  سلسلۂ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے(قطع نظر اس سے کہ آیت   اِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں،  اور آیت  کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورۂ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آ گیا کہ ’’اے نبی ۹ سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اُس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسُوخی کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔‘‘

ہم اس سے پہلے بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت،  خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت  میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق و سباق،  ترتیب،  ہر چیز اُسے قبول کرنے سے انکار کر رہے ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصّہ غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ اسے ہر گز نہیں مان سکتا جبکہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے  کہ وہ یہ مان لے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی اپنی خواہش ِ نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش  کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو  کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں، یا یہ کہ آپ پر وحی کسی ایسے غیر محفوظ اور مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیطان بھی آپ پر کوئی لفظ القا کر جائے اور آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک  ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات  کے خلاف ہے اور اُن ثابت شدہ عقائد کے خلا ف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پنا ہ اُس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال  یا راویوں کی ثقاہت یا طُرقِ روایت  کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔

 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُس شک کو بھی دُور کر دیا جائے جو راویانِ حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصّے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصّے کی کوئی اصلیت نہیں ہے تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتا ن حدیث  کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے،  جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس  کے اسباب  کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخار ی،  مسلم، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد  میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اوّل تو قرآن کا زورِ کلام اور انتہائی پُر تاثر اندازِ بیان، پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سُن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت  طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہی تو  وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تاثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سُنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرینِ حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے،  کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً ۳۳ آدمی مکّے میں واپس آ گئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش، اسجدہ، اس سجدے کی یہ توجیہ،  اور مہاجرین ِ حبشہ کی واپسی،  مِل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے والے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے،  نذر ِ آتش کر دینے کے لائق ہے۔

۱۰۲: اصل میں لفظ ’’عَقِیْم‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’بانجھ‘‘ ہے۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کار گر نہ ہو، ہر کوشش اُلٹی پڑے، اور ہر اُمید مایوسی میں تبدیل ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً جس روز قومِ نوح پر طوفان آیا، وہ ان کے لیے ’’بانجھ‘‘ دن تھا۔ اسی طرح عاد، ثمود، قومِ لوط، اہلِ مَدیَن، اور دوسرے سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذابِ الٰہی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہُوا۔ کیونکہ اُس  ’’امروز‘‘ کا کوئی ’’فردا‘‘ پھر وہ نہ دیکھ  سکے، اور کوئی چارہ گری اُن کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے۔

اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی،  پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھا رزق دے گا۔ اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔ وہ اُنہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ بے شک اللہ علیم اور حلیم ہے۔ ۱۰۳ یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے،  ویسا ہی جیسا اُس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ ۱۰۴ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ ۱۰۵
۱۰۶یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے ۱۰۷ اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ ۱۰۸ یہ اِس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور سب باطل ہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ۱۰۹ اور اللہ ہی بالادست اور بزرگ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ ۱۱۰ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے۔ ۱۱۱ اُسی کی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ بے شک وہی غنی و حمید ہے۔ ۱۱۲ ؏ ۸

۱۰۳: ’’علیم‘‘ ہے،  یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے فی الحقیقت اُسی کی راہ میں گھر بار چھوڑا ہے اور وہ کس انعام کا مستحق ہے۔ ’’حلیم‘‘ ہے یعنی ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان کی بڑی بڑی خدمات اور قربانیوں پر پانی پھیر دینے والا نہیں ہے۔ وہ ان سے درگزر فرمائے گا اور ان کے قصور معاف کر دے گا۔

۱۰۴: پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں، اور یہاں اُن کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ امام شافعیؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اُسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل  نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا۔

۱۰۵: اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کہ مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو،  عفو و درگزر کرنے والا ہے، اس لیے تم کو بھی، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و درگزر سےکام لینا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، عالی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق اُنہیں ضرور حاصل ہے،  مگر بالکل منتقانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔

۱۰۶: اس پیراگراف  کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے  سے۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا، مظلوم اہلِ حق کی داد رسی کرنا، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہلِ حق کی نصرت فرمانا، یہ سب کسی وجہ سے ہے؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں۔

۱۰۷: یعنی تمام نظامِ کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اِس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے  دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے اُن کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھا دے، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اِس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چھَت جائے اور وہ دن نِکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نُور سے دنیا روشن ہو جائے۔

۱۰۸: یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خدا ہے، اندھا بہرا نہیں ہے۔

۱۰۹: یعنی حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی ربّ وہی ہے، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے۔ اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں،  ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے اُن کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے،  اس لیے خدا سے منہ موڑ کر اُن کے اعتماد پر جینے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار  نہیں ہو سکتے۔

۱۱۰: یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی  ہوئی زمین یکایک لہلہا اُٹھتی ہے،  اسی طرح یہ وحی کا بارانِ رحمت جو آج ہو رہا ہے، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

۱۱۱: ’’لطیف‘‘ ہے،  یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اس کی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ اُن کے آغاز میں کبھی اُن کے انجام کا تصوّر تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ہے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خوردبین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی۔ کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بنا ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابلِ ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ’’خیبر‘‘ ہے،  یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس  طرح کرے۔

۱۱۲: وہی ’’غنی‘‘ ہے،  یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور وہی ’’حمید‘‘ ہے، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، خواہ کوئی حمد کرے  یا نہ کرے۔

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اُس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخّر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے،  اور اُسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اُس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گِر سکتا؟ ۱۱۳ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے،  وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے۔ ۱۱۴ ہر اُمّت ۱۱۵ کے لیے ہم نے ایک طریقِ عبادت  ۱۱۶ مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ،  وہ اِس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ ۱۱۷ تم اپنے ربّ کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ ۱۱۸ اور اگر وہ تم سے جھگڑے تو کہہ دو کہ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان اُن سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ ۱۱۹ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اُس نے کوئی سَنَد نازل کی ہے اور نہ یہ خود اُن کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں۔ ۱۲۰ اِن ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔ ۱۲۱ اور جب اِن کو ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتیں ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرینِ حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں، اور ایسا محسوس ہوتا ہے،  کہ ابھی وہ اُن لوگوں پر ٹُوٹ پڑیں گے جو انھیں ہماری آیات سُناتے ہیں۔اِن سے کہو ’’میں بتاؤں تمہیں کہ اِس سے بد تر چیز کیا ہے؟ ۱۲۲ آگ، اللہ نے اسی کا وعدہ ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے، جو قبولِ حق سے انکار کریں، اور بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘ ؏ ۹

۱۱۳: آسمان سے مراد یہاں پورا عالمِ بالا ہے جس کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ تھمی ہوئی ہے۔

۱۱۴: یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اُس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السّلام نے پیش کیا ہے۔

۱۱۵: یعنی ہر نبی کی اُمّت۔

۱۱۶: یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظامِ عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ ’’قربانی کا قاعدہ‘‘ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ ’’تاکہ لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں‘‘ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کی تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض ’’قربانی‘‘ کے معنی میں لینے کی کو ئی وجہ نہیں  ہے۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر ’’پرستش‘‘ کے بجائے ’’بندگی‘‘ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔ اس طرح منسک (طریقِ زندگی) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَتً وَّمِنْھَاجًا،  ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی‘‘ (آیت ۴۸)۔

۱۱۷: یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دَور کی اُمتوں کے لیے ایک ’’منسک‘‘ لائے تھے، اسی طرح اس دَور کی اُمت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق  حاصل نہیں ہے، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک ِ حق ہے۔ سُورۂ جاثیہ میں اِس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:  ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلیٰ شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَا تَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ  اَھْوَ آءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت ۱۸) ’’پھر (انبیاء بنی اسرائیل کے بعد) اَے محمدؐ ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت (طریقے) پر قائم کیا،  پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم، الشوریٰ،  حاشیہ نمبر ۲۰)۔

۱۱۸: یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں۔

۱۱۹: سلسلۂ کلام سے اس پیراگراف کا تعلق سمجھنے کے لیے اس سُورے کی آیات  ۵۵  تا  ۵۷ نگاہ میں رہنی چاہییں۔

۱۲۰: یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصّہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں، اور ان کے آستانوں پر جَبہ سائیاں ہو رہی ہیں،  دعائیں مانگی جا رہی ہیں،  چڑھاوے چڑھ رہے ہیں، نیازیں دی جا رہی ہیں، طواف کیے جا رہے ہیں اور اعتکاف ہو رہے ہیں،یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر  اور کیا ہے۔

۱۲۱: یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخر ت میں ان کے مددگار ہیں، حالانکہ حقیقت  میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے۔ نہ یہ معبود،  کیونکہ ان کےپاس مدد کی کوئی طاقت نہیں، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں۔

۱۲۲: یعنی کلامِ الٰہی کی آیات سُن کر جو غصے کی جلن تم کو لاحق ہوتی ہے اس سے شدید تر چیز،  یا یہ کہ ان آیات کو سنانے والوں کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ برائی تم کر سکتے ہو اس سے زیادہ بدتر چیز،  جس سے تمہیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔

لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سُنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھُڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ۱۲۳ اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزّت والا تو اللہ ہی ہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے، اور انسانوں میں سے بھی۔ ۱۲۴ وہ سمیع  اور بصیر ہے، جو کچھ ان کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اُس سے بھی وہ واقف ہے ۱۲۵،  اور سارے معاملات اُسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ ۱۲۶ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اورسجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ ۱۲۷ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ ۱۲۸ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے ۱۲۹ اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ ۱۳۰ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملّت پر ۱۳۱۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ۱۳۲ )۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ ۱۳۳ پس نماز قائم کرو،  زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ ۱۳۴ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ ؏ ١۰

۱۲۳: یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالاتر طاقت کی طرف  استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگرا س غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ اُن لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور۔

۱۲۴: مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چُن لیا ہے۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی۔

۱۲۵: یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے  ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذات خود  حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سُننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے،  ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے،  لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے۔

۱۲۶: یعنی تدبیرِ امر بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات کے کسی  چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع  کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تواس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کر لینے پر قادر نہیں ہیں۔

۱۲۷: یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہی روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اُسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا،  بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب  ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس  کی بات نہیں ہے۔

’’شاید کہ تم  کو فلاح نصیب ہو‘‘ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے  کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے،  تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔

 امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورۂ حج کی یہ آیت بھی آیت ِ سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ،  امام مالک،  حسن بصری،  سعید بن  المسیَّب، سعید بن جُبَیر، ابراہیم نَخعی اور سُفیان ثَوری اس جگہ سجدہ ۂ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں۔

 پہلے گروہ کا اوّلین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عُقْبہؓ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن مردُویَہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسُول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجد تین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقر اۂ ھما۔’’ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ،  کیا سورۂ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں،  پس جو اُن پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے‘‘۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ بن عاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو سورۂ حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرات عمرؓ،  علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابوالدرداؓء، ابو موسیٰؓ اشعری اور عمّارؓ بن یاسِر سے یہ بات منقول ہے کہ سورۂ حج میں دو سجدے ہیں۔

دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن  میں رکوع وسجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عُقْبہ بن عامر کی روایت  کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو ہو شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمر و بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن مُنَین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوالِ صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس  نے سورۂ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتاتا ہے کہ   الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم،  یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے،  اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔

۱۲۸: جہاد سے مراد محض ’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش  کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدوجہد  مطلوب ہے۔  اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ بندگی اور اس کی رضا جوئی میں،  اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں، اور جدوجہد کا مقصُود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی  اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی  کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اوّلین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا    قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آ گئے ہو‘‘۔ عرض کیا گیا  وہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا   مجاھدۃ العبد ھواہ۔’’آدمی کی خود اپنی خواہشِ نفس کے خلاف جدوجہد‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا و ہ حقِ جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

۱۲۹: یعنی تمام نوعِ انسانی میں سے تم لوگ اُس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر  ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت ۱۴۳)۔ اور سورۂ آل ِ عمران میں فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ اُن آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور اُن لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہِ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس خطاب بالتبع پہنچتا ہے۔

۱۳۰: یعنی تمہاری زندگی  کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی اُمتوں کے فقیہوں او فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدّن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان  کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ یَاْ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئیثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ،  ’’یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے،  اور ان بُرائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرتِ انسانی انکار کرتی ہے، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۵۷)۔

۱۳۱: اگرچہ اسلام کو مِلّت نوح، ملّتِ موسیٰ، ملّتِ عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملّتِ ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملّتِ ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اوّلین مخاطب اہلِ عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس  طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ،  روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسُوخ و اثر رچا ہوا تھا  وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان،  مشرکینِ عرب،  اور شرق اوسط کے صابِئی، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملّتوں کی پیدائش سےپہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابِئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکینِ عرب،  تو وہ بھی  یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بُت پرستی کا رواج عَمرو بن  لُحَیّ  سے شروع ہوا جو بنی خُزاعہ کا سردار تھا اور مُآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اُس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ مِلّت  بھی حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملّتوں کے بجائے مِلّت ابراہیم ؑ کو اختیار کرو،  تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ برحق اور برسرِ ہدایت تھے ،  اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے،  تو لامحالہ پھر وہی ملّت اصل مِلّتِ حق ہے نہ کہ یہ بعد کی مِلّتیں، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت اُسی مِلّت کی طرح ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حواشی ۱۳۴ – ۱۳۵۔ آل عمران،  حواشی ۵۸ – ۷۹۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ ۱۲۰۔

۱۳۲: ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر سرف اُنہی اہلِ ایمان کی طرح نہیں ہے جو اِس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے،  یا اس کے بعد اہلِ ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغازِ  تاریخِ انسانی سے توحید،  آخرت، رسالت اور کتبِ الٰہی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدّعا یہ ہے  کہ اِس ملّتِ حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’نوحی‘‘،’’ابراہیمی‘‘،’’موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ ان کا نام’’مسلم‘‘(اللہ کا تابع فرمان) تھا، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ’’مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معمّا بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا۔

۱۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اِس مضمون پر ہم نے اپنے رسالۂ ’’شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے۔

۱۳۴: یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانونِ زندگی بھی اسی سے  لو، اطاعت بھی  اسی کی کرو، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو،  مدد کے لیے بھی اسی کی آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ۔

٭٭٭

۲۳۔ سورۂ الْمؤمنون

نام

پہلی ہی آیت اَدْ اَ فْلَحَ الْمُؤْ مِنُوْنَ سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

انداز بیان اور مضامین،  دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس  منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے،  لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت ۷۵۔ ۷۶ سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا۔ عروہ بن زُبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے،  اور جب حضورؐ اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی،  نسائی، حاکم)۔

موضوع اور مباحث

 اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔

آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے،  ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں،  اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔

اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،  جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے  پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔

پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں،  جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں،  لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں :

اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے،  جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟

دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔

سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔

چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔

ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی،  مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے،  اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں،  ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے،  اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔

اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے،  یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔

پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو  آگاہ کر رہا ہ،  کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟

پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں،  تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی  تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔

خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ۱ جو: ۲ اپنی نماز میں خشوع ۳ اختیار کرتے ہوں، لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ ۴ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ ۵ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، ۶ سوائے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ رکھنے میں)وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، ۷ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں، ۸ اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ ۹ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس ۱۰ پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۱۱
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا،  پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، ۱۲ پھر اسے ایک دُوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ ۱۳ پس بڑا ہی بابرکت ہے ۱۴ اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاؤ گے۔ اور تمہارے اُوپر ہم نے سات راستے بنائے، ۱۵ تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ ۱۶ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ۱۷ ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔ ۱۸ پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجُور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیز پھل ہیں ۱۹ اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ ۲۰ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طوُرِ سیناء سے نکلتا ہے، ۲۱ تیل بھی لیے ہوئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، ۲۲ اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دُوسرے فائدے بھی ہیں۔ اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔ ۲۳ ؏ ١

۱: ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی  اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی، آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اُس طریقِ زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔

 فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خُسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی، اس کی حالت اچھی ہو گئی۔

قَدْ اَفْلَحَ  ’’یقیناً فلاح پائی‘‘۔ آغازِ کلام اِن الفاظ سے کرنے کی معنویت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک  وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اُس وقت ایک طرف دعوتِ اسلامی کے مخالف سردارانِ مکّہ تھے  جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں،  جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی،  جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے،  اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بدحال کر دیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے‘‘  تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے،  تمہارے اندازے غلط ہیں،  تمہاری نگاہ دور رَس نہیں ہے، تم اپنے جس عاری و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوتِ حق کو مان کو انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بُرے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔

 یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدّعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

۲: – – – – – – – – – – – – 

۳: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک  جانا،  دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے،  اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست  ہو جائے، آواز دب جائے،  اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا   لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا  تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔

 اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورۂ  بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی  دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے،  مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگا ہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا  اور مختلف  سمتوں میں جھُکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا،  یا ان کو جھاڑنا،  یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں  جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونابہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا،   یا قرأ ت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہےکہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل،  مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔

 ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ  وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل  سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔

۴: ’’لغو‘‘  ہر اس بات  اور کام کو کہتے ہیں جو فضول،  لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی  مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ’’لغویات‘‘  ہیں۔ ’’معرضون‘‘  کا ترجمہ ہم نے  ’’دُور رہتے ہیں‘‘  کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ ان میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصّہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نِکل جاتے ہیں،  یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ   وَاِذَا مَرُّوْ ا بِاللَّغْوِ مَرُّوْ ا کِرَ اماً۔ (الفرقان۔ آیت۷۲) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں،  یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔

 یہ چیز،  جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے،  دراصل مومن کی اہم ترین  صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یا د کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تُلی مدّت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اُس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اُس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی  کے لےی فیصلہ کُن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ اُن گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو اُنہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی اُن چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اُسے تیار کرنے والی ہوں۔ اُس کے نزدیک وقت ’’کاٹنے‘‘  کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔

علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا،  گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا، تفریحی گفتگو ؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اُس کے لیے تو وہ سوسائیٹی ایک مستقل عذاب ہوتتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں سے،   غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے،   گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اُس کی نعمتوں میں اے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ   لَا تَسمَعُ فِیْھَا لَاغِیَہ۔ ’’وہاں تُو کوئی لغو بات نہ سُنے گا‘‘۔

۵: ’’زکوٰۃ دینے‘‘  اور  ’’زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے‘‘  میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کا معروف انداز چھوڑ کر لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرزِ بیان اختیار  کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ’’پاکیزگی‘‘۔ دوسرے ’’نشو نما‘‘۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں اُن کو دُور کرنا،  اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا،  یہ دو تصوّرات مِل کر زکوٰۃ کا پورا تصوّر بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں  پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصدِ تزکیہ  کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ  کا فعل۔ اگر یُؤْ تُوْنَ الزَّکوٰ ۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصّہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات  صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر لِلزَّکٰوۃَ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ  ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیۂ نفس،  تزکیۂ اخلاق، تزکیۂ زندگی، تزکیۂ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی۔ اور مزید براں،  اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ ’’وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں،‘‘ یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہرِ انسانیت کو نشو نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعلیٰ میں فرمایا   قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo وَذَکَرَاسْمِ ربِّہٖ فَصَلّٰی o ’’ فلاح پائی اُس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور پانے ربّ کا نام یاد کر کے نماز پڑھی‘‘۔ اور سورۂ شمس میں فرمایا    قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o ’’بامراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تز کیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی،  دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔

۶: اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں،  یعنی عریانی سے پرہیز  کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں،  یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النور،  حواشی ۳۰ – ۳۲)۔

۷: یہ جملۂ معترضہ ہے جو اُس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ’’شرمگاہوں کی حفاظت‘‘  کے لفظ  سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے  اور آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوتِ شہوانی  بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی  سے کیوں نہ ہو،  بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بندر ہتے ہیں، راہب اور سنیاسی  قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملۂ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہشِ نفس پوری کرنا کوئی قابلِ ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔

اس جملۂ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار  کے ساتھ  یہاں بیان کرتے ہیں۔

 (۱) شرمگاہوں کی حفاظت  کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ  کیا گیا ہے۔ ایک ازواج،  دوسرے  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ۔ ’’ازواج‘‘  کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف اُن عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی  اردو لفظ ’’بیوی‘‘  کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ،  تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے،  یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو۔ اِس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ  بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی  سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ مِلک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ا زواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے،  سورۂ نساء کی آیت  وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤ مِنٰتِ   (آیت ۲۵) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے،  کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہےکہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی متحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن اِن لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا  ان کے مدّعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایت  جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں:-   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ بِاِزْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْ ھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ،  ’’پس ان (لونڈیوں) سے نکاح کر لو اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اور اُن کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو‘‘۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیرِ بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیرِ بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہوتو اس کے وہ ’’اہل‘‘  (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے  والے صرف   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ  کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی  بِاِ ذْنَ اَھْلِھِنَّ  کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو  وہ سورۂ نساء، آیت ۳ – ۲۵، سورۂ احزاب، آیت ۵۰ – ۵۲، اور سورۂ معارج، آیت ۳۰ کو سورۂ  مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۴۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ ۲۹۰ تا ۳۲۴۔ رسائل و مسائل، جلد اوّل، صفحہ ۳۲۴ تا ۳۳۳)۔

 (۲) اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نھُمْ   میں لفظ  عَلیٰ  اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملۂ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات   قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر   خٰلِدُوْنَ  تک،  مذکّر کی ضمیروں کے باوجود مردو عورت   دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے  تو ضمیر مذکر ہی استعمال  کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں   لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے  عَلیٰ  کا لفظ استعمال کر کے بات واضح کر دی گئی  کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ’’ان پر‘‘  کہنے کے بجائے ’’اُن سے ‘‘  محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابۂ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ   تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہٖ ’’ اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا‘‘۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظِ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اِس حکم سے مستثنیٰ ہو گئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکمِ استثنا ء کا اثر عملاً  صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اِس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش ِ نفس پوری کر سکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوّام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی  رہ جاتی ہے۔

(۳) ’’البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘،  اِس فقرے نے مذکورۂ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہشِ نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا،  خواہ وہ زنا ہو، یا عملِ قومِ لوط یا وطیِ بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید(Masturbation ) کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے،  لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہو جائے تو اُمید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔

(۴) بعض مفسرین نے مُتعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہےکہ ممنوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدّت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں  کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ ’’بیوی‘‘  اور  ’’لونڈی‘‘  دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ’’ان کے علاوہ کچھ اور‘‘  میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن ’’حد سے گزرنے والا‘‘  قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے، مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکّہ کے سال دیا ہے،  اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمتِ متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکّی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے فتح مکّہ تک جائز  رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اوّل یہ کہ اس  کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر ؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ  اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضورؐ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا،  اس لیے حضرت عمر ؓ  نے اس کی عام اشاعت کی  اور بذریعۂ  قانون اس کو نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھیرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے ا س کے لیے  تو بہر حال نصوص کتاب و سنت میں  سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صر ف اضطرار  اور  شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح ِ مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس ؓ،  جن کا نام قائلینِ جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود اِن الفاظ میں کرتے ہیں کہ   ما ھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اُس وقت باز آ گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباسؓ اور ان کے ہم خیال چند گنے چُنے اصحاب نے  ا س مسلک سے رجُوع کر لیا تھا یا نہیں،  تو اُن کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالتِ اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت،  اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممنوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوقِ سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمۂ اہلِ بیت کو اس سے متّہِم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ ا س کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنانِ بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اُٹھانا خوشحال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کیا خدا  اور  اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل  کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزّتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی؟

۸: ’’امانات‘‘  کا لفظ جامع  ہے اُن تمام امانتوں کے لیے جو خداوندِ عالم نے،  یا معاشرے نے،  یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان،  یا انسان اور انسان کے درمیان،  یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے  لا ایمان لمن لا امانۃ لہٗ ولا دین  لمن لا  عھد لہ، ’’جو امانت  کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا، اور جو عہد کا پس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان )۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’ چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی  ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک  کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے۔ جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے‘‘۔

۹: اوپر خشوع کے ذکر میں ’’نماز‘‘  فرمایا تھا اور یہاں ’’نمازوں‘‘  بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں جنسِ نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ’’نمازوں کی محافظت‘‘  کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقاتِ نماز،  آدابِ نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں،  وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے، نہ اِس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک  دینا ہے۔

۱۰: فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی  زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیشَا، قدیم کلدانی زبان میں پَر دیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا، عبرانی میں پَردیس، ارمنی میں پَردیز، سُریانی میں فَردیسو، یونانی میں پارادائسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ  کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ  سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا    کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً،  ’’ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔

 اہلِ ایمان کے وارث ِ فردوس ہونے پر سُورۂ طٰہٰ (حاشیہ نمبر ۸۳)، اور سُورۂ انبیاء (حاشیہ نمبر ۹۹ )میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔

۱۱: اِن آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں:

 اوّل یہ  کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویّے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔

 دوم یہ  کہ فلاح محض اقرارِ ایمان،  یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔ جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔

سوم یہ کہ فلاح دنیوی اور مادّی خوشحالی اور محدود قتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالتِ خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائیدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر ہوتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل  صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کُلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوشحالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔

چہارم یہ کہ مومنین کے اِن اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشن کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلۂ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغازِ میں تجربی دلیل ہے،  یعنی یہ کہ اس کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائیٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی  دلیل ہے،  یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے برحق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔

۱۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورۂ حج کے حواشی نمبر ۵، نمبر۶ اور نمبر ۹۔

۱۳: یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے دیکھ کر یہ تصور نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھائے گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوست کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضعِ حمل کے آغاز تک زندگی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت،  نہ بصارت، نہ گویائی،  نہ عقل و خرد، نہ اورکوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع اور بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی اُبھرنی شروع ہو تی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتانی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے اُس کی ذات میں یہ ’’چیز ے دیگر‘‘  ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جو ان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت  کچھ اَور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اَور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم ایس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے،  اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ  پچاس ساٹھ برس پلے  ایک روز جو بوند ٹپک کر ر حم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی  جو آگے کے فقرے میں آرہی ہے۔

۱۴: اصل میں   فَتَبَارَکَ اللہُ   کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعمالاتِ زبان  کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزّہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور  خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اُس کا اندازہ کرو اُس سے زیادہ ہی اُس کو پاؤ  حتیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حواشی نمبر ۱ اور ۱۹)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیقِ انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد  فَتَبَارَکَ اللہُ  کا فقرہ محض  ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجۂ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی  کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے  وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے،  اور اس سے بدرجہا مقدس ہے کہ اُسی انسان کو پھر پیدا  نہ کر سکے،  اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں،  اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے۔

۱۵: اصل میں لفظ   طرائق  استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیّاروں کی گردش کے راستے ہیں،  اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا۔ اِس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں۔ اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو  سَبْعَ طَرَآئیقَ  کا وہی مفہوم ہو گا  جو  سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (سات آسمان طبق بر طبق) کا مفہوم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر‘‘  ہم نے سات راستے بنائے،  تو اس کا  ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے،  اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا کہ لَخَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔ ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے‘‘۔ (المومن۔ آیت ۵۷)۔

۱۶: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے، یا نہیں ہیں۔‘‘  متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے،  یہ بس یونہی کسی اناڑی  کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظامِ کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے،  اور اس کار گاہِ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیّت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل، اور کسی حالت  سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور ایک ایک ذرے اور پتّے کی حالت سے ہم باخبر  رہے ہیں۔

۱۷: اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے،  اور وہ یہ ہے کہ آغازِ آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا  جو قیامت تک اِس کُرے کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھا۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصّوں میں ٹھیر گیا جس سے سمندر اور بُحَیرے وجود میں آئے اور آبِ زیرِ زمین(Sub-soil Water ) پیدا ہوا۔ اب یہ اسی پانی کا اُلٹ پھیر ہے جو گرمی، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے، اسی کو بارشیں،  برف پوش پہاڑ، دریا، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصّوں میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے  کی کمی ہوئی  اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی،  جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن،  دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا؟ اور کون ہے جو اب انہی دونوں گیسوں کو اُس خاص تناسب کے ساتھ نہیں ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے، حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ اور کیا پانی اور ہوا گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی  جواب رکھتے ہیں؟

۱۸: یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے، بے شمار صورتیں ممکن ہیں،  اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ آیت  سورۂ مُلک کی اُس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ    قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآءُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْ تِیْکُمْ بَمَآءٍمَّعِیْنٍ۔ ’’ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا  یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا؟‘‘

۱۹: یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل۔

۲۰: ‘‘ یعنی اِن باغوں کی پیداوار سے،  جو پھل،  غلّے،  لکڑی اور دوسری  مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ میں منھا  کی ضمیر جنّات کی ضمیر کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ  یہ بحیثیتِ مجمُوعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے،  اُسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں  فلان یاکل من حرفتہٖ۔

۲۱: مراد ہے زیتون،  جو بحرِ روم کے گردو پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے سے اب تک چلے  آرہے ہیں۔ طورِ سیناء کی طرف اس کو منسُوب کر نے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طورِ سینا ہے، اس درخت کا وطنِ اصلی ہے۔

۲۲: یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے۔ (النحل،  آیت ۶۶)۔

۲۳: مویشیوں اور کشتیوں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے  کہ اہلِ عرب سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اُونٹ استعمال کرتے تھے، اور اونٹوں کے لیے ’’خشکی کے جہاز‘‘  کا استعارہ بہت پرانا ہے۔ جاہلیت کا شاعر ذوالرُّ مَّہ کہتا ہے: ؏     سفینۃ  برٍّ تحت  خدی  زما  مھا

ہم نے نوحؑ  کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۲۴ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبُود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟‘‘  ۲۵ اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگو کہ ’’ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ ۲۶ اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ ۲۷ اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا۔ ۲۷الف یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سُنی ہی نہیں (کہ بشر رسُول بن کر آئے)۔ کچھ نہیں،  بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے۔ کچھ مدّت اور دیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے)۔‘‘  نوحؑ نے کہا ’’ پروردگار، اِن لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تُو ہی میری نُصرت فرما۔‘‘  ۲۸ ہم نے اس پر وحی کی کہ ’’ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنُور اُبل پڑے ۲۹ تو  ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔ پھر جب تُو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ ۳۰ اور کہہ، پروردگار،  مجھ کو برکت والی جگہ اُتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے۔‘‘  ۳۱اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں،  ۳۲ اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں۔ ۳۳ان کے بعد ہم نے ایک دُوسرے دور کی قوم اُٹھائی۔ ۳۴ پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسُول بھیجا جس نے انہیں دعوت دی)کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟    ؏۲

۲۴: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس،   آیات ۷۱ تا ۷۳۔ ہُود، آیات ۲۵ تا ۴۸۔ بنی اسرائیل، آیت ۳۔ الانبیاء، آیات ۷۶ و ۷۷۔

۲۵: یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک و فرمانروا ہے اُس کی سلطنت میں رہ کر اس کے بجائے دوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے اور دوسروں کی ربوبیت و خداوندی تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟

۲۶: یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ اسی  لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصوّر کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء  انسان تھے اور انسانوں کے لیے  انسان ہی نبی ہونا چاہیے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ں الاعراف، آیات ۶۳ – ۶۹۔ یونس، آیت ۲۔ ہُود، ۲۷ – ۳۱۔ یوسف  ۱۰۹۔ الرعد ۳۸۔ ابراہیم ۱۰ – ۱۱۔ النحل ۴۳۔ بنی اسرائیل ۹۴ – ۹۵۔ الکہف ۱۱۰۔ الانبیاء ۳ – ۳۴۔ المومنون ۳۳ – ۳۴ – ۴۷۔ الفرقان ۷ – ۲۰۔ الشعراء ۱۵۴ – ۱۸۶۔ یٰسین ۱۵۔ حٰم السجدہ ۶۔ مع حواشی)۔

۲۷: یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اُٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے،    تکون لکما الکبر یا ء فی الارض (یونس آیت ۷۸)۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا  گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’اپوزیشن‘‘  چھوڑ کر ’’حزبِ اقتدار‘‘  میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل  بلکہ نا ممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اورا صلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ  میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب  کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’اقتدار کی بھوک‘‘  کا یہ الزام ہمیشہ برسر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، ا س کے حاصل کرنے اور اس پر قابض  رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابلِ ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘  پیدائشی حق نہ تھی اور اب  یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘  محسوس کر رہے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۶)۔

 اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظامِ زندگی کی خرابیوں کو دُور کرنے کے لیے اُٹھے گا اوار اس کے مقابلے میں اصلاحی نظر یہ و نظام پیش کرے گا،  اس کے لیے بہر حال  یہ بات نا گزیر ہو گی کہ اصلا ح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدِّ راہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور اُن طاقتوں کو برسرِ اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی،  ا س کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا  و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیرووں کے ہاتھ ان پر قابض ہو ں گے۔ آخر انبیاء  اور مصلحینِ عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا،  ا ور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا  نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور  کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق  جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ  دونوں بالارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے،  تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت، دونوں کے طریق کا ر اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ عقل آدمی ڈاکو  کو ڈاکو اور ڈاکٹر  کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔

۲۷الف: یہ اس امر کا کھُلا ہُوا ثبوت ہے کہ قومِ نوح ؑ اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ ربّ العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع  فرمان ہیں۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکارِ خدا۔ وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اُس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتی تھی۔

۲۸: یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:  فَدَعَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ، ’’پس نوح نے اپنے ربّ کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں،  اب تُو ان سے بدلہ لے‘‘  (القمر آیت ۱۰)۔ اور سُورۂ  نوح مین فرمایا:  وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِٖ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَادَ کَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِرًا کَفَّارًا۔ ’’ اور نوح نے کہا، اے میرے پروردگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تُو نے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے‘‘ (آیت ۲۶)۔

۲۹: بعض لوگوں نے  تنور  سے مراد زمین لی ہے، بعض نے زمین کا بلند ترین حصّہ مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ  فَار َ التَّنُّور  کا مطلب طلوعِ فجر ہے، اور بعض کی رائے میں یہ  حمی الوطیس  کی طرح ایک استعارہ ہے ’’ہنگامہ گرم ہو جانے‘‘  کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے  جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز  اس کے نیچے سے پانی اُبلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے کہ جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی اُبل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رُخ سے لاتا ہے جدھر  اس کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔

۳۰: یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کا ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔

۳۱: ’’اتارنے‘‘  سے مراد محض اتارنا ہی نہیں ہے،  بلکہ عربی محاورے کے مطابق اِس میں ’’میزبانی‘‘  کا مفہوم بھی شامل ہے۔ گویا اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا یا اب ہم تیرے مہمان ہیں اور تُو ہی ہمارا میزبان ہے۔

۳۲: یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک  پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر،  اور یہ کہ آج وہی صورتِ حال مکّہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اُس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے،  اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخر کار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازماً اہلِ حق کے حق میں اور اہلِ باطل کے خلاف ہوتا ہے۔

۳۳: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہو تھی‘‘  یا ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے‘‘۔ تینوں صورتوں میں مدّعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا،  بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا  رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہے ہے۔ قومِ نوح کے ساتھ جو کچھ ہُوا اسی قانون کے مطابق ہُوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوانِ یغما  پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے  سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔

۳۴: بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے، کیونکہ آگے چل کر  ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صَیْحَہ کے عذاب سے تباہ کی گئی،  اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود و ہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا، (ہُود، ۶۷۔الحجر، ۸۳۔القمر، ۳۱)۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے، کیونکہ قرآن کی رُو سے قومِ نوح کے بعد یہی قوم اُٹھا ئی گئی تھی،   وَاذْ کُرُوْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (اعراف، آیت ۶۹)۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے کہ،  کیونکہ ’’قومِ نوح کے بعد‘‘  کا اشارہ اسی طرح رہنمائی کرتا ہے۔ رہا  صَیْحَہ (چیخ،  آوازہ، شور، ہنگامۂ عظیم) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اُس آوازۂ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کی موجب ہو، اُسی طرح اُس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سببِ ہلاکت کچھ بھی ہو۔

اُس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھُٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسُودہ کر رکھا تھا، ۳۵ وہ کہنے لگو ’’یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کر لی تو تم گھاٹے ہی میں رہے۔ ۳۶ یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اُس وقت تم (قبروں سے )نکالے جاؤ گے؟ بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔ زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی۔ یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھُوٹ گھڑ رہا ہے ۳۶الف اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘  رسُول  نے کہا ’’پروردگار، اِن لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر تُو ہی میری نُصرت فرما۔‘‘  جواب میں ارشاد ہوا ’’ قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے۔‘‘  آخر کار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامہ ٴ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا ۳۷ بنا کر پھینک دیا۔۔۔۔ دُور ہو ظالم قوم! پھر ہم نے اُن کے بعد دُوسری قومیں اُٹھائیں۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھہر سکی۔ پھر ہم نے پے درپے رسُول بھیجے۔ جس قوم کے پاس بھی اس کا رسُول آیا، اُس نے اُسے جھُٹلایا، اور ہم ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے حتیٰ کہ ان کو بس افسانہ ہی بنا کر چھوڑا۔۔۔۔ پِھٹکار اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے! ۳۸
پھر ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھُلی سَنَد ۳۹ کے ساتھ فرعون اور اس کے اَعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر انہوں نے تکبّر کیا اور بڑی دوں کی لی۔ ۴۰ کہنے لگے ’’کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ ۴۰الف اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے۔‘‘  ۴۱ پس اُنہوں نے دونوں کو جھُٹلایا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے۔ ۴۲ اور موسیٰؑ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ اور ابنِ مریمؑ  اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا ۴۳ اور ان کو ایک سطحِ مُرتَفَع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔ ۴۴ ؏ ۳

۳۵: یہ خصوصیات لائقِ غور ہیں۔ پیغمبر کی  مخالفت کے لیے اُٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے،  اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا،  اور اسی لیے وہ دنیا کی اِس زندگی پر فریفتہ تھے اور ’’مادّی فلاح و بہبُود‘‘  سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ، وہ نظامِ اخلاق،  اور وہ طرزِ زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے  جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دُہراتی رہی ہے کہ دعوتِ حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ اِنہی تین خصوصیات  کے حامل لوگ ہوئے ہیں۔ اور یہی اُس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکّے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے۔

۳۶: ———————

الف۳۶: ———————

۳۷: —————————

۳۷: اصل میں لفظ غُثَاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ کوڑا کرکٹ جو سیلاب کے ساتھ بہتا ہوا آتا ہے اور پھر کناروں پر لگ لگ کر پڑا سڑتا رہتا ہے۔

۳۸: یا بالفاظِ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے۔

۳۹: ’’نشانیوں‘‘  کے بعد ’’کھلی سند‘‘  سے مراد یا تو یہ ہے  کہ ان نشانیوں کا اُن کے ساتھ ہونا ہی اس باک کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گئے تھے، اور کھلی سند سے مراد عصا ہے،  کیونکہ اس  کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے اُن کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی  مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی ۴۳ – ۴۴)۔

۴۰: اصل میں وَکَانُوْ ا قَوْمًا عَالِیْنَ کے الفاظ ہیں،  جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی،  ظالم اور دراز دست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اُونچے بنے اور انہوں نے بڑی دون کی لی۔

۴۰a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۶۔

۴۱: اصل الفاظ ہیں ’’جن کی قوم ہماری عابد ہے‘‘۔ عربی زبان میں کسی کا ’’مطیع ِ فرمان‘‘  ہونا اور ’’اس کا عبادت گزار‘‘  ہونا،  دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے  لفظ ’’عبادت‘‘  کے معنی پر اور انبیاء علیہم السّلام کی اِس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عباد ت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا۔ ’’عبادت‘‘  ان کے نزدیک صرف ’’پوجا‘‘  نہ تھی۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھیراتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔

۴۲: قصّۂ موسیٰؑ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ،  آیات ۴۹ – ۵۰۔ الاعراف، آیات ۱۰۳ تا ۱۳۶۔ یونس آیات ۷۵ تا ۹۶۔ ہُود آیات ۹۶ تا ۹۹۔ بنی اسرائیل آیات ۱۰۱ تا ۱۰۴۔ طٰہٰ آیات ۹ تا ۸۰۔

۴۳: یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا۔ بلکہ فرمایا  یہ کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغری ابنِ مریمؑ کا پیدا ہونا،  اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم ؑ کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتا ہے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش  ِ بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے؟ (مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران،  حواشی ۴۴ – ۵۳۔ النساء، حواشی ۱۹۰ – ۲۱۲ – ۲۱۳۔ جلد سوم، مریم، حواشی ۱۵ تا ۲۲۔ الانبیاء،  حواشی ۸۹ – ۹۰)۔ یہاں دوباتیں اور بھی قابل توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدۂ  ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا اُن پر تو ایمن لانے سے یہ کہہ کر انکار  کر دیا گیا  کہ تم بشر ہو، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش،  اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھُلا کھُلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی اُن کو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونۂ عبرت بن گئی۔

۴۴: مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق  کہتا ہے، کوئی الرَّ مْلَہ،  کوئی بیت المَقدِس، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر اَرْخِلاؤس کے عہدِ حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی ۲ – ۱۳ تا ۲۳ )۔ اب یہ بات یقین  کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں رَبْوَہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار  ہو اور اپنے گرد و پیش  کے علاقے  سے اُونچی ہو۔ ذاتِ قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو۔ اور مَعیِن سے مراد ہے بہتا ہُوا  پانی یا چشمۂ  جاری۔

اے پیغمبرو، ۴۵ کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، ۴۶ تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خُوب جانتا ہوں۔ اور یہ تمہاری اُمّت ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں،  پس مجھی سے ڈرو۔ ۴۷ مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے ۴۸۔۔۔۔ اچھا، تو چھوڑو انھیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقتِ خاص تک۔۴۹ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اِنہیں مال اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا اِنہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں،  اصل معاملے کا اِنہیں شعُور نہیں ہے۔ ۵۰ بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے ۵۰الف والے تو در حقیقت وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، ۵۱ جو اپنے ربّ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، ۵۲ جو اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، ۵۳ اور جن کا حال یہ ہے  کہ دیتے ہیں جو کچھ  بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اِس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔ ۵۴ ہم کسی شخص کو ۵۴الف اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، ۵۵ اور ہمارے  پاس ایک کتاب ہے،  جو (ہر ایک کا حال )ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، ۵۶ اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔ ۵۷ مگر یہ  لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں۔ ۵۸ اور ان کے اعمال بھی اُس طریقے سے (جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے)مختلف ہیں۔ وہ اپنے یہ کرتُوت کیے چلے جائیں گے یہاں تک کہ جب ہم اُن کے عیّاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے ۵۹ تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے ۶۰۔۔۔۔ ۶۱ اب بند کرو اپنی فریاد و فغاں، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی۔ میری آیات سُنائی جاتی تھیں تو تُم (رسُول کی آواز سُنتے ہی)اُلٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے، ۶۲ اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے ۶۳ اور بکواس کیا کرتے تھے۔ تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا؟ ۶۴ یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟ ۶۵ یا یہ اپنے رسُول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہو نے کے باعث)اُس سے بِدَکتے ہیں؟ ۶۶ یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنُون ہے؟ ۶۷ نہیں، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔۔۔۔ اور حق اگر کہیں اِن کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ۶۸۔۔۔۔ نہیں، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ۶۹
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے ربّ کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ ۷۰ تُو تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بُلا رہا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہِ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔ ۷۱ اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مُبتلا ہیں،  دُور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ ۷۲ اِن کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے اِنہیں تکلیف میں مبتلا کیا، پھر بھی یہ اپنے ربّ کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ البتہ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ہم اِن پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں  تو یکایک تم دیکھو گے کہ اس حالت میں یہ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ ۷۳    ؏ ۴

۴۵: پچھلے دو رکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب  یٰٓاَ یّھُا الرُّسُلُ کہہ کہ تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا مو جود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف  قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کی یہی ہدایت کی گئی تھی،  اور سب کے سب  اختلاف زمانہ و مقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک اُمّت،  ایک جماعت، ا یک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرزِ بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ  کھنچ جائے گا۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دے جا رہی ہے۔ مگر اس طرزِ کلام کی لطافت اس دَور کے بعض کُند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے نہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ؐ کے بعد بھی سلسلۂ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے،  جو لوگ زبان و ادب کے ذوقِ لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر  کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔

۴۶: پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں،  اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔

عملِ صالح سے پہلے طیبات کھانے  کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عملِ صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آدمی رزقِ حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لوگو،  اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا   الرجل یطیل السفر اشعت اغبر  و مطعمہ حرام و مشربہ حرام  و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدیدیہ الی السماء یا رب  یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ’’ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یارب،  یارب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام،  کپڑے اس کے حرام، او رجسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو‘‘۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔

۴۷: ’’تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے‘‘،   یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔ ’’امت‘‘  کا لفظ اُس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصلِ مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء چونکہ اختلافِ زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے،  ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی اُمّت ہے۔ بعد کا فقرہ  خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۱۳۰ تا ۱۳۳ – ۲۱۳۔ آل عمران، ۱۹ – ۲۰ – ۳۳ – ۳۴ – ۶۴ – ۷۹ تا ۸۵۔ النساء، ۱۵۰ تا ۱۵۲۔ الاعراف ۵۹ – ۶۵ – ۷۳ – ۸۵۔ یوسف، ۳۷ تا ۴۰۔ مریم، ۴۹ تا ۵۹۔ الانبیاء، ۷۱ تا ۹۳۔

۴۸: یہ محض بیان واقعہ  ہی نہیں ہے بلکہ اُس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغازِ سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السّلام سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدۂ  آخرت  کی تعلیم دیتے رہے ہیں،  تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوعِ انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے،  اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو اُن مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں،  نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے۔

۴۹: پہلے فقرے  اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ  خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سال سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے،  دلائل سے بات سمجھا رہا ہے،  تاریخ سے نظیریں پیش کر رہا ہے، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملاً  نگاہوں کے سامنے آرہے ہیں،  اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا  ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اُس باطل میں مگن ہیں جو اُن کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اِس حد تک بھی نہیں کہ وہ اُس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے،  بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعیِ حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن،  ملامت،  ظلم، جھوٹ، غرض کوئی بُری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کو وحدت،  اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ’’چھوڑ و انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں‘‘،  خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ’’اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑ انہیں‘‘۔ اس ’’چھوڑو‘‘  کو بالکل لفظی معنوں میں  لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ ’’اب تبلیغ ہی نہ کرو‘‘،  کلام کے تیوروں سے ناآشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے  کہی جایا کرتی ہے۔ پھر ’’ایک وقتِ خاص تک‘‘  کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا،  ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی۔

۵۰: اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈالی لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ’’فلاح‘‘  اور ’’خیر‘‘  اور ’’خوشحالی‘‘  کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر  پا لیا،  جو مال و اولاد سے نوازا گیا،  اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے  بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم  رہ گیا  وہ ناکام و نامراد  رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست  پر ہے،  بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ  محروم نظر آ رہا ہے  وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے،  قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے،  مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے،  اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔ التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔

 اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔

 اوّل یہ  کہ ’’انسان کی فلاح‘‘  اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔

دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔

 سوم یہ کہ دنیا فی الاصل  دار الجزاء نہیں بلکہ دار الامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ’’انعام‘‘  ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے،  اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ ’’سزا‘‘  ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے،  غیر صالح ہے،  اور مغضوبِ بارگاہِ  خداوندی ہے،  یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں  سے افراد کا،  قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات،  اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔

 چہارم یہ  کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے،  اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے  کہ باطل اور بدی کا انجام خساران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی  فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے،  اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں،  انسانی عقلِ عام(genocide) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک وجدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔

پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو،  اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو،  تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے،  اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام‘‘  یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت  و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسال دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں  پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں،  تو یہ خدا کے غضب کی نہیں  اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور  دنیا  پر اس کا کامل  العیار ہونا  ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا   کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو  رکھتے  ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق  نواز ے جائیں۔

۵۰الف: اردو زبان کی رعایت سے ہم نے آیت ۶۱ کا ترجمہ پہلے کر دیا ہے اور آیت ۵۷ تا ۶۰ کا ترجمہ بعد میں  کیا ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے۔

۵۱: یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے  خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے۔

۵۲: آیات سے مراد دونوں طرح کی آیات ہیں، وہ بھی جو خدا کی طرف سے اس کے انبیاء پیش کرتے ہیں،  اور وہ بھی جو انسان کے اپنے نفس میں اور ہر طرف آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آیاتِ کتاب پر ایمان لانا اُن کی تصدیق کر نا ہے، اور آیاتِ آفاق و اَنْفُس پر ایمان لانا اُن حقیقتوں پر ایمان لانا ہے جن پر وہ دلالت کر رہی ہیں۔

۵۳: اگرچہ آیات پر ایمان سے خود ہی یہ لازم آتا ہے کہ انسان  توحید کا قائل و معتقد ہو، لیکن اس کے باوجود شرک نہ کرنے کا ذکر الگ اس لیے کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان آیات کو مان کر بھی کسی نہ کسی طور کے  شرک میں مبتلا رہتا ہے۔ مثلاً ریا، کہ وہ بھی ایک طرح کا مشرک ہے۔ یا انبیاء اور اولیاء کی تعلیم میں ایسا مبالغہ جو شرک تک پہنچا دے۔ یا غیراللہ سے دُعا اور استعانت۔ یا برضا و رغبت   اربابٌ مِن دُون اللہ  کی بندگی و اطاعت اور غیر الہٰی قوانین کا اتباع۔ پس ایمان بآیات  اللہ کے بعد شرک کی نفی کا الگ ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اپنی بندگی،  اطاعت، اور عبودیت کو بالکل خالص کر لیتے ہیں، اس کے ساتھ کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک لگا نہیں رکھتے۔

۵۴: عربی زبان  میں ’’دینے‘‘  (ایتاء) کا لفظ صرف مال  یا کوئی  مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں  دینے کے معنی میں بھی بولا جا تا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ   اٰتیتہٗ من نفسی القبول  کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے لیے کہتے ہیں   اٰتیتہ من نفسی الابا ئۃ۔ پس اِس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں،  بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور  طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔

 اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں،  جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں،  ان پر وہ  پھُولتے نہیں ہیں، غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ یہی مطلب ہےجس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد،  ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے‘‘ ؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ اسے  یَاْ تُوْ نَ مَا اَتَوْ  کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی ’’کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں‘‘۔ جواب میں  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا      لا یا بنت الصدیق  ولٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق و ھو یخاف اللہ عزّو جلّ،  ’’نہیں، اے صدیق کی بیٹی، اس سے مراد  وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے،  روزے رکھتا ہے،  زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزّ و جلّ سے ڈرتا رہتا ہے۔‘‘  اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت   یَاْتُوْنَ نہیں بلکہ  یُؤْ تُوْنَ  ہے، اور یہ  یُؤْ تُوْنَ صرف مال  دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجا لانے کے وسیع معنی میں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کسی قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر ؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب  دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا  ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے  پھر بھی ڈرتا رہتا ہے،  اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔

۵۴الف: واضح رہے کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ  آیات ۵۷ سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہاں سے آیت ۶۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے۔

۵۵: اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح  سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت  کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اُس رویّے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو،  اور اُس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہلِ ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویّوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، تو کل اپنی  اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اُس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو  تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔

۵۶: کتاب سے مراد ہے نامۂ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے،  جس میں اُس کی ایک ایک  بات، ایک ایک حرکت، خنٰی کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورۂ کہف  میں فرمایا گیا ہے کہ    وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَ ی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا لْکِتٰبِ لَا یُغَادِ رُ صَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرَ ۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ج وَوَ جَدُوْا مَا عَمِلُوْ ا حَاضِرًا ط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا  o ’’اور    نامۂ اعمال  سامنے رکھ دیا جائے گا،  پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اُس کے اندراجات  سے ڈر رہے  ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی،  یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا  بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے،  اور تیرا ربّ کسی پر ظلم  کرنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (آیت ۴۹)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط  کر دیا ہے۔

۵۷: یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو،  نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جس کے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بے جا  سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا۔

۵۸: یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں،  کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے۔

۵۹: ’’عیّاش‘‘  یہاں ’’مُتْرَ فِیْنَ‘‘  کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’مترفین‘‘  اصل میں اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو دُنیوی مال و دولت کو پاکر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیّاش سے ادا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف  شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔               عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اِسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے۔

۶۰: ’’اصل میں لفظ ’’جُؤَار‘‘  استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اُس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد وہ فغاں کے معنی میں نہیں بلکہ اُس شخص کی فریاد  و فغاں  کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہو ا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’اچھا‘‘،   اب جو اپنے کرتُوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے۔‘‘

۶۱: یعنی اُس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔

۶۲: یعنی اس کی بات سننا تک تمہیں گوارا نہ تھا۔ یہ تک برداشت نہ کرتے تھے کہ اس کی آواز کان میں پڑے۔

۶۳: اصل میں لفظ ’’سٰمِرًا‘‘  استعمال کیا گیا ہے۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا۔ گپیں ہانکنا، قصّے کہانیاں کہنا۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عموماً چوپالوں میں ہوا کرتی ہیں۔ اور یہی اہلِ مکّہ کا بھی دستور تھا۔

۶۴: یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے  نہیں مانتے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے، کیس ناقابلِ فہم زبان میں نہیں ہے۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع ِ کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ وہ اس  کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے، نہ اس  لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا۔

۶۵: یعنی کیا کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا،  کتابیں لے کر آنا، توحید کی دعوت دینا، آخرت کی باز پرس  سے ڈرانا، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا،  اِن میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی  مرتبہ رونما ہوئی ہو، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سُنا گیا ہو۔ ان کے گردو پیش عراق، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ خود ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے،  ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں، ان کو یہ خود فرستادۂ الہٰی مانتے ہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے۔ اس لیے در حقیقت اِن کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سُن رہے ہیں جو کبھی نہ سُنی گئی  تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان، حاشیہ نمبر ۸۴، السجدہ حاشیہ نمبر ۵، سباء، حاشیہ نمبر ۳۵)۔

۶۶: یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ  یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے،  اچانک ان کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے۔ جو شخص یہ دعوت  پیش کر رہا ہے  وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے۔ ا س کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے،   اس کی راستبازی سے،  اس کی امانت سے،   اس کی بے داغ سیرت سے یہ  خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے۔ ا س کے بدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں  بولتا ہے۔ اس کی پوری جوانی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے، حق پسند ہے۔ امن پسند ہے۔ جھگڑوں سے کنارہ کش ہے۔ معاملے میں کھرا ہے۔ قول  و قرار کا پکا ہے۔ ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اُس نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ ہر مصیبت  زدہ، بے کس،  حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ  ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوّت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات  نہ سنی تھی  جس سے یہ شبہہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں  کی جا رہی ہیں۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد  سے آ ج تک  وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے۔ کوئی پلٹی اُس نے نہیں کھائی ہے۔ کوئی رد و بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعووں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے  کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ا س کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور۔ وہ دینے کے باٹ الگ  اور لینے کے باٹ الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے  اور جانچے  پرکھے آدمی  کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’صاحب دودھ کاجلا چھاچھ  کو پھونک پھونک کر پیتا ہے،  بڑے بڑے فریبی  آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اوّل اوّل اعتبار جما لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ  سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا، یہ صاحب بھی یا خبر اصل  میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نِکل آئے، ا س لیے ان کومانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا  ٹھنکتا ہے‘‘۔ (اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۱۔ یونس،  حاشیہ نمبر ۲۱،  بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔

۶۷: یعنی کیا اِن کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ واقعی وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مجنون سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ابھی اصل وجہ نہیں ہے، کیونکہ زبان سے چاہے وہ کچھ  ہی کہتے رہیں،  دلوں میں تو  اُن کی دانائی وزیر کی کے  قائل  ہیں۔ علاوہ بریں ایک پاگل اور ایک ہوشمند آدمی کا فرق کوئی ایسا چھپا ہوا تو نہیں ہوتا کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہو۔ آخر ایک ہٹ دھرم،  اور بے حیا آدمی کے  سوا کون اِس کلام کو سُن کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی دیوانے کا کلام ہے، اور اس شخص کی زندگی کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ کسی مخبوط الحواس آدمی کی زندگی ہے؟ بڑا ہی عجیب  ہے وہ جنون (یا مستشرقینِ مغرب کی بکواس  کے مطابق مرگی کا  دَورہ) جس میں آدمی کو زبان سے قرآن جیسا کلام نکلے اور جس میں آدمی ایک تحریک  کی ایسی کامیاب راہ نمائی کر ے کہ اپنے ہی ملک کی نہیں،  دنیا بھر کی قسمت بدل ڈالے۔

۶۸: اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن  کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ  خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور  کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھیلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے،  اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات،  خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے،  اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے  کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے،  اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔

۶۹: یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں:

(۱) ذکر بمعنی بیانِ فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالَم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں،  تا کہ وہ اپنے اِس بھُولے  ہوئے سبق کو یاد کریں، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔

(۲) ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رُو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش  کیا جا رہا ہے یہ انہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔

 (۳) ذکر بمعنیٰ شرف و اعزاز۔ اِس معنی کو  اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں ج سے یہ قبول کریں تو انہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اَور چیز سے نہیں، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اُٹھان کے ایک زرین موقع سے روگردانی ہے۔

۷۰: یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیشِ نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں، بلکہ جان تک کے لالے  پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں  جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اُٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن  ہو گیا ہے،  حتیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش  کرتا،  نہ کہ وہ بات لے کر اُٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے، بلکہ سرے سے اُس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکینِ عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم  ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السّلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۹۰۔ یونس ۷۲۔ ہُود، ۲۹ – ۵۱۔ یوسف ۱۰۴۔ الفرقان، ۵۷۔ شعراء، ۱۰۹ – ۱۲۷ – ۱۴۵ – ۱۶۴ – ۱۸۰۔ سباء، ۴۷۔ یٰسین، ۲۱۔ ص، ۸۶۔ الشوریٰ،  ۲۳۔ النجم ۴۰ مع  حواشی۔

۷۱: یعنی آخرت کے انکار نے ان کو غیر ذمہ دار،  اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے ان کو بے فکر بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب وہ سرے سے یہی نہیں سمجھتے کہ ان کی اس زندگی کا کوئی مآل اور نتیجہ بھی ہے اور کسی کے سامنے اپنے اس پورے کارنامۂ حیات کا حساب بھی دینا ہے، تو پھر انہیں اس کی کیا فکر ہو سکتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ جانوروں کی طرح ان کی بھی غایتِ مقصود بس یہ ہے کہ ضروریات ِ نفس و جسم خوب اچھی طرح پوری ہوتی رہیں۔ یہ مقصود حاصل ہو تو پھر حق و باطل کی بحث ان کے  لیے محض لا یعنی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں کوئی خرابی رونما ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ سوچیں گے وہ صرف یہ کہ اُس خرابی کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے۔ راہِ راست اس ذہنیت کے لوگ نہ چاہ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں۔

۷۲: اشارہ ہے اُس تکلیف و  مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دَور میں اہلِ مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت  کے آغاز  سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا ہجرت کے کئی سال بعد جبکہ ثُمامہ بن اُثال نے یَمامہ سے مکّے کی طرف غلّے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی  یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور ؐ نے دعا کہ کہ  اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف،  ’’خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد  یوسف  کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر‘‘۔ چنانچہ ایسا سخت  قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آگئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، ۴۲ تا ۴۴۔ الاعراف ۹۴ تا ۹۹۔ یُونس، ۱۱ – ۱۲ – ۲۱۔ النحل،  ۱۱۲ – ۱۱۳۔ الدخان، ۱۰ تا ۱۶ مع حواشی۔

۷۳: اصل میں لفظ  مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا۔ بَلَس اور  اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جانا۔ رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جانا۔ ہر طرف سے نا اُمید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہ (Desperate ) ہو جانا بھی ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (Frustration ) کی بنا پر اُس کا زخمی تکبّر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تُلا ہوا ہے۔

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سُننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ ۷۴ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا، اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ ۷۵ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟ ۷۶ مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رو کہہ چکے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ’’کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے توہم کو پھر زندہ کر کے اُٹھا یا جائے گا؟ ہم نے بھی یہ وعدے بہت سُنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سُنتے رہے ہیں۔ یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں۔‘‘  ۷۷ ان سے کہو، بتاؤ، اگر تم جانتے ہو، کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے،  اللہ کی۔ کہو، پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ ۷۸ اِن سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ۷۹۔ کہو، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ۸۰ اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار ۸۱ کس کا ہے؟  اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکا لگتا ہے؟ ۸۲ جو امرِ حق ہے  وہ ہم ان کے سامنے لے آئے ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ ۸۳ اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے، ۸۴ اور کوئی دوسرا خدا اُس کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ ۸۵ پاک ہے اللہ اُن باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ کھُلے اور چھُپے کا جاننے والا، ۸۶ وہ بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں۔ ؏ ۵

۷۴: مطلب یہ ہے کہ بد نصیبو،  یہ آنکھ کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ ان سے بس و ہ کام لو جو حیوانات  لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو اور ہر وقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہو سکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن  کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں،  جن کانوں سے سب کچھ سُنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سُنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے، حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے  ڈھانچے میں ہوں۔

۷۵: ’’علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرف ِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشاندہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھُلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے،  تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا  ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی  جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نِرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مر کر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔

۷۶: واضح رہے کہ یہاں توحید  اور حیات بعد الموت،  دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے،  اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اُن سے شرک کے ابطال اور انکارِ آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جا رہی ہے۔

۷۷: خیال رہے کہ اُن کا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا۔

۷۸: یعنی کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ پھر اس کے سوا کوئی بندگی کا مستحق بھی نہیں ہے،  اور اس کے لیے زمین کی اس آبادی کو دوبارہ پیدا کر دینا بھی مشکل نہیں ہے۔

۷۹: اصل میں لفظ  لِلہ  استعمال ہوا ہے،  یعنی ’’یہ سب چیزیں بھی اللہ کی ہیں‘‘۔ ہم نے ترجمے میں محض اُردو زبان کے حُسنِ کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے۔

۸۰: یعنی، پھر کیوں تمہیں اُس سے بغاوت کرتے اور  اُس کے سوا  دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ اور کیوں تم  کو یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین کے فرمانروا نے اگر کبھی ہم سے حساب لیا تو  ہم کیا جواب دیں گے؟

۸۱: اصل میں لفظ   مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں مُلک (بادشاہی) اور مِلک (مالکیت)،  دونوں  مفہوم شامل ہیں، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کر دہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز  پر پورے پورے مالکانہ اختیارات  کس کو حاصل ہیں‘‘ ؟

۸۲: اصل الفاظ ہیں اَنّٰی تُسْخَرُوْنَ، جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو‘‘۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اُس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہا ہے۔ پس آیت میں جو سوا ل کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ  جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحبِ اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے  والا نہیں ہے  اُس سے غدّاری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ اُن کی پناہ پر کر رہے ہو جو اُس سے تم کو نہیں بچا سکتے؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال  دیا ہے کہ جو  ہر چیز  کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال  کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے  کیسے  مجاز ہو گئے؟ سوا ل کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے۔ اس طرح گویا  سوال کے انہی الفاظ میں یہ مضمون بھی  ادا ہو گیا کہ بیوقوفو! جو شخص تمہیں اصل حقیقت (وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر،  اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں،  حتیٰ کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف،  سراسر جھوٹی  اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے۔ ا ُن کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ اصل جادوگر تو وہ ہیں۔

۸۳: یعنی اپنے اس قول  میں جھوٹے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی  الوہیت (خدائی کی صفات،  اختیارات  اور حقوق، یا ان میں سے کوئی حصّہ) حاصل ہے۔ اور اپنے اس قول میں جھوٹے کہ زندگی بعد ِ موت ممکن نہیں ہے۔ اُن کا جھوٹ اُن کے اپنے اعترافات سے ثابت ہے۔ ایک طرف یہ ماننا کہ زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کی ہر چیز کا مختار اللہ ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدائی تنہا  اسی ی نہیں ہے بلکہ دوسروں کا بھی ( جولا محالہ اُس کے مملوک ہی ہوں گے) اُس میں کوئی حصّہ ہے، یہ دونوں باتیں صریح طور پر ایک دوسرے  سے متناقض ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ کہنا کہ ہم کو اور اِس عظیم الشان  کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا  اپنی ہی پیدا کردہ  مخلوق کو دوبارہ پیدا  نہیں کر سکتا، صریحاً خلافِ عقل ہے۔ لہٰذا ان کی اپنی مانی ہوئی صداقتوں  سے یہ ثابت ہے کہ شرک اور انکارِ آخرت،  دونوں ہی جھوٹے عقیدے ہیں جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں۔

۸۴: یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے۔ نہیں،  مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے،  اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی ہیں ان کے شریک حال رہے ہیں۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدۂ ’’ابن اللہ‘‘  زیادہ مشہور ہو گیا ہے ا س لیے بعض اکابر مفسرین تک  کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفارِ مکّہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رُخ پھر جانا  بے معنی ہے۔ البتہ ضمناً اس میں اُن تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خد ا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین ِ عرب یا کوئی  اور۔

۸۵: یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظامِ  عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حدو حساب چیزوں میں،  اَن گنت تاروں اور سیّاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی  اور اجزائے نظا م کی ہم آہنگی اقتدار  کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالتت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہو تا تو اصحابِ اقتدار  میں اختلاف رونما ہو نا یقیناً ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی مضمون سورۂ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا  ہے کہ   لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا، (آیت ۲۲) ’’ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے  خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔ اور یہی استدلال سُورۂ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ   لَوْ کَانَ  مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْ ا اِلٰی ذِی الْعَرْ شِ سَبِیْلًا  o (آیت ۴۲) ’’اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ  کہتے ہیں، تو ضرور وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے‘‘۔ ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جدل دوم،  بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، الانبیاء،  حاشیہ نمبر ۲۲)۔

۸۶: اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اُس خاص قسم کے شرک کی طر ف جس نے پہلے شفاعت  کے مشرکانہ عقیدے کی،  اور پھر غیر اللہ کے لیے علمِ غیب (علم ما کان و مایکون) کے اثبات کی شکل اختیار کر لی۔ یہ آیت اِس شرک کے دونوں پہلوؤں کی تردید کر دیتی ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،  طٰہٰ، حواشی ۸۵ – ۸۶۔ الانبیاء،  حاشیہ ۲۷)۔

اے محمدؐ، دعا کرو کہ ’’پروردگار، جس عذاب کی اِن کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ اگر میری موجودگی میں تُو لائے، تو اے مرے ربّ، مجھے اِن ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔‘‘  ۸۷ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی وہ چیز لے آنے کی پُوری قدرت رکھتے ہیں جس کی دھمکی ہم انہیں دے رہے ہیں۔ اے محمدؐ، بُرائی کو اُس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خُوب معلوم ہیں۔ اور دعا کرو کہ ’’پروردگار،  میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے ربّ، میں تو اِس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘  ۸۸ (یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے)یہاں تک کہ جب اِن میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ’’ اے میرے ربّ، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے ۸۹ جسے میں چھوڑ آیا ہوں، اُمید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۹۰ ‘‘۔۔۔۔ ہر گز نہیں، ۹۱ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بَک رہا ہے۔ ۹۲ اب ان سب(مرنے والوں)کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ ۹۳ پھر جونہی کہ صُور پھونک دیا گیا، اِن کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ۹۴ اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے ۹۵ وہی فلاح پائیں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ ۹۶ وہ جہنّم میں ہمیشہ رہیں گے۔ آگ اُن کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور اُن کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔۔۔۔ ’’ ۹۷ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سُنائی جاتی تھیں تو تم اُنہیں جھُٹلاتے تھے؟‘‘  وہ کہیں گے ’’اے ہمارے ربّ، ہماری بد بختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہم واقعی گُمراہ لوگ تھے۔ اے پروردگار، اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھر ہم ایسا قصُور کریں تو ظالم ہوں گے۔‘‘  اللہ تعالیٰ جواب دے گا ’’دُور ہو میرے سامنے سے،  پڑے رہو اِسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔ ۹۸ تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے، تو تم نے ان کا مذاق بنالیا۔ یہاں تک کہ ان کی زِد نے تمہیں یہ بھی بھُلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں، اور تم اُن پر ہنستے رہے۔ آج اُن کے اُس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں۔‘‘  ۹۹ پھر اللہ تعالیٰ اُں سے پوچھے گا ’’بتاؤ، زمین میں تم کتنے سال رہے؟‘‘  وہ کہیں گے ’’ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں، ۱۰۰ شُمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔‘‘  اِرشاد ہو گا ’’تھوڑی ہی دیر ٹھہرے ہونا۔ کاش تم نے یہ اُس وقت جانا ہوتا۔ ۱۰۱ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضُول ہی پیدا کیا ہے ۱۰۲ اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘
پس بالا و برتر ہے ۱۰۳ اللہ، پادشاہِ حقیقی، کوئی خدا اُس کے سوا نہیں، مالک ہے عرشِ بزرگ کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبُود کو پکارے، جس کے لیے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۱۰۴ تو اُس کا حساب اُس کے ربّ کے پاس ہے۔ ۱۰۵ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ۱۰۶ اے محمدؐ کہو ’’میرے ربّ درگزر فرما، اور رحم کر،  اور تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔‘‘  ۱۰۷ ؏ ٦

۸۷: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ معاذاللہ اُس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے اختیار کیا گیا ہے  کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کر ے تو  اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ  گناہ گاروں ہی کو نہیں، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے باوجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکّی چلتی ہے تو صرف بُرے  لوگ ہی اس میں نہیں پِستے،  بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ کچھ خبر نہیں کہ کس صورت میں ظالموں پر قہر  الہٰی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آ جائے۔

۸۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، الانعام، حواشی ۷۱، ۷۲۔ جلد دوم، الاعراف، حواشی ۱۳۸ – ۱۵۰ تا ۱۵۳۔ یونس، حاشیہ ۳۹۔ الحجر، حاشیہ ۴۸۔ النحل، حواشی ۱۲۲ تا ۱۲۴۔ بنی اسرائیل، حواشی ۵۸ تا ۶۳۔ حٰم السجدہ، حواشی  ۳۶ تا ۴۱۔

۸۹: اصل میں   رَبِّ ارْجِعُوْنِ  کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرارِ دُعا کا تصوّر دلانے کے لیے ہے، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ  اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے، مجھے واپس بھیج دے) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ  بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور   ارْجِعُوْنِ  کا خطاب اُن فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے۔ یعنی  بات یوں ہے : ’’ہائے میرے ربّ،  مجھ کو واپس کر دو‘‘۔

۹۰: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل  بجہنم ہونے تک،  بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے، اب ہماری توبہ ہے، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے، اب ہم سیدھی را ہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷، ۲۸۔ الاعراف، ۵۳۔ ابراہیم،  ۴۴، ۴۵۔ المومنون، ۱۰۵ تا ۱۱۵۔ الشعراء، ۱۰۲۔ السجدہ، ۱۲ تا ۱۴۔ فاطر، ۳۷۔ الزمر، ۵۸ – ۵۹۔ المومن، ۱۰ تا ۱۲۔ الشوریٰ، ۴۴۔ مع حواشی)۔

۹۱: یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سرِ نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس  بھیجا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذ ہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر  صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق  کو پہچان کر اسے مانتا ہے کہ نہیں،  اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو  پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے۔ ا س کے بعد  کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے۔ جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اُسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لا حاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۲۸۔ الانعام، حواشی ۶ – ۱۳۹ – ۱۴۰۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۶)۔

۹۲: یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابلِ التفات نہیں ہے۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اِسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا۔

۹۳: ’’برزخ‘‘   فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘    کا معرّب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب اِن کے اور دنیا کے درمییان ایک روک ہے جو انہیں واپس  جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اِس حد ِ فاصل میں ٹھیرے رہیں گے۔

۹۴: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ باپ نہ رہے گا اور بیٹا بیٹا ہ رہے گا۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ  اُس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہو گا کجا کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اُس کی کوئی مدد کر سکے۔ دوسرے مقامات پر اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا،  ’’کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا‘‘۔ (المعارج،  آیت ۱۰) اور یَوَدُّ الْمُجْرِ مُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْ مَئیذٍم بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَ خِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْ وِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ، ’’اس روس مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے  اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے‘‘  (المعارج آیات ۱۱ تا ۱۴) اور   یَوْ مَ یَفِرُّ الْمَرْ ءُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِ ئی مِّنْھُمْ یَوْمَئیذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ، ’’وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہو گا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا‘‘  (عبس، آیات ۳۴ تا ۳۷)۔

۹۵: یعنی جن کے قابلِ قدر اعمال وزنی ہوں گے۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہو گا۔

۹۶: آغاز سورہ میں،  اور پھر  چوتھے رکوع میں فلاح اور خسران کا جو معیار پیش کیا جا چکا ہے اسے ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے۔

۹۷: اصل میں لفظ  کَا لِحُوْنَ  استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آ گئے ہوں جیسے بکرے کی بھُنی ہوئی سری۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا   اَلَمْ تَرَ اِلَی الرأ س المشیط؟ ’’ کیا تم نے بھُنی ہوئی سری نہیں دیکھی‘‘ ؟

۹۸: یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہو گا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔ مگر یہ بات بظاہر  قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے۔ لہٰذا  یا تو یہ روایات غلط ہیں، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد  وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے۔

۹۹: پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ فلاح کا مستحق کون ہے اور خسران کا مستحق کون۔

۱۰۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ نمبر ۸۰۔

۱۰۱: یعنی دنیا میں ہمارے نبی تم کو بتاتے رہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض  امتحان کی چند گنی چنی ساعتیں ہیں، اِنہی کو اصل زندگی اور بس ایک ہی زندگی نہ سمجھ بیٹھو۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہاں کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں کی خاطر وہ کام نہ کرو جو آخرت کی ابدی زندگی میں تمہارے مستقبل کو برباد کر دینے والے ہوں۔ مگر اُس وقت تم نے ان کی بات سن کر نہ دی۔ تم اِس عالم ِ آخرت کا  انکار کرتے رہے۔ تم نے زندگی بعدِ موت کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھا۔ تم اپنے اِس خیال پر مُصِر رہے کہ جینا  اور مرنا  جو کچھ ہے بس سی دنیا میں ہے، اور جو کچھ مزے لوٹنے ہیں یہیں لوٹ لینے چاہییں۔ اب پچھتانے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوش آنے کا وقت تو وہ تھا جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لطف پر یہاں کی ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر رہے تھے۔

۱۰۲: اصل میں  عَبَثًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  جس کا ایک مطلب تو ہے ’’کھیل کے طور پر‘‘۔ اور دوسرا مطلب ہے ’’کھیل کے لیے‘‘۔ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے، ’’کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی بطور ِ تفریح بنا دیا ہے،  تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے‘‘۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا،  ’’کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح  اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے‘‘۔

۱۰۳: یعنی بالا و برتر ہے اِس سے کہ فعل  ِ عبث کا ارتکاب اس سے ہو، اور بالا و برتر ہے  اِس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں۔

۱۰۴: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اُس کے لیے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔

۱۰۵: یعنی وہ محاسبے  اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا۔

۱۰۶: یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ  ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم  رہنے والے کون۔

۱۰۷: یہاں  اِس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آ چکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابۂ  کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے، تم ان کا مذاق اُڑا تے تھے۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اُڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا  خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے۔

٭٭٭

۲۴۔ سورۂ النور

نام

پانچویں رکوع کی پہلی آیت اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْ ضِ سے ماخوذ ہے۔

زمانہ نزول

یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق  کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے (جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ دوسرے اور تیسرے رکوع میں آیا ہے ) اور وہ تمام معتبر روایات کی رو سے غزوہ بنی المطلق کے سفر میں پیش آیا تھا۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا یہ غزوہ ۵ ہجری میں غزوہ اَحزاب سے پہلے ہوا تھا یا ۶ میں غزوہ احزاب کے بعد۔ اصل واقعہ کیا ہے،  اس کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجید کی دو ہی سورتوں میں آئے ہیں،  ایک یہ سورت، دوسری سورہ احزاب جس کا نزول بالاتفاق غزوہ احزاب کے موقع پر ہوا ہے۔ اب اگر غزوہ احزاب پہلے ہو تو اس کے معنی یہ ہی کہ پردے کے احکام کی ابتدا ان ہدایات سے ہوئی جو سورہ احزاب میں وارد ہوئی ہیں،  اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جو اس سورت میں آئے ہیں۔ اور اگر غزوہ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغاز سورہ نور سے مان کر تکمیل سورہ احزاب والے احکام پر ماننی پڑتی ہے۔ اس طرح اس حکمت تشریع کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو احکام حجاب میں پائی جاتی ہے۔ اسی غرض کے لیے ہم آگے بڑھنے سے پہلے زمانہ نزول کی تحقیق کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔

ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان ۵ ہجری میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ ۵ ھ میں غزوہ احزاب (یا غزوہ خندق ) واقع ہوا۔ اس کی تائید میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعہ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کے جھگڑے کا ذکر آتا ہے،  اور تمام معتبر روایات کی رو سے حضرت سعد بن معاذ کا انتقال غزوہ بن قریظہ میں ہوا تھا جس کا زمانہ واقع غزوہ احزاب کے متصلاً بعد ہے،  لہٰذا ۶ ھ میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

 دوسری طرف محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ غزوہ احزاب شوال ۵ ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ بنی المصطلق شعبان ۶ ھ کا۔ اس کی تائید وہ کثیر التعداد معتبر روایات کرتی ہیں جواس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ اور دوسرے لوگوں سے مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہو چکے تھے،  اور وہ سورہ احزاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ہو چکا تھا، اور وہ غزوہ احزاب کے بعد ذی القعدہ ۵ ھ کا واقعہ ہے اور سورہ احزاب میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب کی بہن حمْنَہ بنت جحش نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھا کہ حضرت عائشہؓ ان کی بہن کی سوکن تھیں،  اور ظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیدا ہونے کے لیے سوکناپے کا رشتہ شروع ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوتی ہے۔ یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کو مضبوط کر دیتی ہیں۔

اس روایت کو قبول کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ واقعہ افک کے زمانے میں حضرت سعد بن معاذ کی موجودگی کا ذکر آیا ہے۔ مگر اس مشکل کو جو چیز رفع کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن معاذ کا ذکر ہے اور بعض میں ان کے بجائے حضرت اُسَید بن حُضَیر کا۔ اور یہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہو جاتی ہے جو اس سلسلے میں خود حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہیں۔ ورنہ محض سعد بن معاذ کے زمانہ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگر غزوہ بنی المصطلق اور قصہ افک کو غزوہ احزاب و قریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیا جائے تو اس پیچیدگی کا کوئی حل نہیں ملتا کہ پھر آیت حجاب کا نزول اور نکاح زینبؓ کا واقعہ اس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے،  حالانکہ قرآن اور کثیر التعداد روایات صحیحہ،  دونوں اس پر شاہد ہیں کہ نکاح زینبؓ اور حکم حجاب احزاب و قریْظَہ کے بعد کے واقعات ہیں۔ اسی بنا پر ابن حزم اور ابن قیم اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحٰق کی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے،  اور ہم بھی اس کی صحیح سمجھتے ہیں۔

تاریخی پس منظر

اب یہ تحقیق ہو جانے کے بعد کہ سورہ نور ۶ ہجری کے نصف آخر میں سورہ احزاب کے کئی مہینے بعد نازل ہوئی ہے،  ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں اس کا نزول ہوا۔

 جنگ بدر کی فتح سے عرب میں تحریک اسلامی کا جو عروج شروع ہوا تھا وہ غزوہ خندق تک پہنچتے پہنچتے اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ مشرکین، یہود، منافقین اور متربصین،  سب ہی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اس نو خیز طاقت کو محض ہتھیاروں اور فوجوں کے بل پر شکست نہیں دی جا سکتی۔ جنگ خندق میں ہ لوگ متحد ہو کر ۱۰ ہزار فوج کے ساتھ مدینے پر چڑھ آئے تھے،  مگر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخر کار ناکام ہو کر چلے گئے اور ان کے جاتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی الاعلان فرما دیا، لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھٰزا،  ولکنکم تغزو نَھم (ابن ہشام، جلد ۳،  ۲۶۶)، ’’ اس سال بعد اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔

یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مخالف اسلام طاقتوں کی قوت اقدام ختم ہو چکی ہے،  اب اسلام بچاؤ کی نہیں بلکہ اقدام کی لڑائی لٹے گا اور کفر کو اقدام کے بجائے بچاؤ کی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ یہ حالات کا بالکل صحیح جائزہ تھا جسے دوسرا فریق بھی اچھی طرح محسوس کر رہا تھا۔

اسلام کے اس روز افزوں عروج  کی اصل وجہ مسلمانوں کی تعداد نہ تھی۔ بدر سے خندق تک ہر لڑائی میں کفار ان سے کئی گئی زیادہ قوت لے کر آئے تھے،  اور مردم شماری کے لحاظ ے بھی مسلمان اس وقت تک عرب میں بمشکل ۱/۱۰ فی صدی تھے۔ اس عروج کی وجہ مسلمانوں کے اسلحہ کی بر تری بھی نہ تھی۔ ہر طرح کے سازو سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے،  اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے،  اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو برابر آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی، وہ در اصل مسلمانوں کی اخلاقی بر تری تھی جسے تمام دشمنان اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے۔ ایک طرف وہ دیکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کیسے داغ سیرتیں ہیں جن کی طہارت و پاکیزگی اور مضبوطی دلوں کو مسخر کرتی چلی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انفرادی و اجتماعی اخلاق کی طہارت نے مسلمانوں کے اندر کمال درجے کا اتحاد اور نظم و ضبط بھی پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے مشرکین اور یہود کا ڈھیلا نظام جماعت امن اور جنگ دونوں حالتوں میں شکست کھاتا چلا جاتا ہے۔

کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں،  اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں،  تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں،  بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں،  بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں،  اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے اس مرحلے پر دشمانان اسلام کی سرگرمیوں کا رخ جنگی کار روائیوں سے ہٹا کر رذیلانہ  حملوں اور داخلہ فتنہ انگیزیوں کی طرف پھیر دیا۔ اور چونکہ یہ خدمت باہر کے دشمنوں کی بہ نسبت خود مسلمانوں کے اندر  کے منافقین زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے تھے،  اس لیے بلارادہ یا بلا ارادہ طریق کار یہ قرار پایا کہ مدینہ کے منافقین اندر سے فتنے اٹھائیں اور یہود و مشرکین باہر سے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔

اس نئی تدبیر کا پہلا ظہور ذی القعدہ ۵ ھ میں ہوا جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب سے تَبْنِیَت ( دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا اور خاندان میں اسے بالکل صُلبی بیٹے کی حیثیت دے دینا۔ ) کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے خود اپنے متبنیٰ(زیدؓ بن حارثہ) کی مطَلَّقہ بیوی (زینبؓ بنت حجش) سے نکاح کیا۔ اس موقع پر مدینے کے منافقین پروپیگنڈا کا ایک طوفان عظیم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر سے یہود و مشرکین نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر افترا پردازیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم) کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے،  اور کس طرح بیٹے کو ان کی عشق کا علم ہوا اور وہ طلاق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا، اور پھر کس طرح انہوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا۔ یہ قصے اس کثرت سے پھیلائے گئے کہ مسلمان تک ان کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ چنانچہ محدثین اور مفسرین کے ایک گروہ نے حضرت زینبؓ اور زید کے متعلق جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں آج تک ان من گھڑت قصوں کے اجزا پائے جاتے ہیں اور مستشرقین مغرب ان کو خوب نمک مرچ لگا کر اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت زینبؓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقی پھوپھی (اُمَیمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر حضورؐ کی آنکھوں کے سامنے گزری تھی، ان کو اتفاقاً ایک روز دیکھ لینے اور معاذ اللہ ان پر عاشق ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اس واقعہ سے ایک ہی سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ان کو مجبور کر کے حضرت زید سے ان کی شادی ی تھی۔ ان کے بھائی عبداللہ بن حجش اس شادی سے ناراض تھے۔ خود حضرت زینبؓ اس پر راضی نہ تھیں،  کیونکہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی بننا قریش کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی طبعاً قبول نہ کر سکتی تھی۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں معاشرتی مساوات قائم کرنے کی ابتدا خود اپنے خاندان سے کریں،  نہیں حکماً اس پر راضی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں دوست اور دشمن سب کو معلوم تھیں،  اور یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہ تھا کہ حضرت زینب کا احساس فخر نسبی ہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بنا پر ان کا اور زید بن حارثہ کا نباہ نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق تک نوبت پہنچی۔ مگر اس کے باوجود بے شرم افترا پروازوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بد ترین اخلاقی الزامات لگائے اور ان کو اس کثرت سے رواج دیا کہ آج تک ان کا یہ پروپیگنڈا اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔

اس کے بعد دوسرا حملہ غزوہ بنی المصطَلِق کے موقع پر کیا گیا،  اور یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔

بنی المصطلق قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک شاخ تھی جو ساحل بحر احمر پر جدے اور رابع کے درمیان قدید کے علاقے میں رہتی تھی۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اس مناسبت سے احادیثمیں اس مہم کا نام غزوہ رُرَیسیع بھی آیا ہے۔ نقشے سے اس کی صحیح جائے وقوع معلوم ہو سکتی ہے۔

شعبان ۶ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی  کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر ان کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے۔ اس مہم میں عبد اللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئے تھے۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت نے اچانک دشمن کو جالیا۔ اور تھوڑی سی رد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر بھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم (جَہْجَاہ بن مسعود غفاری) اور قبیلہ خزرج کے ایک حلیف (سِنَان بن دَبر جُہنِی) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک  نے انصار کو پکارا۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ لیکن عبداللہ بن اُبی نے جو انصار قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس نے انصار کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ ’’ یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں  کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے۔ یہ سب کچھ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم لوگوں نے خود ہی انہیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائداد میں حصہ دار بنایا ہے۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں ‘‘۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ ’’ مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کر دے [2] گا ‘‘۔ اس کی ان باتوں کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو قتل کرا دینا چاہیے۔ مگر حضور نے فرمایا: فکیف یا عمر اذا تحدث الناس ان محمد ایقتل اصحابہ (عمر، دنیا کیا کہے گی کہ محمدؐ خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے )۔ پھر آپ نے فوراً ہی اس مقام سے کوچ کر حکم دے دیا اور دوسرے دن دوپہر تک کسی جگہ پڑاؤ نہ کیا،  تاکہ لوگ خوب تھک جائیں اور کسی کو بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے اور سننے کی مہلت نہ ملے۔ راستے میں سید بن حضَیر نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ، آج آپ نے اپنے معمول کے خلاف نا وقت کوچ کا حکم دے دیا؟‘‘ آپ نے جواب دیا۔ ’’تم نے سنا نہیں کہ تمہارے صاحب نے کیا باتیں کی ہیں ’’۔ انہوں نے پوچھا ’’ کون صاحب؟‘‘ آپ نے فرمایا’’ عبد اللہ بن اُبی ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ،  اس شخص  سے رعایت فرمائیے،  آپ جب مدینے تشریف لائے ہیں تو ہم لوگ اس اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ اسی کی جلن وہ نکال رہا ہے ‘‘۔

یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا، اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے و مدینے کی نو خیز مسلم سوسائٹی میں سخت خانہ جنگی بر پا ہو جاتی۔ یہ حضرت عائشہؓ پر تہمت کا فتنہ تھا۔ اس کا واقعہ خود ان ہی کی زبان سے سنیے جس سے پوری صورت حال سامنے آ جائے گی۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انہیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہؓ کے تسلسل بیان میں خلل نہ واقعہ وہ۔ فرماتی ہیں :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے [3]۔غزوہ نبی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب تھے،  ایک منزل پر رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑاؤ کیا،  اور بھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی، اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی،  اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب سے بہت ہلکی پھلکی تھیں۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ میں جن ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا  کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھ نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آ جائیں گے۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آ گئی۔ صبح کے وقت صفوان بن معطل سُلَمِی اس جگہ سے گزرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہیں پہچان گئے،  کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے  بارہا دیکھ چکے تھے۔ (یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے۔ ان کو صبح دیر تک سونے کی عادت[4]  تھی،  اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے ) مجھے دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا ’’اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی یہیں رہ گئیں ‘‘۔ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی،  لا کر اپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جالیا جب کہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھیرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔

( دوسری روایات میں آیا ہے کہ جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہؓ لشکر گاہ میں پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ  گئی تھیں اسی وقت عبداللہ بن ابی پکارا اٹھا کہ ’’ خدا کی قسم یہ بچ کر نہیں آئی ہے،  لو دیکھو، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے ‘‘)

’’مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اُڑ رہی تھیں،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی، مگر مجھے کچھ پتہ نہ تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ علیہ و سلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے :کیف تیکم(کیسی ہیں یہ؟)۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح کر سکیں۔

ایک روز رات کے وقت حجت کے لیے میں مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت تک ہمارے گھروں میں یہ بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مِسْطَح بن اُثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھیں۔ (دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہؓ کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے )۔ راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح۔ میں نے کہ اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو، اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا’’ بٹیا،  کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں ؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افتا پرواز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔ (منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسَّان بن ثابت مشہور شاعر السلام،  اور حمنہ بنت حجش،  حضرت زینبؓ کی بہن کا حصہ سب سے نمایاں تھا)۔ یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا،  وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی‘‘۔

آگے چل کر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،  ’’میرے پیچھے رسول اللہ لی اللہ علیہ و سلم نے علیؓ اور اسامہؓ بن زید کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ اسامہ نے میرے حق میں کلمہ خیر کہا اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، بھلائی کے سوا آپ کی بیوی میں کوئی چیز ہم نے نہیں پائی۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جا رہا ہے ‘‘۔ رہے علیؓ تو انہوں نے کہا ’’ یا رسول اللہ عورتوں کی کمی  نہیں ہے،  آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں،  اور حقیق کرنا چاہیں تو خدمت کار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں ‘‘۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے کہا ’’ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے،  میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جا سکے۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہہ جاتی ہوں کہ بیوی ذرا آٹے کا خیال رکھنا،  مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے ‘‘۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا’’ مسلمانو ! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی ہے۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے،  اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں‘‘ اس پر اسید بن حُضیر (بعض روایات میں سعد بن مُعاذ[5] نے اٹھ کر کہا ’’یا رسول اللہ،  اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں،  اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں،  ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں ‘‘۔ یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ، رئیس خَزْرَج اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’جھوٹ کہتے ہو، تم ہر گز اسے نہیں مار سکتے۔ تم اس کی گردن کانے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں[6] گے ‘‘۔ اسید بن حضیر نے جواب میں کہا ’’ تم منافق ہو اسی لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو‘‘۔ اس پر مسجد نبوی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ قریب تھا کہ اَوس اور خزرج مسجد ہی میں لڑ پڑتے،  مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے ‘‘۔

حضرت عائشہؓ کے قصے کی باقی تفصیلات ہم اثنائے  تفسیر میں اس جگہ نقل کریں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی برأت نازل ہوئی ہے۔ یہاں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی نے یہ شوشہ چھوڑ کر بیک وقت کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق کی عزت پر حملہ کیا۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند ترین اخلاقی وقار کو گرانے کی کو شش کی۔ تیسری طرف اس نے یہ ایک ایسی چنگاری پھینکی تھی کہ اگر اسلام اپنے پیروؤں کی کایا نہ پلٹ چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار، اور خود انصار کے بھی دونوں قبیلے آپس میں لڑ مرتے۔

موضوع اور مباحث

یہ تھے وہ حالات جن میں پہلے حملے کے موقع پر سورہ احزاب کے آخری ۶ رکوع نازل ہوئے اور دوسرے حملے کے موقع پر یہ سورہ نور اتری۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان دونوں سورتوں کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے تو وہ حکمت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو ان کے احکام میں مضمر ہے۔

منافقین مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے،  بجائے اس کے کہ وہاں کے اخلاقی حملوں پر ایک غضبناک تقریر فرماتا، یا مسلمانوں کو جوابی حملے کرنے پر اکساتا، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کر لو۔ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ  نکاح زینبؓ کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا۔ اب ذرا سورہ احزاب نکال کر پڑھیے،  وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جب کہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں :

۱۔ ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو، اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرے (آیات ۳۲۔ ۳۳ )

۲۔ حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا، اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ (آیت ۵۳ )۔

۳۔ غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ (آیت ۵۵)۔

۴۔ مسلمانوں کو بتایا گیاکہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے۔ (آیت ۵۳۔ ۵۴ )۔

۵۔ مسلمانوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ نبیؐ کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے،  اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے (آیت ۵۷۔ ۵۸)

۶۔ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں (آیت ۵۹)۔

پھر جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورہ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھ کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیدا وار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے،  اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی، اور معاشرتی تدبیر بیک وقت تجویز کرتا ہے :

۱)۔ زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا (سورہ نساء، آیات ۱۵۔ ۱۶ )، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو ۱۰۰ کوڑے مقرر کر دی گئی۔

۲ )۔ بد کار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا۔

۳ )۔ جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے، اس کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔

۴)۔ شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لِعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔

۵)۔ حضرت عائشہ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کر کے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو، اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں ا گر اڑ رہی ہوں تو انہیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہیے،  نہ یہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت سے ہی لگ سکتا ہے،  خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسولؐ کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب،  بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقہ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا  تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسولؐ جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے،  اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔

۶)۔ جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں،  ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔

۷)۔ یہ قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہیے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہگار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہکہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے۔

۸)۔ لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں۔

۹) عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا۔

۱۰)۔ عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔

۱۱ ) عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔

۱۲)۔ ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں،  بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔

۱۳ ) معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیا ہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں،  حتّیٰٰ کہ لونڈیوں ور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔

۱۴ )۔ لونڈیوں ور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتَبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی  حکم دیا گیا کہ مُکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔

۱۵)۔ لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا،اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔

۱۶) گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح،  دوپہر اور رات کے وقت ) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔

۱۷)۔ بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھنی اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں،  مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج (جن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے ) سے بچیں۔ نیز انہیں نصیحت کی گئی ہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔

۱۸) اندھے،  لنگڑے،  لولے،  اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھا لے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہو گا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔

۱۹)۔ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں،  اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا ور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کر دیں جن سے کوئی فتنہ پرواز پھوٹ ڈال سکتا ہوَ

ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین اور مومنین کی وہ کھُلی کھُلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کھا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔

اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورہ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے،  مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں،  حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں،  اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پربھی کس طرح ٹھنڈے تدبّر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے،  بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے،  کسی ایسی ہستی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب اد کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرتؐ کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
یہ ایک سُورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، ۱ شاید کہ تم سبق لو۔
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ ۲ اور ان پر ترس کھانے کا  جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور  روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ ۳ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ ۴ زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یہ مشرک۔ اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔ ۵ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اَسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں)غفورو رحیم ہے۔ ۶
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا  دُوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ)چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں)سچا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ ( اپنے الزام میں)جھوٹا ہو۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں)جھُوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں)سچا ہو۔ ۷ تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)۔ ؏١

۱: ان سب فقروں میں ’’ہم نے‘‘  پر زور ہے۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ’’ہم‘‘  ہیں۔ اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں، اور جس کی گرفت  سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ ’’سفارشات‘‘  نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو۔ تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی  میں نہیں آئی تھی  تو ہم عمل کیسے کرتے۔ بس یہ اس فرمان ِ مبارک  کی تمہید (preamble) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تمہید کا اندازِ بیان خود بتا رہا ہے کہ سورۂ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فر ما رہا ہے۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے۔

۲: اس مسئلے کے بہت سے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریعِ الہٰی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے:

(۱) زنا کا عام مفہوم،  جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے ’’ایک مرد اور ایک عورت،  بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتۂ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں‘‘۔ اس فعل کا اخلاقاً برا ہونا، یا مذہباً گناہ ہونا،  یا معاشرتی حیثیت سے معیوب  اور قابلِ اعتراض ہونا،  ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں، اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کر دیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپج کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے،  کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاقِ رائے کی وجہ  یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدّن کا قیام،  دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے  لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد ِ وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور  جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔ اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے انسانی نشو نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے،  اور تنہا عورت اس بار کو اُٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدّن بھی برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ تمدّن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے،  ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ  جائے،  اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدّن کی یہ عمارت اُٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلّم عہد و فا پر مبنی نہ ہو، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہی وجوہ سے انسان اِس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب،  ایک بڑی بد اخلاقی،  اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج  کے ساتھ ساتھ زنا کے سدِّ باب کی بھی کسی نہ کسی  طور پر ضرور کوشش کی ہے۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے اُلجھ کر رہ گیا ہے۔

 (۲)  زنا کی حُرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم،  یعنی قانوناً مستلزمِ سزا ہونے کا مسئلہ ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں،  انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کے بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدّن خراب کرتا گیا ہے، رویّہ نرم ہو تا چلا گیا ہے۔

 اس معاملے میں اوّلین تساہُل،  جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا،  یہ تھا کہ ’’محض زنا‘‘ (Fornication ) اور  ’’زنا بزنِ غیر‘‘ (Adultery ) میں فرق کر کے،   اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی،  اور صرف مؤخر الذکر کو جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا۔

 محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کوئی مرد، خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ،  کسی ایسی  عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو‘‘۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ ہو۔ قدیم مصر، بابِل، آشور(اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے  کو یونان اور روم نے اختیار کیا،  اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہو گئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے۔ کتاب ’’خروج‘‘  میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’ اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو،  جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو  پھُسلا کر اس سے مباشرت کر لے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کر لے، لیکن اگر اس کا باپ ہر گز  راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اُسے دے،  تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے‘‘۔ (باب ۲۲۔ آیت ۱۶ – ۱۷)۔

 کتاب ’’استثناء‘‘  میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے،  اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کے پچاس مثقال چاندی (تقریباً ۵۵ روپے) تاوان  دلوایا جائے(باب ۲۲۔ آیت ۲۸ – ۲۹) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت،Priest )  کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے  لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی (Everyman’s Talmud, ۳۱۹-۲۰ P.)۔

یہ تخیل ہندوں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منو کی دھرم شاستر سے مقابلہ کرکے دیکھیے۔وہا ں لکھا ہےکہ:

 ’’جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضامندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی   ہو تو وہ اس کو معاوضہ   دے کر شادی کر لے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے‘‘  (ادھیائے ۸ اشلوک ۳۶۵، ۳۶۶) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک ۳۷۷)۔

 دراصل ان سب قوانین میں زنا بزنِ غیر ہی اصلی اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے،  بلکہ یہ تھی کہ اُن دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا  پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاطِ نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خر چ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی ناک کاٹ دی جائے۔ قریب قریب ایسی ہی سزائیں بابل، اشور، اور قدیم ایران  میں بھی رائج تھیں۔ ہندوؤں کے ہاں عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں  سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کو یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے۔ یونان اور روم میں ابتداءً ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کر دے، یا چاہے تو  اس سے مالی تاوان حاصل کر لے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس  نے یہ قانون مقرر کیا کہ  مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کر دیا جائے،  اور عورت کا آدھا مہر ساقط  اور اس کی ۱/۳ جائداد ضبط کر کے اُسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصّے میں بھیج دیا جائے۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی۔ لیو (Leo) اور مارسِیَن (Marcian) کے دَور میں اِس سزا کو حبسِ دوام میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر قیصر جَسٹینِیَن نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے  نکلوا لے، ورنہ ساری عم وہیں پڑا رہنے دے۔

 یہودی  قانون میں زنا بزنِ غیر  کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:

 ’’اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کر ے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی‘‘۔ (احبار ۱۹ – ۲۰)۔

 ’’جو شخص دوسرے کی بیوی سے،   یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں‘‘۔ (احبار ۲۰ – ۱۰)۔

 ’’اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں‘‘۔ (استثناء ۲۲ – ۲۲)۔ ’’اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسُوب ہو گئی ہو۔ (یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم اُن دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چکی ہو، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے  اور وہ آدمی جبراً اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر  اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا‘‘۔ (استثناء ۲۲ – ۲۳ تا ۲۶)۔

 لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء،  فقہاء، امراء اور عوام،  سب اس قانون کو عملاً منسُوخ کر چکے تھے۔ یہ اگرچہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا کہ خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا،  مگر اسے عملاً نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا، حتیٰ کہ یہودیوں کی تاریخ میں ا س کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ جب دعوتِ حق لے کر اُٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا  اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب ۸،  آیت ۱ – ۱۱)۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ  کو کنویں یا کھائی،  دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کر دیں۔ اگر آپ  رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی  مصلحتوں کی خاطر خدائی قانون کو بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانو ان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا،  اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں  اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر اُلٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے۔ یہ سُنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ  چھٹ گئی،  ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہو گیا ور ’’حاملانِ شرعِ متین ‘‘  کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی ہو گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی  اور توبہ کرا کے رخصت کر دیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کر تے، نہ اُس پر کوئی شہادت قائم ہو ئی تھی، اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانونِ الہٰی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔

 حضرت عیسیٰؑ کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے، عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور تصور قائم کر لیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ عورت سے کرتے تو یہ گناہ توہے، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق،  خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو،  یا دونوں شادی شدہ ہوں،  تو یہ جرم ہے، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل ’’عہد شکنی‘‘  ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اُس نے اُس عہدِ وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعویٰ کر کے  تفریق کی ڈگری  حاصل کر لے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طر ف اپنی بیوی پر دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اُس شخص سے  بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے،  اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی د و دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف ’’بے وفائی‘‘  کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کر سکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اُس مرد کا بھی ہو گا جو بیوی پر ’’بے وفائی‘‘  کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاحِ ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا  ہو وہ اپنے شریکِ زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے۔

موجودہ زمانے  کے مغربی قوانین، جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں، انہی مختلف تصوّرات پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک زنا، عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہر حال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے، جبکہ فریقِ ثانی کی مرضی کے خلاف زبر دستی اس سے مباشرت کی جائے۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکابِ زنا،  تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیےہے، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کر لے۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہو تی ہے، اور دونوں پر دعویٰ کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کر سکتا ہے۔

 (۳) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جُرم مستلزم ِ سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے ’’عہد شکنی‘‘  کی،  یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے  اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ  موجود تھا اور پھر بھی  اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کی اگر آزادی ہو جائے تو ایک طرف نوعِ انسانی کی اور دوسری طرف تمدّنِ انسانی کی جڑ کٹ جائے۔ نوع کی بقا ء اور تمدّن کے قیام،  دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابلِ اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے  ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی کھلی گنجائش موجود رہے۔ کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں،  وہاں ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ اِنہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اِتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط  بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے مؤثر بنانے کے  لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے  بے ٹکٹ سفر کرے تو کم درجے کا مجرم ہے، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔

 (۴) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کر تا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے،  اور یہ قانونی تعزیر اس نے محض ایک آخری چارۂ  کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے،  اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے،  اُسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی پیچھا نہیں چھوٹ سکتا،  اُس میں قانونِ الہٰی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان  کا لازمی تقاضا ہے،  اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی اُن بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔ یہ مضمون  سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ دل نہ ملیں  تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور نا موافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تا کہ یا تو مصالحت ہو جائے، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کر لیں۔ یہ سب کچھ سورۂ بقرہ،  سورۂ نساء، اور سورۂ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسی سورۂ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کر دیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے۔ پھر وہ معاشرے سے اُن اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے، اس کی تحریک کرنے والے، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورۂ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا  تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر  اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں، اور مسلمان عورتوں کے  لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں  کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت  کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش  نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے اُن تمام صاحب ایمان عورتوں  میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانۂ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبیؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا  بند کیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کر دیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے  بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ  اسی سورۂ نور میں اشاعتِ فحش کو بھی روکا جا رہا ہے، قحبہ گری (Prostitution ) کی قانونی بندش بھی کی جا رہی ہے، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جا رہی ہے،  غضِّ    بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے  جا رہے ہیں تا کہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم  رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اُس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جُز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیرِ اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کرنا جائز طریقے سے ہی اپنی خواہشِ نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال اُدھیڑ دی جائے، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے اُن بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے  کہ مسلم معاشرہ  بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذوّاقین اور ذوّاقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطۂ نظر سے کوئی شخص اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کر لے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جُز بھی  اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ کم و بیش کیاجا سکتا ہے۔ اس میں ردّو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کر سکتا ہے جو اسے سمجھنے  کی صلاحیت رکھے بغیر مُصلح بن بیٹھا ہو،  یا پھر وہ مفسد ایسا کر سکتا ہے جس کی اصل نیت اُس مقصد  کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیمِ مطلق نے تجویز کی ہے۔

 (۵) زنا کو قابلِ سزا فعل تو سن ۳ ہجری میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت یہ ایک ’’قانونی‘‘  جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی  کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ’’معاشرتی‘‘  یا ’’خاندانی‘‘  جرم کی سی تھی جس پر اہلِ خاندان ہی کو بطورِ خود سزا دے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اِس امر کی شہادت دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے،  اور عورت کو گھر میں قید کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ ’’تا حکمِ ثانی‘‘  ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل،  صفحہ ۳۳۱)۔ اس کے ڈھائی  تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا  جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکمِ سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی  جرم قابلِ دست اندازیِ سرکار (Cognizable Offence ) قرار دے دیا۔

 (۶) اس آیت میں زنا کی جو سا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل ’’محض زنا‘‘  کی سزا ہے، زنا بعدِ احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہو  تی ہے کہ وہ یہاں اُس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے  جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورۂ نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ: وَالّٰتِیْ یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآ ئیکُمْ۔۔۔۔۔۔ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا o (آیت ۱۵) تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا: وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْ مِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْ مِنٰتِ۔۔۔۔۔۔ فَاِ ذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ  اَتَیْنَ بِفَا حِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَ ابِ (آیت ۲۵) اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے مُحصَنٰت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔۔۔۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) مُحْصَنَہ ہو جانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب  ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصَنٰت کو (ایسے جرم پر ) دی جائے۔

 ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سر دست قید کر نے کا حکم دیا جا رہا ہے،  اُن کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے  معلوم ہوا کہ سورۂ نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورۂ نساء کی مذکورۂ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلۂ  بیان میں دو جگہ محصَنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جا رہا ہے کہ  جو لوگ ’’محصَنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اُس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصَنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق و عبارت  صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورۂ نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کر دیتی ہیں کہ سورۂ نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کرتا ہے (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۶)۔

 (۷) یہ امر کہ زنا بعدِ احصان کی سزا کیا ہے،  قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے،  بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دَور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابۂ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ قرنِ اوّل میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان  کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنتِ ثابتہ ہے،  کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب ِ علم اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کر سکے ہوں،  بلکہ وہ اسے ’’قرآن کے خلاف‘‘  قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کا قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن  الزّانی والزّانیۃ  کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے،  لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی مُحْصِن کو الگ کر کے اس کی کوئی اور سزا  تجویز کرنا قانونِ خداوند کی خلاف ورزی ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی  قانونی وزن  ان کی اُس تشریح کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ ؐ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں السّارق و السّارقۃ   کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے  مقید نہ کیا جائے جو نبی صلی  اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک  سوئی یا ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری  والا  بھی  اگر گرفتار ہو تے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی  ہے اور اب میں چوری  سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے   فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت ۳۹)۔اسی طرح قرآن  صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن  کی حرمت بیان کرتا ہے،  رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کے خلا ف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی،  اور پھوپھی اور بھتیجی  کے جمع کرنے کو جو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اُ س حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جبکہ اُ س نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اُس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں،  اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہو نا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے وَاَشْھَدُوْآ اِذَا تَبَا یَعْتُمْ  (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خرید و فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خرید و فروخت  ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے  جو رجم کے حکم کو خلافِ قرآن کہتے ہیں۔ نظامِ شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابلِ انکار ہے  کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اُس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے،  کن معاملات پر اس کا اطلاق ہو گا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصولِ دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔

 (۸) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ’’ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح  یا ملک  یمین میں ہو اور نہ اس امر کے شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے  منکوحہ یہ مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے‘‘۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عملِ قومِ لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیتِ زنا سے خارج ہو جاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ’’شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جا سکتی ہو‘‘۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ ’’شرعی یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا‘‘۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم ِ لوط بھی زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ  یہ دونوں  تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید  ہمیشہ الفاظ کو اُن کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے،  الّا  یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاحِ  خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاحِ خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم ِ خاص کو ظاہر کر دیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عملِ قوم ِ لوط کی سزا کے بارے  میں صحابۂ   کرام  کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلافِ رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

(۹)قانوناً ایک فعلِ زنا کو مستلزمِ سزا قرار دینے کے لیے صرف اِدخالِ حشفہ کافی ہے۔ پورا ا دخال یا تکمیلِ فعل  اس کے لیے ضرور ی  نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا  پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا،  یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا  ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا  کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حدِّ زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بے حیائی میں مبتلا  پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکمِ عدالت خود  کرے گا،  یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو د س کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جا سکتے،  کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ  لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں‘‘ (بخاری،  مسلم،  ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف  کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی  ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص  نے حاضر ہو عرض کیا کہ ’’شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہا ’’جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تُو  بھی پردہ پڑا رہنے دیتا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپؐ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی   اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ’’نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر،  نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘  (ہُود، آیت ۱۱۴)۔ ایک شخص نے پوچھا ’’کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے ‘‘ ؟ حضورؐ نے فرمایا ’’نہیں، سب کے لیے ہے۔‘‘ (مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر  اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تُو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا ’’یا رسول اللہ میں حد کا مستحق  ہو گیا ہوں،  مجھ پر حد جاری فرمائیے‘‘۔ مگر آپؐ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تُو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اُٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تُو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی‘‘ ؟ اس نے عرض کیا ’’جیہاں‘‘۔ فرمایا ’’بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا‘‘۔ (بخاری، مسلم،  احمد)۔

 (۱۰) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے کے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے،  بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنائے محض کے معاملے میں اور ہیں،  اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اَور۔

 زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل وہ بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حدِ زنا کا مستحق نہیں ہے۔

اور زنا بعد اِحصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:

 پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہو گا۔

دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کر چکا ہو،  یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا یعنی اُس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں  کی سزا دی جائے گی۔

 تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ بھی ہو چکی ہو۔ صرف عقدِ نکاح کسی مرد کو مُحصِن،  یا عورت کو مُحصنَہ نہیں بنا دیتا  کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کر دیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابو حنیفہ اور امام  محمد  اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا  جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد،  بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہُوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہو گا۔ یہی معاملہ عورت  کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے  نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہو گی۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر  بزرگوں نے کیا ہے۔

 چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی،  امام ابو یوسف اور  اما م احمد اس کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد اِحصان کا مرتکب ہو گا تو رجم کیا جائے گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے  لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگسار  جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ’’احصان‘‘  کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے ’’اخلاقی قلعہ بندی‘‘،  اور اس کی تکمیل  تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اوّلیں حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو،  کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں،  اور لاچاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور اسے تسکینِ نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب  ’’قلعہ بندی‘‘  مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانونِ خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اُس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اسی دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہَوَیہ نے اپنی مُسنَد میں اور دار قُطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ  من اشرک باللہ فلیس بمحصن  ’’ جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے‘‘۔ اگر چہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول نقل کیا ہے یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اُس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اُن پر اسلام کا ملکی قانون(Law of the Land ) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal Law ) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا   تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ   ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم،  یعنی ’’ تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے‘‘ ؟ پھر جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور ؐ نے فرمایا   فانی احکم بما فی التوراۃ  ’’میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے‘‘۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا   اللھم انی اول من احیا امرک اذا ما توہ، ’’خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے  اسے مردہ کر دیا تھا‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد، احمد)

(۱۱) فعلِ زنا  کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و اکراہ سے اگر کسی شخص کو  اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ’’آدمی جبراً  کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے‘‘،  بلکہ آگے چل کر اِسی سُورے میں خود قرآن اُن عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی ٔ جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی  و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کر دی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو رجم کر ا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑ ے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف ؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام حسنؒ بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر ؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشارِ عضو  کے بغیر  اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اور انتشارِ عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی  اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا  پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی،  کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اُسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبُور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکابِ زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر سکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں  کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال  میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشارِ عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ؤ رغبت  کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبر دستی پکڑ کر قید کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان،  خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہو جائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کر دیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں؟ اس طرح کے حالات عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی رضا و رغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے،  اور اس حالت   میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ حالات تو واقعی اُس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبر دستی ایسے حالات میں مبتلا  کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو جائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہو تا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔

(۱۲) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا  کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کارروائی کرے اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت  کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت ِ زیر بحث میں حکم  فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں  بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں  ہے مگر زنا،  قذف اور شراب نوشی پر وہ حد  جاری کر سکتا ہے۔

 (۱۳) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانونِ مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہو گا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ  کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانونِ مملکت نہیں ہے،  بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کو شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصِن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی،  اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے  مخاطب مسلمان ہیں نہ کے کافر، اس لیے وہ حدِّ زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو)  تو امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابو حنیفہ  اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اُس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔

 (۱۴) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی  اللہ علیہ و سلم نے فرمایا   من اتی شیئا من ھٰذہ القاذو رات فلیستتربستر اللہ فان بدیٰ لنا صفحتہ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن،  للجصاص)۔ ’’ تم میں سے جو شخص اِن گندے کاموں میں سے کسی کر مرتکب ہو جائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھُپا رہے۔ لیکن اگر وہ  ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا  تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے‘‘۔ ابوداؤد میں ہے کہ ماعزِ بن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہو گیا تو ہزّال بن نُعَیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چنانچہ انہوں نے  جا کر حضورؐ سے اپنا جرم بیان کر دیا۔ اس پر  حضورؐ نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا    لو ستر تہ بثوبک کان خیرًا لک ’’کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا‘‘۔ ابوداؤد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا     تعافو االحدود فی مابینکم فما بلغنی من حد فقد وجب ’’حدود کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزمِ حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب  ہو جائے گی‘‘۔

 (۱۵) اسلامی قانون میں یہ جرم قابلِ راضی نامہ نہیں ہے۔ قریب قریب تمام کتبِ حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہو گیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک ’’تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس‘‘،  اور پھر آپؐ نے زانی اور زانیہ  دونوں پر حد جاری فرما دی۔ اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جا سکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصوّر مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔

(۱۶) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت نہ مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بدکاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہر حال اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ  وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے   کانت تظھر فی الاسلام السوء۔ دوسری روایت میں ہے  کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ  کی روایت  ہے   فقد ظھر منھا الرّبیۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا و من یدخل علیھا۔ لیکن چونکہ اس کے خلاف بدکاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی،  حالانکہ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ  لو کنت راجمًا احدًا بغیر بینۃ لرجمتھا، ’’ اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا‘‘۔

 (۱۷) جرمِ زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہے کہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں:

 الف۔قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم  چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورۂ نساء آیت ۱۵ میں بھی گزر چکی ہے  اور آگے اسی سورۂ نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کر سکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔

 ب۔گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں۔ مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہو چکے ہوں، خائن نہ ہوں،  پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو،  وغیرہ۔ بہر حال ناقابلِ اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جا سکتے ہیں۔

 ج۔گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالتِ مباشرت میں دیکھا ہے،  یعنی   کالمیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی  میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی)۔

 د۔ گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو،  کس سے زنا کرتے  دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کر دیتا ہے۔ شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے کہ جبکہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا  بے حیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔

 (۱۸) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا،  جبکہ عورت کو کوئی شوہر،  یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثابت زنا کے لیے کافی  شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کر دیا جائے یا کسی کی پیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ  ادفعوا الحدود ما وجدتم  لھا مدفعا، ’’سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ‘‘ (ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ادرؤ ا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہٗ مخرجٌ اسبیلہ، فان الامام ان یخطیٔ فی العفو  خیر من ان یخطیٔ فی العقوبۃ، ’’مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ  نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے‘‘ (ترمذی)۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی،  چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہر حال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔

 (۱۹) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہو جائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا اُلٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں ۸۰ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت  سے آئے ہیں نہ کہ مدّعی کی حیثیت سے۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچانے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ آخر کس ی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جبکہ اس  امر کا یقین کسی کو بھی نہیں ہو سکتا کہ  چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹُوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دُوسری رائے معقول ہے،  کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا بر سا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجبِ سزا قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے،  اور شاہد محض اس پنا پر قاذف قرار نہیں پا سکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوتِ جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کے مقدمے میں حضرت عمرؓ نے ابوبَکرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اُس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں ناکافی پائی جائیں۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مُغیرَہ بن شُعبہ سے ابوبکرہ کے تعلقات پہلے  سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابوبکرہ اپنی کھڑکی بند کر نے کے لیے اُٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابوبکرہ  کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ،  زیاد، اور شِبل بن مَعبَد  ) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابوبکرہ نے کہا اُمِّ جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمرؓ کی پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فوراً حضرت مغیرہ کو معطّل کر کے حضرت ابوموسیٰ اَشعَری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کر لیا۔ پیشی پر ابوبکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو اُمِّ جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ امِّ جمیل تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کر دیا کہ جس رُخ سے یہ لوگ اُنہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور اُمِّ جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن  خود بتا رہے  تھے کہ حضرت عمرؓ کی حکومت میں  ایک صوبے کا گورنر،  خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی  اس کے ساتھ رہتی تھی،  ایک غیر عورت کو بُلا کر زنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ابوبکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی  کے بجائے امِ جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں، ایک نہایت بے جا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابوبکرہ،  نافع اور شِبل پر حدِّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا  نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرمِ زنا ثابت  نہ ہو تو  گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی،  جلد ۲، صفحہ ۸۸ – ۸۹)۔ (۲۰) شہادت کے سوا  دوسری چیز جس سے جرمِ زنا ثابت ہو سکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعلِ زنا کے ارتکاب کا ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی  کالمیل فی المکحلۃ  یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت  کو پوری طرح یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دباؤ کے بغیر بطورِ خود بحالتِ ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے(یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ، اسحاق بن راہَوَیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے)۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے( امام مالک، امام شافعی، عثمان البتّی اور حسن بصری وغیرہ  اس کے قائل ہیں)۔ پھر ایسی صورت میں جب کہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دَوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خواہ یہ بات  صریحاً  ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے  کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اِس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدما عِز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدّد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلۂ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہزال بن نُعیَم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کر دہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزّال نے کہا  کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے اس گناہ کی خبر دے،  شاید کہ آپ تیری لیے دعائے مغفرت  فرما دیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضورؐ سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کر دیجیے،  میں نے زنا کی ہے۔ آپؐ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا   ویحک ارجع  فاستغفر اللہ وتب الیہ۔ ’’ارے، چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر‘‘۔ مگر اس نے پھر سامنے آ کر وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تُو نے اقرار کیا تو رسول اللہ  تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دُہرائی۔ اب حضورؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فرمایا   لعلک قبلت او غمزت او نظرت، ’’شاید تُو نے بوس و کنار کیا ہو گا یا چھیڑ چھاڑ کی ہو گی یا نظرِ بد ڈالی ہو گی‘‘  (اور تُو سمجھ بیٹھا ہو گا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے)۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے پوچھا ’’کیا تُو اُس سے ہم بستر ہُوا؟ ‘‘  اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ’’کیا تُو نے اس سے مباشرت کی؟‘‘  اُس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ’’کیا تُو نے اس سے مجامعت کی؟‘‘  اس نے کہا ہاں۔ پھر آپؐ نے وہ  لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعلِ مباشرت ہی کے لیے بولا جاتا ہے، اور یہ فحش لفظ حضورؐ کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا  نہ اس کے بعد کسی نے سُنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ  نکل سکتا تھا۔ مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپؐ نے پوچھا حتیٰ غاب ذٰلک منک فی  ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اُس چیز میں غائب ہو گئی؟)۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر،  پوچھا کما یغیب المیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہو گئی جیسے سُرمہ  دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی؟) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا ’’کیا تُو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں؟‘‘  اس نے کہا  ’’ جی ہاں،  میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی  بیوی کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔ آپؐ نے پوچھا ’’ کیا تیری شادی ہو چکی ہے؟‘‘  اس نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘  آپؐ نے پوچھا ’’تُو نے شراب تو نہیں پی لی ہے؟‘‘  اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اُٹھ کر  اس کا منہ  سُونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپؐ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپؐ نے ہزّال سے فرمایا  لو سترتہ بثوبک کان خیر الک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپؐ  نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا  اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کر دیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعِز بھاگا اور اس نے کہا ’’لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے‘‘۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضورؐ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا،  میرے پاس لے آئے ہوتے،  شاید وہ توبہ کر تا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا‘‘۔ دوسرا واقعہ غامِدِیّہ کا ہے جو قبیلہ غامِد (قبیلۂ جُہَینَہ کی ایک شاخ ) کی عورت تھی۔ اُس نے بھی آ کر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے۔ آپؐ نے اُس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ ( ’’اری چلی جا،  اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر‘‘ )۔ مگر اس نے کہا ’’یا رسول اللہ  کیا آپ نے مجھے ماعز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں‘‘۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا،  اس لیے آپؐ نے اُس قدر مفصّل جرح نہ فرمائی جو ماعز کے ساتھ کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا ’’اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضعِ حمل کے بعد آئیو‘‘۔ وضعِ حمل کے بعد وہ بچے کے لے کر آئی اور کہا اب مجھے پاک کر دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ’’جا اور اس کو دودھ  پلا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آئیو‘‘۔ پھر وہ دودھ چھٹانے کے بعد آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی۔ بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا  کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے۔ تب آپؐ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس  کے رجم کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابوداؤد میں حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ صحابۂ کرام  کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر ۱۵ میں کر چکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ’’ جا کر اس کی بیوی سے پوچھ،  اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے‘‘۔ اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے،  اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔

 (۲۱) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے،  کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بے چین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریقِ ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ انکار کر  دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہو گا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اِس دوسری صورت میں(یعنی جبکہ فریقِ ثانی اس  کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اُس پر آیا حدِّ زنا جاری کی جائے گی یا حدِّ قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حدِّ زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے  میں اس پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریقِ  ثانی کے انکار نے اس کے جرم ِ زنا کو مشکوک کر دیا ہے،   البتہ اس کا جرمِ قذف بہرحال ثابت ہے۔ اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے ( امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) کہ اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرمِ زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریقِ ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کر سکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مُسنَد احمد اور ابوداؤد میں سَہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’ ایک شخص نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت  سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپؐ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا‘‘۔ اس روایت  میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابوداؤد اور نَسَائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ  پہلے اس کے اقرار پر آپؐ نے حدِّ زنا جاری کی،  پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حدِّ قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے،  کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھیرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپؐ نے اسے کوڑے لگوا نے کے  بعد عورت سے پوچھا ہو گا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا،  جسے حضُورؐ نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔

 (۲۲) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا  سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے،  مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں :

 شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا : -امام احمد، داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے  لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔

باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

 غیر شادی شدہ کی سزا : امام شافعی،  امام احمد،  اسحاق،  داؤد ظاہری،  سفیان ثوری،  ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی،  مرد عورت ہر دو کے لیے۔

امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک مرد کے لئے ١۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی۔ اور عورت کے لئے صرف سو کوڑے۔ (جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کر دینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے )

 امام  ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مر اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے،  یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کر سکتا ہے اور قید بھی کر سکتا ہے۔ (حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کر دی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کم بیشی کر سکتی ہو)

 ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :           حضرت عبادہ بن صامت کی روایت،  جسے مسلم، ابو داؤد،  ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : خذو ا عنی خذو اعنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم(اور می بالحجارۃ۔ او رجم با لحجارۃ) ’’ مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کر دیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سل کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری‘‘ (یہ حدیث اگر چہ سنداً صحیح ہے،  مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا،  نہ عہد خلفائے راشدین میں،  اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن)،

 حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت،  جسے بخاری،  مسل ابو داؤد،  ترمذی،  نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہو گیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر ہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ  کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضورؐ نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اورت ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اسے انیس،  تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چنانچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کر دی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے )۔

 ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حضور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔

 کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔

 حضرت عمرؓ کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور سے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے،  بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں،  مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔

 خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علیؓ نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عمر شعبی سے یہ واقعہ نقل کر تے ہیں کہ ایک عورت شراحَہ نامی نے نا جائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علیؓ نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔

جابر بن عبداللہ کی ایک روایت،  جسے ابو داؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے،  یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو صرف سزائے تازیانہ دی،  پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تھی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔

 حضرت عمرؓ نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی  کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علیؓ نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کنے سے نکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن،  جصاص،  جلد۳، صفحہ ۳۱۵ )۔

 ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؓ اور ان کی اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے،  یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے،  اور محض زنا کی حد صرف ۱۰۰ کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا،  تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت  ہو جاتی ہے۔

 ۲۳) :ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ : فَاجْلِوُ وْ ا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جِلد(یعنی کھال ) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جِلد تک رہے،  گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں،  یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے،  قرآن کے خلاف ہے۔

 مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالکؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا : فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ)۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا،  جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہو چکا تھا ۔ اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان الجہدی نے حضرت عمرؓ کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج ۳۔ ص  ۳۲۲ )۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دو شاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔

مار بھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمرؓ مار نے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ : لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ ’’ اسطرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے ‘‘۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار(احکام القرآن ابن عربی۔ ج ۲ ص ۸۴۔ احکام القرآن جصاص،  ج ۳۔ ص ۳۲۲)۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے،  یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہی بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے،  باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا ’’ ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘۔ دوسری روایت میں ہے ’’ صرف سر اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘ (احکام القرآن جصاص،  ج ۳۔ ص ۳۲۱)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اذا ضرب احد کم فلیتق لوجہ۔ ’’جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے ‘‘ (ابو داؤد)۔

 مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھیرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے )۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی،  بلکہ اس کے پکڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اُتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا ’’ اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے ‘‘،   اور یہ کہہ گر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا ’’ اسے قمیص نہ اتارنے دو‘‘۔ (احکام القرآن جصاص،  ج ۳۔ ص ۳۲۲)۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔

 سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔

باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے،  الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمانے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الا مۃ تضرید ولا مدّ۔ ‘‘ اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے۔

فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔

مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا منا سب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر،  مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاء و معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی(ج ۱۔ ص ۴۴۔ ۴۵)۔

 اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی،  یا سوتیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ کار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک بوڑھا مرض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد،  نسائی، ابن ماجہ)۔ حاملہ عورت کو سزائے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے،  سزا نہیں دی جا سکتی۔

 اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے،  اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علیؓ نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا ’’ اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کا مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی،  مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے اس اس لیے میں خود ابتدا کروں گا‘‘۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے،  مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔

ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں،  مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں،  جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں ۳۰ ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو  کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سُرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس ’’مہذب‘‘  سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو ’’وحشیانہ‘‘  سزا کے نام سے یاد فرمائیں،  پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں )جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

 ۲۴) : رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہو گا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز  بن مالک کی موت واقع ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی‘‘۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسْتغفرو ا لما عزبن مالک۔۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لو سعتھم، ’’ ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضورؐ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا : مھلا یا خالد، فوالزی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس الغفرلہ  ’’ خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے،  اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا‘‘۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضورؐ راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضورؐ ٹھیر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا ’’ آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے ‘‘۔ آپ نے  فرمایا ’’ اپنے بھائی کی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بدر تر چیز تھی‘‘۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ آپ نے فرمایا : لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لو سعتھم، ’’ اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا ’’ خدا تجھے رسوا کرے ‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ اس طرح نہ کہو،  اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو‘‘۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے حضورؐ نے فرمایا ’’ بلکہ یوں کہ : اللہمَّ اغفرلہ،  اللہمَّ ارحمہ۔ ’’ خدایا اسے معاف کر دے،  خدایا اس پر رحم کر‘‘۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے،  اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے،  اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھیرا دے،  اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کیس کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پور اخلاقی جرأت ( یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے ) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔

 ۲۵) : محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۳۳۶ پر،  اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ ۵۱۔ ۵۴ پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھیراتے ہیں،  مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑ ا گیا ہے،  یا مملکت کی مجلس شوریٰ  ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کر سکتی ہے۔

۳: اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ’’ دین اللہ‘‘  فر مایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں،  مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں کود دین اللہ رد کر دیا گیا۔

 دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنبیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سو طافیقال لہ لِمَ فعلت ذٰلک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہٖ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سو طافیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومربہٖ الی النار۔ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا  اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘  (تفسیر کبیر۔ ج ۶۔ ص ۲۲۵) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا ’’ لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ‘‘  ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے  لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ‘‘  (نسائی و ابن ماجہ)۔

بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت  ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے،  بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں،  بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے،  اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے،  اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔

۴: یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے،  تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءًمبِمَا کَسَبَا نَکَا لًامِّنَ اللہِ۔ ’’ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا‘‘ (آیت ۳۸) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جواس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں۔

۵:  یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے،  یا پھر مشرکہ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے،  اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں۔ اسی طرح زانیہ (غیر تائبہ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں،  اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا،  کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد ’’ زانی‘‘  ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی۔

 زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے،  نہ یہ کہ اس کم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال، ’’ حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا‘‘ (طبرانی، دارقطنی) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے،  وہ بھی بد کار قرار پائے۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون (Out law) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا  جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے،  کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے،  حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔

 اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے،   اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے۔ آیت کا منشا در اصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے،  یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔

 آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے  کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی۔ ترمذی اور ابو داؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کر لیں اور حضور سے اجازت مانگی۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد، الزانی لا ینکح الازانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ جو شخص دیوث ہو( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (احمد،  نسائی،  ابو داؤد اور طیالِسی)۔ شیخین، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا : قبحک اللہ،  الا سترت علی ابنتک، ’’ تیرا برا ہو،  تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا‘‘ ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا،  دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکرؓ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں (جلد ۲۔ ص ۸۶)۔

۶:  اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں،  کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں،  اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرط لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں،  اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کر دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے،  بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کر دینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جوق کسی جرم پر نہیں دی  جاتی۔ اورع دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے،  ورنہ اس پر اسّی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے،  تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے،  آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔

 اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں :

۱: آیت میں الفاظ ’’ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْ نَ ‘‘  استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں ’’ وہ لوگ جو الزام لگائیں ‘‘۔ لیکن سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم اک الزام نہیں،  بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے،  ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں ’’الزام‘‘  سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے،  جس کے لیے علماء نے ’قَذْف‘‘  کی مستقل اصطلاح مقرر کر دی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار،  یا کافر کہہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ ’’ قذف‘‘  کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کر سکتا ہے،  یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسبِ ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔

 ۲ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ) استعمال ہوئے ہیں،  لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،  لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذِف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہو گی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں )۔

 ۳ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہو گا جب کہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر ’’ الزام‘‘  لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا  نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کر سکتا ہے،  یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔

 ۴ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے،  بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے ) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے ) میں،  اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جاری ضروری ہیں۔

 قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہو تو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں،  مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جا سکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہو گا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے،  کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کر دینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو ۸۰ کوٹوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔

 مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو،  یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا،  اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہو جائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہر حال وہ ایک بے ثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا،  یا جواب پر اس امر کا الزام لگان کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے،  کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے،  اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تبتو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے،  لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے،  کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہو جاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پریہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے،  کیونکہ غلام کی بے بسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کر سکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو اِحصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے،  چنانچہ سورہ نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہو چکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کر چکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہو سکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہو چکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہو جاتی ہے،  اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا ۸۰ کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہو جائے،  تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔

 مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے،  یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔

 اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو مقذوف پر حد واجب ہو جائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر،  بد کار،  بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی،  کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا  کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ’’ہاں،  مگر میں تو زانی نہیں ہوں ‘‘،  یا ’’میری مان نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے ‘‘  امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آ جائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے،  قذف ہے جس پر حد واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب،  اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمَہ،  اور حسن بن صالح اس بات کی قائل ہیں کہ تعریض میں بہر حال شک کی گنجائش ہے،  اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ  کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’’ نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی ‘‘۔ معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے،  اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمرؓ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کر دی (جصاص ج۳،  ص ۳۳۰)۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوطؑ کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف،  امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔

۵: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار ) (Cognizable Offence ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حقُ اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہر حال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے تو حد جاری کرنا واجب ہے، لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے،  اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اَوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے،  ورنہ اس پر کار روائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔

 ۶ : جرمِ قذف قابل راضی نامہ (Compoundable Offence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آ جانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے،  اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گ۔ نہ عدالت اس کو معاف کر سکتی ہے اور نہ خود مقذوف،  نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحد ود  فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ ’’ حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہو گئی ‘‘۔

 ۷ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کر سکتا ہے،  یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں،  اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دورے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے،  کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا،  تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے،  اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم  بے عزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔

 ۸: یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے،  جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ  کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے،  کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا  چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر،  یا اندھے،  یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہو جائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہو جائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف،  اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب،  ساری ہی چیزیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جا سکے گا۔

 ۹ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کر سکے جو اسے جرم قذف سے بری کر سکتی ہو،اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ ۸۰ کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا مِنْ م  بَعْدِ ذٰلِکَ وَاصْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ گَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے )۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں،  یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہو گی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے،  یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہو جانے کے بعد فاسق ہوتا ہے،  اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے )۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ ’’ قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے ‘‘۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے،  یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کر لے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے،  یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شُریح، سَعید بن مُسَّٰب، سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول،  عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ،  ابو یوسف، زُفَر،  محمد،  سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے،  یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہو گا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس،  مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد،  سالم، زُہری،  عِکْرِمَہ،  عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح،  سلیمان بن یَسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس،  عثمان البتّی،  لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا،  کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کر لو (یا ’’اپنے جھوٹ کا اقرار کر لو‘‘ ) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کر لیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے،  لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کر چکے ہیں اس پرغور کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہ بن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کر چکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بے جا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہو جائے وہ بھی حضرت عمرؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہو سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں،  لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتا رہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اُولٰٓئیکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو‘‘،  ’’اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو‘‘۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : ’’ وہ خود ہی فاسق ہیں ‘‘۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ ’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کر لیں ‘‘،  خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے،  تو  پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’شہادت قبول نہ کرو‘‘  کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا، ’’ اسّی کوڑے مارو‘‘  کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔

 ۱۰ : سوال کیا جا سکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوا  کا استثنا ء آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے،  مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کر لے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ  تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا …… فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُ رَّحِیْمُ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہو گی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ  ہے کہ توبہ در اصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے،  اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو تم انہیں چھوڑ دو، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کر لیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا؟

۱۱ : یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی  بنا پر فاسق ٹھیرایا جائے،  اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہ گار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے،  یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کر دیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہو گا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کر سکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہر حال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔

 ۱۲ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو ۸۰ ہی ہوں، مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہر حال یقینی نہیں ہے۔

 ۱۳ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہو گی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پر ایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ ’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علیؓ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جا سکتا، اور حضرت عمرؓ نے ان کی رائے قبول کر لی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہو گیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جا سکتا ہے،  سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔ ۱۴ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پربھی الزام لگائے،  خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں،  اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ’’ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ‘‘  اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہو سکتا  جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے  امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں،  اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول،جس میں شعبی اور اَوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔

۷:  یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کر سکتا ہے،  گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھیرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کر سکتا ہے،  مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دکھوں تو گواہوں کی تلاش میں ہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم)۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آ گئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمرؓ کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمیر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا  یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کر دیں گے،  قتل کر دے تو آپ اسے قتل کر دیں گے،  چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضورؐ نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم،  بخاری، ابو داؤد،  احمد، نسائی)۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ بالا بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی‘‘۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے،  میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری،  احمد،  ابو داؤد)۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’’لِعان‘‘  کہا جاتا ہے۔ یہ حکم آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی  لِعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کار روائی کا ماخذ ہیں۔ بلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بہو،  دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضورؐ نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا ’’خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے ‘‘۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ اچھا، تو ان دونوں میں ملاعَنَت کرائی جائے ‘‘۔ چنانچہ پہلے بلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھائی ………… نبی صلی اللہ الیہ و سلم اس دوران میں بار بار فرماتے رہے ‘‘  اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے،  پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا؟ ‘‘  پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے بلال سے کہا ’’خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی‘‘۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں  بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھا لی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قومیں کھانی شروع کیاں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ ’’ خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کر لینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی‘‘۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی ’’ میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی‘‘  اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہو گا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا،  کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہو گا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہو گا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے،  اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضورؐ نے فرمایا لولاالاُیمان (یا بہ روایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان،  یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کر چکی ہوتی)تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔ عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن عد ساعِدی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بخاری، مسلم، ابو داؤد،  نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضورؐ نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا‘‘ ؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا ’’ یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضورؐ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضورؐ نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ ’’ یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے ‘‘۔ اور سنت یہ قائم ہو گئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کر دیا جائے،  پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا  کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔ ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص  کے مقدموں کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں،  مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔ ابن عمر ایک مقدمے کی رو داد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کر چکے تو بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی (بخاری،  مسلم،  نسائی، احمد،  ابن جریر)۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صف ماں کا ہو گا (صحاح ستّہ اور احمد)۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضورؐ نے فرمایا ’’ تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے،  تم میں سے ایک بہر حال جھوٹا ہے ‘‘۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا: لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہتو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے،  نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے )۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا )۔ فرمایا : لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فوجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے،  اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے ) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے : ’’ سنت یہ مقرر ہو چکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے ‘‘  (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا)۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو نا جائز قرار دیا، پھر اعتراف کر لیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے،  پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ ؤُ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا (دار قطنی، بیہقی)۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا طلاق دے دے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا)۔ نسائی۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ہو میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تا ورنہ بیوی پر زان کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی)۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں،  بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہو گا اور اسی کا اثر ان میں آگیا)۔ فرمایا ’’شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی ‘‘  اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار ) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم،  احمد، ابو داؤد)۔ ابو ہریرہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا ’’جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھُسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے ) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں،  اللہ اس کو جنت میں ہر گز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی)۔ آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامّہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنا یا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں : ۱): جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہو جائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو طور حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہو گا بہ شرط یہ کہ اس کی صداقت ثابت ہو جائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا)۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جب کہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے،  یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کر چکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار،  ج ۶،  ص ۲۲۸)۔ ۲) : لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔ ۳) : لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کر سکتی ہے جب کہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ ۴): کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہو سکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں،  اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہو سکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں،  یا غلام ہوں،  یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پرکسی مرد سے ملوث ہو چکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہو گا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قومیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں،  اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں  حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے،  اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط  اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کر لے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کر دینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے،  ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با  وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو جس پہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر،  اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی،  یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے یے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے،  یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بے جا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہو جائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے،  اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھا لے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کر دیا جائے،  کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگا تے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔

 ۵): لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا،  بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جب کہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے نکار کر دے۔ امام مالک اور لَیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید نے بنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔

 ۶) : اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے  قید کر دیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے،  اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لَیث بن سعد کی رائے یہ  ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آ جاتی ہے۔ ۷): اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے،  یا پھر زنا کا اقرار نہ کر لے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کر دیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہو گا جب کہ وہ بھی قسم کھا لے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں ’’ عذاب‘‘  کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ  ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جانے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں،  مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہو جائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کر دیتا ہے،  لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے،  کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے،  جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار یعنی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

۸) : اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہو جائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں،  اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔

 ۹) : امام مالک،  امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام  ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کر دینا چاہیے،  کیونکہ نس اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کر دیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔

 ۱۰) : اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کر لینے کے بعد (خواہ یہ قبول کر لینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے  افعال،  مثلاً  پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں ) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا،اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہو جاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جب کہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے،  اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کر سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہو گا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے،  اس کے بعد یہ حق ساقط ہو جائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بے معنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے  بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا  جا سکتا ہے،  الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جا سکے۔

۱۱) : اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہو گا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جب کہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔ ۱۲): لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں،  اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ متفق علیہ نتائج یہ ہیں : عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہو گا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہو گی اور وہ ماں کا وارث ہو گا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہو گا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہو گا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہو گا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہو گی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہو جائے گی۔ اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہو گی؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہو جانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہو جائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہو جاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک،  لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ،  ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہو جاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک،  ابو یوسف، زمر،  سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ،  شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں،  دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کر سکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عند اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب،  ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر،  ابو حنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہو جائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں،  حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہو گیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔

جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں۸ وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ ۹ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ ۱۰ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس  کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا ۱۱ اس کے لیے عذابِ عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا ۱۲ اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ ۱۳   وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں )چار گواہ کیوں نہ لائے؟
اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھُوٹے ہیں۔ ۱۴ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ (ذرا غور تو کرو، اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے)جبکہ تمہاری ایک زبان سے دُوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کی متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اُسے سُنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ’’ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سُبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔‘‘ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔ اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور رہ علیم و حکیم ہے۔ ۱۵جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، ۱۶ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ۱۷ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ  ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے، (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)۔ ؏ ۲

۸:  اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے۔ اِفک کے  معنی ہیں بات کو الٹ دینا، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں۔

یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضورؐ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے۔ حضور نے فرمایا عائشہ،مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات  سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں،  کیا کہوں۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے،  اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تو آپ لوگ نہ مانیں گے،  اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔  اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوبؑ کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چاہ ر ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسفؑ کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل (اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کہ حضرت یعقوبؑ کے سامنے ان کے بیٹھے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا۔ سور یوسف، رکوع ۱۰ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی  نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکایک حضورؐ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی،  حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئے۔ میں تو بالکل نے خوف تھی۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضورؐ بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ،  اللہ نے تمہاری براءت نازل فرما دی۔ اور اس کے بعد حضورؐ نے دس آیتیں سنائیں (یعنی آیت نمبر ۱۱ سے نمبر ۲۱ تک)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے )۔

 اس موقع پر یہ نکتۂ  لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے در اصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے  جسے نُقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو ہو گواہی لائے۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر ۸۰ کوڑے برسا  دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں۔

۹:  روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے۔ عبد اللہ بن ابی۔ زید بن رفاعہ(جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹھا تھا)۔ مِسْطَح بن اُثاثہ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑ گئے تھے۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا۔

۱۰:  مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں،  منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے فید ثابت ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں،  منافقین نے یہ شو شہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دین جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے،  دوسری طرف حضرت ابو بکر اور ان کے خاندان والوں نے،  اورع تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابطہ و متحمل،  کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا،  مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے،  اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو،  جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔ حضرت ابو بکر کا اپنا رشتہ دار،  جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے،  ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا،  یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں،  مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ، خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ’’ ایوب کی ماں ‘‘  اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ‘‘ ؟ وہ بولیں ‘‘  خدا کی قسم میں یہ حرکت ہر گز نہ کرتی‘‘۔ حضرت ابو ایوب نے کہا ’’ تو عائشہ تم سے بدر جہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ‘‘۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے،  نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا۔ پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا۔ اس کی بدولت مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے،  اور پیدا ہو جائیں تو ان کا بر وقت تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیب داں نہیں ہیں،  جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں،  اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے،  ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہؓ کے معاملے میں سخت پریشان رہے۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے،  کبھی ازواج مطہرات سے،   کبھی حضرت علیؓ سے اور کبھی حضرت اسامہؓ سے۔ آخر کار حضرت عائشہؓ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر  تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ کچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو وہ علم حاصل ہو گیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچا نے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو۔ اول روز ہی وحی آ جاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، صفحہ ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔

۱۱:  یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام  کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے،  مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ،  بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی امیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول، منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ  کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان  دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔

۱۲:  یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام  کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے،  مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ،  بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول، منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ  کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان  دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔

۱۳:  یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اگر چہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پر جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے،  سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں، اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کرین گے۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔

۱۴:  ’’اللہ کے نزدیک ‘‘  یعنی اللہ کے قانون میں،  اللہ کے  قانون کے مطابق۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا،  اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں۔ اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے،  یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے،  بلکہ صرف اس بنیاد پر انتا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے  کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بتھا کر دن دہاڑے،  ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو۔ ورنہ قرائن،  جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی،  کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے۔

۱۵:  ان آیات سے،   اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے کہ ’’ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے گ وہ کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا‘‘  یہ قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں تمام معاملات کی بنا حسنِ ظن پر ہونی چاہیے،  اور سوءِ ظن صرف اس حالت میں کیا جانا چاہیے جب کہ اس کے لیے کوئ ثبوتی و ایجابی بنیاد ہو۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص نے گناہ ہے جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو۔ اور ہر شخص اپنی بات میں سچا ہے جب تک کہ اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو۔

۱۶:  موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ  ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں،  اشعار، گانوں،  تصویروں اور کھیل تماشوں پربھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان  کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو  قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔

۱۷:  یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں،  کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے۔ در اصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کو ئی شخص پاک نہ ہو سکتا۔ ۱۸ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے،  اور اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ ۱۹
تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انھیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے۔ ۲۰ جو لوگ پاک دامن،  بے خبر، ۲۱ مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دُنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو بھُول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے  اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے۔ ۲۱الف اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھر پور دے دیگا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ ان کا دامن پاک ہے اُن باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں، ۲۲ ان کے لیے مغفرت ہے اور رزقِ کریم۔ ؏ ۳

۱۸:  یعنی شیطان تو تمہیں برائی کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لیے اس طرح تُلا بیٹھا ہے کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھائے اور تم کو اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے بل بوتے پر پاک نہ ہو سکے۔

۱۹:  یعنی اللہ کی یہ مشیت کہ وہ کسے پاکیزگی بخشے،  اندھا دھند نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کس میں بھلائی کی طلب موجود اور کون برائی کی رغبت رکھتا ہے۔ ہر شخص اپنی خلوتوں میں جو باتیں کرتا ہے انہیں اللہ سن رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے دل میں بھی جو کچھ سوچا کرتا ہے،  اللہ اس سے بے خبر نہیں رہتا۔ اسی براہ راست علم کی بنا پر اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے پاکیزگی بخشے اور کسے نہ بخشے۔

۲۰:  حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابو بکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے،  کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابو بکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انانحب ان تغفرلنا یا ربنا، ’’واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ‘‘۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابو بکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے،  پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے،  اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فوأی غیر ھا خیر ا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہٗ۔ (جو شخص کسی بات کی قسم کھا  لے،  پھر اے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے )۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم فرما چکا ہے (البقرہ، آیت ۲۲۵ المائدہ، آیت ۸۹) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکرؓ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نا مناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے،  چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہہ کر دیتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فرّی غیرھا خیر منھافلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہٖ (جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے،  اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز۔ ایک چیز کا کفارہ بھائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن،  جلد چہارم، تفسیر سورہ ص،  حاشیہ ۴۶)

۲۱:  اصل میں لفظ ’’غافلات ‘‘  استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے جس سے مراد ہیں وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں،  جن کے دل پاک ہیں،  جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے،  جن کے حاشیۂ  خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر ابھی الزام لگا بیٹھے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’ موبقات‘‘ (تباہ کن) ہیں۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ، ’’ ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔

۲۱a:  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۵۵۔ حٰم السجدہ، حاشیہ ۲۵ )۔

۲۲:  اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے،  اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو۔ اس کے تو اطوار، عادات، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار،  گفتار، انداز، اطوار،  کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر  نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت وے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے،  کیا الزام لگایا جا رہا ہے،  اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے،  یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کی ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرواز لوگ کر رہے ہیں۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے۔ لین ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے۔

۲۳ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھر میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ  گھر والوں کی رضا نہ لے لو ۲۴ اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ ۲۵ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، ۲۶ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے،  ۲۷ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام)کی کوئی چیز ہو، ۲۸ تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے۔
اے نبیؐ،  مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ۲۹ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، ۳۰ یہ  اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔اور اے نبیؐ،  مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، ۳۱ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، ۳۲ اور ۳۳ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ۳۴ بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، ۳۵ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ ۳۶ وہ اپنا  بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے ۳۷ : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ ۳۸،  اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے ۳۹،  بھائی ۴۰،  بھائیوں کے بیٹے ۴۱،  بہنوں کے بیٹے ۴۲،  اپنے میل جول کی عورتیں ۴۳،  اپنے مملوک ۴۴،  وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ۴۵،  اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف  نہ ہوئے ہوں۔ ۴۶ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا  رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ ۴۷اے مومنو، تم سب مِل کر اللہ سے توبہ کرو ۴۸،  توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ ۴۹
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں۵۰،  اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ۵۱،  ان کے نکاح کر دو۔ ۵۲ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا ۵۳،  اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عِفّت مآبی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے۔ ۵۴
اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی  درخواست کریں ۵۵ ان سے مکاتبت کر لو ۵۶ اگر تمہیں  معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے ۵۷،  اور ان کو اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ ۵۸اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبُور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں ۵۹،  اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور و رحیم ہے۔
ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی  آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبرتناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ ۶۰ ؏ ۴

۲۳:  سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اب وہ احکام دیے جا رہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کر دیا جائے  جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں :

 اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا در اصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا، اور اللہ تعالیٰ کے  نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنا جانا بند کیا جائے،  اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے،  عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ دروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کر دیا جائے،  قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے،  مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے،  اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بے پر دگی، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا،  اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں،  ان کے کان، ان کی زبانیں،  ان کے دل،  سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے (Scandal) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی،  ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا۔ دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کر دینے،  یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں،  یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں،  یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پا بندیا ں لگاتی ہے،  تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔ وہ صرف محتسب (Prosecutor) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد، مصلح اور مدد گار بھی ہے،  اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں  مدد دی جائے۔

۲۴:  اصل میں لفظ : حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے،  جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے،  لیکن در حقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو ‘‘اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا مطلب کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا،  یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو‘‘، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے،  وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے ‘‘ کے  بجائے ’’ رضا لینے ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔

۲۵:  جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حّیِّیتم صَبَا حاً،  حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام بخیر) کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نا دیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں :

 ۱ : حضورؐ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود  نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا،  باہر سے نگاہ ڈالنا، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبان (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کر دہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن، ’’ جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا موقع رہا‘‘ (ابو داؤد)۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک،  فانما الا ستیذان من النظر‘‘، پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ‘‘ (ابو داؤد)۔ حضورؐ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے،  کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پر دے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد )۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضورؐ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظر فی لنار، ’’ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ‘‘ (ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح، ’’ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ‘‘۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذانھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ، ’’ جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤاخذہ نہیں ‘‘۔ امام شافعیؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پردہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا (احکام القرآن جصاص۔ ج۳۔ ص ۳۸۵)۔

 ۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی،  مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے۔

۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہتوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے،  کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ، ’’ کیا تو پسند کرتا ہے کہاپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟‘‘(ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً )۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود جب کبھی گھر  میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)۔

۴ : اجازت طلب کرنے کے حکم ے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جائے،  مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں۔

 ۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا : أألج (کیا میں گھر میں گھس آؤں؟) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أأدخل (ابن جریر۔ ابو داؤد )۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرتؐ کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ’’ میں ہوں ‘‘۔ آپ نے  دو تین مرتبہ فرمایا: ’’میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ ‘‘ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو(ابو داؤد )۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام ے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے ’’السلام علیہ یا رسول اللہ،  اید خل عمر (ابو داؤد )۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پربھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ (بخاری، مسلم، ابو داؤد )۔ یہی حضورؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے مرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے،  اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو داؤد۔ احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے،  بلکہ ذرا ٹھیر ٹھیر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔

 ۶ : اجازت یا تو خود صاب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے،  مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے۔

 ۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہو جانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ نہ ملے،  یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔

۲۶: یعنی کسی کے خالی گھر میں داخل ہو جانا جائز نہیں ہے،  الا یہ کہ صاحب خانہ نے آدمی کو خود اس بات کی اجازت دی ہو۔ مثلاً اس نے آپ سے کہہ دیا ہو کہ اگر میں موجود نہ ہوں تو آپ میرے کمرے میں بیٹھ جائیے گا، یا وہ کسی اور جگہ پر ہو اور آپ کی اطلاع ملنے پر وہ کہلا بھیجے کہ آپ تشریف رکھیے،  میں ابھی آتا ہوں۔ ورنہ محض یہ بات کہ مکان میں کوئی نہیں ہے،  یا اندر سے کوئی نہیں بولتا، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کر دیتی کہ وہ بلا اجازت داخل ہو جائے۔

۲۷:  یعنی اس پر برا نہ ماننا چاہیے۔ ایک آدمی کو حق ہے کہ وہ کسی سے نہ ملنا چاہے تو انکار کر دے،  یا کوئی مشغولیت ملاقات میں مانع ہو تو معذرت کر دے۔ اَرْجِعُوْا (واپس ہو جاؤ) کے حکم کا فقہاء نے یہ مطلب لیا ہے کہ اس صورت میں دروازے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ آدمی کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے کو ملاقات پر مجبور کرے،  یا اس کے دروازے پر ٹھیر کر اسے تنگ کرنے کی کوشش کرے۔

۲۸:  اس سے مراد ہیں ہوٹل،  سرائے،  مہمان خانے،  دوکانیں،  مسافر خانے وغیرہ جہاں لوگوں کے لیے داخلہ کی اجازت ہو۔

۲۹:  اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے،  گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے،  بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا،  اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے،  یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے،  قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِنْ اَبْسَارِھِمْ میں مِنْ  تبعیض کے لیے ہے،  یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے،  بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔

 کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

 ۱ : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے،  لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم  گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں،  یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری،  مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک ا لاٰخرۃ، ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف ہیں ‘‘(احمد، ترمذی،  ابو داؤد،  دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ  بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو،  یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد،  نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموہِ،  من تکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہٖ ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے،  جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں سے کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : مامن مسلم ینظر ا الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ  خَثْعَم کی ایک عورت راست میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑی کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد،  ترمذی)۔

 ۲: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعر فنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عر فنی فخمرت وجھی بجلبابی، ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر،  سیرت ابن ہشام)ابو داؤد،  کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں،  مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی،  ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی رویت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ‘‘۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے،  کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتیں غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں،  اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد،  باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔

۳ : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کیس عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے،  بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بینکما،  ’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ،  دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصار شیئاً،  ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابرؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا :اذا خطب احد کم المرأۃ فَقَدَرَاَن یریٰ منھا بعض ما ید عوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، ’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد،  ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا،  یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔

 ۴ : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المرأۃ الیٰ عورۃ مرأۃ،  ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے،  اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذحی ولا میت،  ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ )۔

۳۰:  شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ناف سے کھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّ  تہ الیٰ رکبتہٖ،  ’’ مرد کا ستر اس کی ناف سے کھٹنے تک ہے ’’ (دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرھَدِاَسْلمی، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے،  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ،  ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے  قابل چیز ہے ‘‘؟ (ترمذی، ابو داؤد،  مؤطا )۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تُبرِز (یا لا تکشف) فخذک، ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد،  ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں،  تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولاتعری فان معکم من لا یفار قکم الا عندالغائط وحین یفضی الرجلالیٰ اھلہٖ فا ستحیوھم وا کرمو ھم،  ’’ خبر دار، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سوائے اس وقت کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : احفظ عورت کالا من زوجتک او ما ملکت یمینک،  ‘‘ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستحیامنہ،  ’’ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے  اس سے شرم کی جائے،  ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی،  ابن ماجہ)۔

۳۱:  عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں،  یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے،  نگاہ پڑ جائے تو ہٹا لینی چاہیے،  اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں،  اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا حتجبا منہ،  ’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ الیس اعمیٰ لا یبصرناو لایعرفنا،  ’’ یا رسول اللہ،  کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہٖ،  ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ : ذٰالک بعد ان اُمِرا بالحجاب،  ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا ‘‘۔ (احمد،  ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں،  یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا: لٰکنی ا نظرالیہ،  ’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ ۷ ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری،  مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں،  بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں، )لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں۔ رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔ تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکوگی ‘‘ (مسلم،  ابو داؤد)۔ ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے۔ راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے۔ اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آ جائے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ شو کا نی نیل لاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں،  بازاروں میں،  اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں،  مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ‘‘ (جلد۶۔ صفحہ ۱۰۱)۔ تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتوں اطمینان سے مردوں کو گھوریں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔

۳۲:  یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں،  اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھولنے سے بھی۔ اس معاملے میں عورتوں کے لیے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لیے ہیں۔ لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں۔ نیز عورت کا ستر مردوں کے لیے الگ ہے اور عورتوں کے لیے الگ۔ مردوں کے لیے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد،  حتیٰ کہ باپ بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہیے،  اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضورؐ نے فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا : یا اسماء ان المرءۃ اذابلغت المحیض لم یصلح لھا ان یریٰ منھا الا ھٰذا و ھٰذا و اشارا لیٰ وجہ ہٖ وکفیہ،  ’’ اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ’’(ابو داؤد)۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں ان کے اَخیانی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف  لائے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ نے فرمایا : اذا عرکت المأۃ لم یحل لھا ان تظہر الا وجھہا والا مادون ھٰذا و قبض علیٰ ذرا نفسہ و ترک بین الکف مظل قبضۃ اخریٰ۔ ’’ جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا،  اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی‘‘۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلاً باپ بھائی وغیرہ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے،  جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پائنچے کچھ اوپر کر لینا۔ اور عورت کے لیے عورت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لیے مرد کے ستر کے ہیں،  یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے۔

۳۳:  یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے،  یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا،  بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں۔

۳۴:  ’’ بناؤ سنگھار‘‘ ہم نے ’’ زینت‘‘ کا ترجمہ کیا ہے،  جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے،  زیور، اور سر، منہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتوں دنیا مین کرتی ہیں،  جن کے لیے موجودہ زمانے میں (Make up) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے،  اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

۳۵:  اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے،  ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ : لایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ، ’’ وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں ‘‘۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مَنْھَا،  ’’ جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو، یا ظاہر ہو جائے ‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے،  البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا ) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے،  کیونکہ بہر حال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے،  اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے ) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود،  حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے : مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے )،  اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز  ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے،  اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن جصاص، جلد ۳،  صفحہ ۳۸۸۔ ۳۸۹)۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ : مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے ‘‘ اور ظاہر کرنے ‘‘ میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہر کرنے ‘‘ سے روک کر ’’ ظاہر ہونے ‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ’’ظاہر کرنے ‘‘ کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں،  اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جو بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی نا جائز ہے۔ رہا حجاب،  تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے،  اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے۔

۳۶: زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے  چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں (تفسیر کشاف جلد ۲،  صفحہ ۹۰۔ ابن کثیر جلد ۳، صفحہ ۲۸۳۔ ۲۸۴)۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا،  جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے،  بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ،  سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہیں فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں،  بیٹیوں،  بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمر ھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی  ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتوں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے (ابن کثیر، ج ۳،  ص ۲۸۴۔ ابو داؤد،  کتاب اللباس)۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے،  ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے،  چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہیں سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ (قَبَاطِی) آئی۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دو پٹہ بنانے کے لیے دے دو، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا، ’’ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (ابو داؤد،  کتاب اللباس)۔

۳۷:  یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں،  خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی، بہر حال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر مھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو  لوگ بھی ہوں،  ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے،  البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جائے،  یا جس کا چھپانا مکین نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے۔

۳۸:  اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پر دادا اور نانا پر نانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آ سکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آ سکتی ہے۔

۳۹:  بیٹیوں میں پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب شامل ہیں۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کر سکتی ہے۔

۴۰: ’’بھائیوں ‘‘ میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں۔

۴۱:  بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے،  یعنی ان کے پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب اس میں شامل ہیں۔

۴۲:  یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے،  اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے،  کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں : پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے،  باقی سب لوگوں کو،  حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار،  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ؛۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو،  کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے  کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو۔ اور باقی سب سے ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ  اخذ کیا ہے کہ  جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں،  مثلاً چچا، ماموں،  داماد اور رضاعی رشتہ دار۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے،  اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے (ج۔ ۳،  ص۔ ۳۹۰)۔

 دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو (یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ  آئیں،  اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے،  یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے،  کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے،  ان کی عمر،  عورت کی عمر، خاندانی تعلقات و روابط، اور فریقین کے حالات (مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سالی تھیں،  آپ کے سامنے ہوتی تھیں،  اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الحج، باب المحرم یؤ دِّب غلامہ)۔ اسی طرح حضرت ام ہانی،  جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چچا زاد بہن تھیں،  آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں،  اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے (ملاحظہ ہو ابو داؤد،  کتاب الصوم،  باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ)۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا زاد بھائی) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گئے ہو، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں،  لہٰذا تم رسولؐ اللہ کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حضور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جائے وہاں محرم رشتہ دار  سے بھی  احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا (یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا، کیونکہ وہ در اصل میرے نطفے سے ہے۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ’’ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر‘‘۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا(احتجبی منہ)،  کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے۔

۴۳:  اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ‘‘ ان کی عورتیں ‘‘۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں،  یہ بحث تو بعد کی ہے۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض ’’عورتوں ‘‘ (النسآء ) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بے پردہ ہونا اور اظہارِ زینت کرنا جائز ہو جاتا، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہر حال ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے،  قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے،  اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآ ءِ  ھِنَّ کا الطلاق ہوتا ہے،  اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں :

 ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں۔ غیر مسلم عورتوں خواہ وہ ذمّی ہوں یا کسی اور قسم کی، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔ ابن عباس،  مجاہد اور ابن جریج کی یہی رائے ہے،  اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عُبیدہ کو لکھا ’’ میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو  اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے  جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے ‘‘۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ‘‘ خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے اس کا منہ آخرت میں کالا ہو جائے ‘‘۔ (ابن جریر،  بیہقی،  ابن کثیر)۔

 دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِ ھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا۔

تیسری رائے یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے در اصل ان کے میل جول کی عورتیں،  ان کی جانی بوجھی عورتیں،  ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں،  خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جا سکتے۔ اس رائے کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے۔ شریف، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں،  ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہو سکتی ہیں،  خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بے حیا،  آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں،  خواہ ’’ مسلمان‘‘ ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے،  کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے۔ رہیں اَن جانی عورتیں،  جن کی حالت معلوم نہیں ہے،  تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے،  یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے،  باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے۔

۴۴: اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے،  مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ یہ عبد اللہ بن مسعود، مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن مُسَیَّب، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ اگر وہ آزاد ہو جائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں،  جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں،  پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے۔ پہلے نِسَآءِ ھِنَّ فرمایا،  پھر ما ملکت ایما نھن  ارشاد ہوا۔ نِسَآءِ ھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں۔ اس لیے ماملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ  اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوئے حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا : لیس علیک باسٌ،  انماھوا بوک و غلامک۔ ’’ کوئی حرج نہیں،  یہاں بس تمہارا  باپ ہے اور تمہارا غلام ‘‘(ابو داؤد،  احمد، بیہقی بروایت انس بن مالک۔ ابن عسا کرنے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا،  انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کر دیا، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امیری معاویہ کا پر جوش حامی تھا)۔ اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ : اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤ دی فلتحتجب منہ،  ’’ جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کر لے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے ‘‘(ابو داؤد، ترمذی،  ابن ماجہ، بروایت ام سلمہ)

۴۵:  اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جب کہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت، یا عقلی کمزوری،  یا فقر و مسکنت،  یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی  بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے،  نہ کہ نا فرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے،  پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے  بیرے خانسامے،  شوفر اور دوسرے جوان جوان نوکر تو بہر حال اس تعریف میں نہیں آتے۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں :

 ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بُدھو(مُغَفَّل) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو۔

قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے۔

مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے۔

شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تبع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے۔

ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے،  حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا                                          بڑہا ہو۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے۔

 طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت۔ (ابن جریر، ج ۱۸۔ ص ۹۵۔ ۹۶۔ ابن کثیر، ج۳ ص ۲۸۵ )

 ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری،  مسلم،  ابو داؤد،  نسائی اور احمد عغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ام المومنین ام سلمہؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا۔ پھر س نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا ’’ خدا کے دشمن، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ‘‘۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولیا الا ربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہر حال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے۔

۴۶:  یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگر چہ نابالغ ہوں،  مگر ان میں صنفی احساسات پیدار ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔

۴۷:  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے،  بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سو دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَا جد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات، ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ‘‘۔ (ابو داؤد، احمد)۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا’’ اے خدائے جبار کی بندی،  کیا تو مسجد سے آ رہی ہے‘‘؟ اس نے کہا ہاں۔ بولے ’’میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ‘‘(ابو داؤد،  ابن ماجہ،  احمد، نسائی )۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجد وار یحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدید ا، ’’ جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ‘‘(ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو (ابو داؤد)۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی نا پسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے،  اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ،  وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں،  مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں۔ التسبیح للرجال والتصفیق للنساء (بخاری،  مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد،  نسائی، ابن ماجہ)۔

۴۸:  یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کر لو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں۔

۴۹:  اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں :

۱: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو (خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجو ا علی المغیبات جان الشیطان یجریمن احدکم مجری الدم، ’’ جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ‘‘ (ترمذی)۔ ان ہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ ولیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان، ’’ جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ‘‘ (احمد)۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ، یا رسول اللہ،  بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے،  مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے (ابو داؤد، کتاب الصوم)۔

 ۲ : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے،  لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جن وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے،  جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی‘‘ (ابو داؤد،  کتاب الخراج )۔

 ۳ : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا زو محرم، ولا تسافرالمرأۃ لا مع ذی محرم،  ’ کوئی مرد کیسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو‘‘۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک، ’’ اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ ‘‘۔ اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر،ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے معتبر کت حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفت کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے،  مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ان میں سے کیس حدیث میں ۱۲ میل یا اس سے زیادہ کے سفر پر پابندی کا ذکر ہے،  کسی میں ایک دن،  کسی میں ایک شب و روز، کسی میں دو دن اور کسی میں تین دن کی حد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ اختلاف ان احادیث کونہ تو ساقط الاعتبار بنا دیتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے یہی ضروری ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دے کر اس حد کو قانونی مقدار قرار دینے کی کوشش کریں جو اس روایت میں بیان ہوئی ہو۔ اس لیے کہ اس اختلاف کی یہ معقول وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مختلف مواقع پر جیسی صورت معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوئی ہو اسی کے لحاظ سے آپ نے حکم بیان فرمایا ہو۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے محرم کے بغیر جانے سے منع فرمایا ہو، اور کوئی ایک دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے بھی روک دیا ہو۔ اس میں مختلف سائلوں کے الگ الگ حالات اور ہر ایک کو آپ کے مختلف جوابات اصل چیز نہیں ہیں،  بلکہ اصل چیز وہ قاعدہ ہے جو اوپر ابن عباس والی روایت میں ارشاد ہوا ہے،  یعنی سفر، جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے،  محرم کے بغیر کسی عورت کو نہ کرنا چاہیے۔

 ۴ : آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کوشش فرمائی اور قولاً بھی اس سے منع فرمایا اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے،  کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔ جمع کہ اللہ نے خود فرض کیا ہے،  اور نماز با جماعت کی اہمیت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلا عذر مسجد میں حاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی (ابو داؤد، ابن ماجہ،  دار قطنی، حاکم، بروایت ابن عباس )۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا (ابو داؤد  بروایت ام عطیہ، دارقطنی و بیہقی بروایت جابر، ابو داؤد دو حاکم بروایت طارق بن شہاب)۔ اور نماز با جماعت میں عورتوں کی شرکت نہ صرف یہ کہ لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں رد کو نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ تصریح بھی فرما دی کہ ان کے لیے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایات ابن عمر سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہیں : ائذنو اللنساء الی المساجد باللیل،  ’’ عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو‘‘ (بخاری،  مسلم، ترمذی،  نسائی، ابو داؤد)۔ اور ایک روایت ان الفاظ میں ہے : لا منعو انساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن،  اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں،  اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں ‘‘ (احمد، ابو داؤد )۔ ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ فرمایا’’ تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے پڑھنے سے بہتر ہے،  اور تمہارا اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے،  اور تمہارا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘(احمد،  طبرانی)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت ابو داؤد میں عبد اللہؓ بن مسعود سے مروی ہے،  اور حضرت ام سلمہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ یہ ہیں : خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، ’’ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں ‘‘۔ (احمد، طبرانی)۔ لیکن حضرت عائشہ دور بنی امیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں ’’ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو  اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا آنا بند کیا گیا تھا‘‘ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ مسجد نبوی میں حضورؐ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور اباب ماجاء فی خروج النساء الیالمساجد)۔ جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تاکہ مردوں کے اٹھنے سے پہلے عورتیں اٹھ کر چلی جائیں (احمد،  بخاری، بروایت ام سلمہ)۔ آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوں سے قریب) کی صف۔ اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے آگے کی (یعنی مردوں سے قریب کی) صف ہے (مسلم۔ ابوداؤد،  ترمذی نسائی، احمد )۔ عیدین کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبے کے بعد عورتوں کی طرف جا کر ان کو الگ خطاب فرماتے تھے (ابو داؤد بروایت جابر بن عبد اللہ۔ بخاری و مسلم بروایت بن عباس)۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ اس پر آپ نے عورتوں سے فرمایا : استاخرن فانہ لیس لکن ان تھتضن الطریق، علیکن بحانات الطریق، ’’ پھر جاؤ، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے،  کنارے پر چلو ‘‘۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیوروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو داؤد)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلس اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائرت رکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا اس کے متعلق کون تصور کر سکتا ہے کہ وہ کالجوں میں،  دفتروں میں،  کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا۔

۵ : عورتوں کو اعتدال کے ساتھ بناؤ سنگھار کرنے کی آپ نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ بسا اوقات خود اس کی ہدایت فرمائی ہے،  مگر اس میں حد سے گزر جانے کو بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس زمانے میں جس قسم کے بناؤ سنگھار عرب کی عورتوں میں رائج تھے ان میں سے حسب ذیل چیزوں کو آپ نے قابل لعنت اور سبب ہلا کت اقوام قرار دیا : اپنے بالوں میں دوسرے بال ملا کر ان کو زیادہ لمبا اور گھنا دکھانے کی کوشش کرنا۔ جسم کے مختلف حصوں کو گود نا اور مصنوعی تِل بنانا۔ بال اکھاڑ اکھاڑ کر بھویں خاص وضع میں بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا۔ دانتوں کو گھس گھس کر باریک بنانا،  یا دانتوں کے درمیان مصنوعی چھینیاں پیدا کرنا۔ زعفران یا ورس وغیرہ کے مصنوعی ابٹنے مل کر چہرے پر مصنوعی رنگ پیدا کرنا۔ یہ احکام صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، اور امیر معاویہ سے معتبر سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔ اللہ اور رسول کی ان صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی،  اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کر دے جن کے سد باب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اسکے رسول نے سنت میں اس قدر تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث ان کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے،  اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ان دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف مغربی معاشرت کے طور طریقے اختیار کر لینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھر ان ہی کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں سرے سے پردے کا حکم موجود ہی نہیں ہے،  وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کر لیتے ہیں جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کر سکتا ہے نہ آخرت میں خدا سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدا اور رسول کے ان احکام کو غلط اور ان طریقوں کو صحیح و بر حق سمجھتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا  حال یہ ہے کہ یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی،  کوئی فریب، کوئی دغا بازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے۔

۵۰:  اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ حالانکہ در اصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو، اور ہر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے۔

۵۱:  یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے،  کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری در حقیقت ایک مشیر، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا۔

۵۲:  بظاہر یہاں صیغۂ  امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہ یہ حکم و جوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے،  یعنی اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پریہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے ہ بیٹھے رہیں۔ خاندان والے،  دوست، ہمسائے سب اس معاملے میں دلچسپی لیں،  اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے۔

۵۳:  اس کا مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا،  بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے،  اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات بُرے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور بُرے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۵۴:  ان آیات کی بہترین تفسیر وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : یا معشر الشباب،  من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ احض للبصر وا حصن اللفرج و من لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء، ’’ نوجوانو،  تم میں سے جو شخص شادی کر سکتا ہو اسے کر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بد نظری سے بچانے اور آدمی کی عفت قائم رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اور  جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے،  کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : ثلٰثۃ حق علی اللہ عو نہم، الناکح یرید العفاف،  والمکاتب یرید الاداء، والغازی فی سبیل اللہ،  ’’ تین آدمی ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہے،  ایک وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرے،  دوسرے وہ مُکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھے،  تیسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ‘‘ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ،  احمد۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء،  آیت ۲۵)۔

۵۵:  مُکاتَبت کے لفظی معنی تو ہیں ’’ لکھا پڑھی،‘‘ مگر اصطلاح میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیش کش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان شرائط کی لکھا پڑھی ہو جائے۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو۔ آقا کے لیے کوئی خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے،  بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے۔ وہ اس کو مال کتابت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام نے اپنی مالکہ سے مکاتبت کی اور مدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نے کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر سے شکایت کی۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے۔ پر مالکہ کو کہا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے،  اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے (دار قطنی بروایت ابو سعید مقبری)۔

۵۶:  اس آیت کا مطلب فقہاء کے ایک گروہ نے یہ لیا ہے کہ جب کوئی لونڈی یا غلام مکا تبت کی درخواست کرے تو آقا پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔ یہ عطاء،  عمر و بن دینار، ابن سیرین،  مسروق، ضحاک،  عکرمہ، ظاہر یہ،  اور ابن جریر طبری کا مسلک ہے اور امام شافعی بھی پہلے اسی کے قائل تھے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مُستحب اور مندوب ہے۔ اس گروہ میں شعبی، مقاتل بن حیان، حسن نصری،  عبد الرحمٰن بن زید،  سفیان ثوری،  ابو حنیفہ اور مالک بن انس جیسے بزرگ شامل ہیں،  اور آخر میں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہو گئے تھے۔ پہلے گروہ کے مسلک کی تائید دو چیزیں کرتی ہیں۔ یک یہ کہ آیت کے الفاظ ہیں کَاتِبُوْھُمْ، ’’ ان سے مکاتبت کر لو‘‘۔ یہ الفاظ صاف طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ دوسرے یہ کہ معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مشہور فقیہ (محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس سے جب مکاتبت کی در خواست کی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیرین حضرت عمرؓ کے پاس شکایت لے گئے۔ انہوں نے واقعہ سنا تو درہ لے کر حضرت انس پر پل پڑے اور فرمایا ’’اللہ کا حکم  ہے کہ مکاتبت کر لو‘‘(بخاری )۔ اس واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا ذاتی فعل نہیں بلکہ صحابہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور کسی نے اس پر اظہار اختلاف نہیں کیا، لہٰذا یہ اس آیت کی مستند تفسیر ہے۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف فکاتبوھم نہیں فرمایا ہے بلکہ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا ارشاد فرمایا ہے،  یعنی‘‘ ان سے مکاتبت کر لو اگر ان کے اندر بھلائی پاؤ‘‘ یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے،  اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جانچ سکے۔ قانونی احکام کی یہ شان نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں۔ اور سیرین کی نظیر کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ایک غلام تو نہ تھا جس نے مکاتبت کی درخواست کی ہو۔ ہزارہا غلام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں موجود تھے،  اور بکثرت غلاموں نے مکاتبت کی ہے۔ سیرین والے واقعہ کے سوا کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ کسی آقا کو عدالتی حکم کے ذریعہ سے مکاتبت پر مجبور کیا گیا ہو۔ لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو ایک عدالتی فعل سمجھنے کے بجائے ہم اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق باپ اور اولاد کا سا تھا۔ بسا اوقات وہ بہت سے ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں ایک باپ تو دخل دے سکتا ہے مگر ایک حاکم عدالت دخل نہیں دے سکتا۔

۵۷: بھلائی سے مراد تین چیزیں ہیں : ایک یہ کہ غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو، یعنی وہ کما کر یا محنت کر کے اپنی آزادی کا فدیہ ادا کر سکتا ہو، جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : ان علمتم فیھم حرفۃ ولا ترسلوھم کلَّا علی الناس، ’’ اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ کما سکتا ہے تو مکاتبت کرو۔ یہ نہ ہو کہ اسے لوگوں سے بھیک مانگتے پھرنے کے لیے چھوڑ دو‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد) دوسرے یہ کہ اس میں اتنی دیانت اور راست بازی موجود ہو کہ اس کے قول پر اعتماد کر کے معاہدہ کیا جا سکے۔ ایسا نہ ہو مکاتبت کر کے وہ مالک کی خدمت سے چھٹی بھی پالے ور جو کچھ اس دوران میں کمائے اسے کھا پی کر برابر بھی کر دے۔ تیسرے یہ کہ مالک اس میں ایسے بُرے اخلاقی رجحانات،  یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے ایسے تلخ جذبات نہ پاتا ہو جن کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ اس کی آزادی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہو گی۔ بالفاظ دیگر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ مسلم معاشرے کا ایک اچھا آزاد شہری بن سکے گا نہ کہ آستین کا سانپ بن کر رہے گا۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ معاملہ جنگی قیدیوں کا بھی تھا جن کے بارے میں یہ احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت تھی۔

۵۸:  یہ عام حکم ہے جس کے مخاطب آقا بھی ہیں،  عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی۔ آقاؤں کی ہدایت ہے کہ مال کتابت میں سے کچھ نہ کچھ معاف کر دو،  چنانچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتدبہ حصہ معاف کر دیا کرتے تھے،  حتیٰ کہ حضرت علی نے تو ہمیشہ ¼ حصہ معاف کیا ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے (ابن جریر)۔ عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ جو مکاتب بھی اپنا مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرے،  وہ دل کھول کر اس کی امداد کریں۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک فی الرقاب بھی ہے،  یعنی ’’ گردنوں کو بندِ غلامی سے رہا کرانا‘‘ (سورہ توبہ، آیت

۶۰) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک فک رقبہ ‘‘ گردن کا بند کھولنا’ ’ایک بڑی نیکی کا کام ہے (سورہ بلد آیت ۱۳ )۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی۔ غلام آزاد کر، غلاموں کو  آزادی حاصل کرنے میں مدد  دے،  کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے،  اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا، پیاسے کو پانی پلا، بھلائی کی تلقین کر، برائی سے منع کر۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ۔ کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے ‘‘(بیہقی فی شعب الایمان عن البراء بن عازب)۔ اسلامی حکومت کو بھی ہدایت ہے کہ بیت المال میں جو  زکوٰۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کریں۔ اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی۔ دوسرے،  آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ  کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب، دنیا بھر کا معاشرہ ن تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا  کیا جائے۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا کیا حل ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر اسے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا،  کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا، بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدر جہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہو سکا اور سیاہ فام لوگوں (Negroes) کی ذات کا مسئلہ بہر حال باقی رہ گیا۔ اس احمقانہ طریق اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاق تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں،  یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں،  یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں،  اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود۶۳ غلام آزاد کیے۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ۶۷ تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں ۷۰ غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن جزام نے ۱۰۰،  عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار،  ذولکلاع حمیری نے آٹھ ہزار، اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے،  وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے۔ اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے۔ البتہ جنگی قیدیوں کو صر ف اس صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت(حکم نہیں بلکہ اجازت) دی جب کہ ان کی حکومت ہمارے جنگی قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے پر راضی نہ ہو، اور وہ خود بھی اپنا فدیہ ادا نہ کریں۔ پھر ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت کر کے رہائی حاصل کر لیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے حق میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے،  یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے،  یا کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہیں وہ آزاد ہو جائے گا (جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں )،  یا کوئی شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے،  اس صورت میں مالک کے مرتے ہیں وہ آپ  سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے۔ جاہل معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں،  اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر کار اس امر واقعہ ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلام کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا۔

۵۹:  اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو قحبہ گری پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لونڈی خود اپنی مرضی سے بد کاری کی مرتکب ہو تو وہ اپنے جرم کی آپ ذمہ در ہے،  قانون اس کے جرم پر اسی کو پکڑے گا، لیکن اگر اس کا مالک جبر کر کے اس سے یہ پیشہ کرائے تو ذمہ داری مالک کی ہے اور وہی پکڑا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کیا جائے۔ رہا ‘‘دنیوی فائدوں کی خاطر‘‘ کا فقرہ، تو دراصل یہ ثبوت حکم کے لیے شرط اور قید کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے کہ اگر مالک اس کی کمائی نہ کھا رہا ہو تو لونڈی کو قحبہ گری پر مجبور کرنے میں وہ مجرم نہ ہو، بلکہ اس سے مقصود اس کمائی کو بھی حرمت کے حکم میں شامل کرنا ہے جو اس ناجائز جبر کے ذریعہ حاصل کی گئی ہو۔ لیکن اس حکم کا پورا مقصد محض اس کے الفاظ اور سیاق و سباق سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں یہ نازل ہوا ہے۔ اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں۔ ایک خانگی کا پیشہ۔ دوسرے باقاعدہ چکلہ۔ ’’ خانگی‘‘ کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈی ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے ولا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہو جاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلَّم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا ’’نکاح‘‘ سمجھتے تھے۔ اسلام نے آ کر نکاح کے صرف اس معروف طریقے کو قانونی نکاح قرار دیا جس میں ایک عورت کا صرف ایک شوہر ہوتا ہے اور اس طرح باقی تمام صورتیں زنا میں شمار ہو کر آپ سے آپ جرم ہو گئیں (ابو داؤد، باب فی وجوہ النکاح التی کان یتنا کح اہل الجاہلیہ)۔ دوسری صورت، یعنی کھلی قحبہ گری،  تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ اس کے دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں پر ایک بھری رقم عائد کر دیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو، اور وہ بے چاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پورا کرتی تھیں،  اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں،  نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعہ سے یہ رقم لایا کرتی ہیں،  اور نہ جوان لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہو سکتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ’’حاجتمند ‘‘ آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے۔ یہ عورتیں ’’قلیقیات‘‘ کہلاتی تھیں اور ان کے گھر ’’ مواخیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ بڑے بڑے معزز رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ خود عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین، وہی صاحب جنہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کر چکے تھے،  اور وہی صاحب جو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں سب سے پیش پیش تھے ) مدینے میں ان کا ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان کے ذریعہ سے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی ان ہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فوج بھی بڑھاتے تھے۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک،  جس کا نام مُعاذہ تھا،  مسلمان ہو گئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا۔ اس نے جا کر حضرت ابو بکر سے شکایت کی۔ انہوں نے معاملہ سرکار تک پہنچایا، اور سرکار رسالت آپ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے (ابن جریر، ج ۱۸،  ص ۵۵ تا ۵۸۔ ۱۰۳۔ ۱۰۴۔ الانتِیعاب لا بن عبد البر، ج ۲،  ص ۷۶۲۔ ابن کثیر،  ج۳،  ۲۸۸۔ ۲۸۹)۔ یہی زمانہ تھا جب بارگاہ خداوندی سے یہ آیت نازل ہوئی۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل مقصود محض لونڈیوں کو جرم زنا پر مجبور کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ دولت اسلامیہ کے حدود میں قحبہ گری (Prostitution) کے کاروبار کو بالکل خلاف قانون قرار دے دینا ہے،  اور ساتھ ساتھ ان عورتوں کے لیے اعلان معافی بھی ہے جو اس کاروبار میں جبراً استعمال کی گئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرما دیا کہ : لا مُسَاعاۃ فی الاسلام ’’اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ‘‘ (ابو داؤد بروایت ابن عباس، باب فی ادعاء ولد الزنا) دوسرا حکم جو آپ نے دیا وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے۔ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ آپ نے مہر البغیِ یعنی زنا کے معاوضے کو خبیث اور شرّ الکماسب، ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا (ابو داؤد،  ترمذی، نسائی)۔ ابو جُحَیفَہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے  کسب البغی،  یعنی پیشۂ  زنا سے کمائی ہوئی آمدنی کو حرام ٹھیرایا (بخاری،  مسلم،  احمد )۔ ابو مسعود بن عمرو کی روایت ہے کہ آپ نے مَھر البَغیِ کا لین دین ممنوع قرار دیا (صحاح ستہ و احمد۔ تیسرا حکم آپ نے یہ دیا کہ لونڈی سے جائز طور پر صرف ہاتھ پاؤں کی خدمت لی جا سکتی ہے اور مالک کوئی ایسی رقم اس پر عائد، یا اس سے وصول نہیں کر سکتا جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رقم وہ کہاں سے اور کیا کر کے لاتی ہے۔ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسْب الْاَمَۃ حتی یُعلَم من این ھو، ’’ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے لونڈی سے کوئی آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے ‘‘ (ابو داؤد،  کتاب الاجا رہ )۔ رافع بن رِفَاعَہ انصاری کی روایت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے کہ نھانا نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسب الامۃ الا ماعملت بید ھا و قال ھٰکذاباصابعہ نحوالخبز والغزل و النفش،’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو لونڈی کی کمائی سے منع کیا بجز اس کے جو وہ ہاتھ کی محبت سے حاصل کرے،  اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یوں،  جیسے روٹی پکانا،  صوت کاتنا، یا اون اور روئی دھنکنا ‘‘(مسند احمد،  ابو داؤد،  و کتاب الاجارہ )۔ اسی معنی میں ایک روایت ابو داؤد اورمسند احمد میں حضرت ابو ہُریرہؓ سے بھی مروی ہے جس میں کسب الاماء (لونڈیوں کی کمائی) اور مھر البغی (زنا کی آمدنی وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر،  عبد اللہ بن ابی کی لونڈی معاذہ کے معاملہ میں جو کچھ آپ نے فیصلہ فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی سے اس کا مالک جبراً پیشہ کرائے اس پر سے مالک کی ملکیت بھی ساقط ہو جاتی ہے۔ یہ امام زُہری کی روایات ہے جسے ابن کثیر نے مسند عبدالرزاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

۶۰:  اس آیت کا تعلق صرف اوپر کی آخری آیت ہی سے نہیں ہے بلکہ اس پورے سلسلۂ  بیان سے ہے جو آغاز سورہ سے یہاں تک چلا آ  رہا ہے۔ صاف صاف ہدایتیں دینے والی آیات سے مراد وہ آیات ہیں جنمیں زنا اور قذف اور لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے،  بد کار مردوں اور عورتوں سے اہل ایمان کو شادی بیاہ کے معاملہ میں مقاطعہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے،  شریف لوگوں پر بے بنیاد تہمتیں لگانے اور معاشرے میں فواحش کی اشاعت کرنے سے روکا گیا ہے،  مردوں اور عورتوں کو غیض بصر اور حفظ فروج کی تاکید کی گئی ہے،  عورتوں کے لیے پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں،  شادی کے قابل لوگوں کے مجرد بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے،  غلاموں کی آزادی کے لیے کتابت کی صورت تجویز کی گئی ہے،  اور معاشرے کو قحبہ گری  کی لعنت سے پاک کرنے کا حکام دیا گیا ہے۔ ان ارشادات کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے ڈر کر سیدھی راہ اختیار کر لینے والوں کو جس طرح تعلیم دی جاتی ہے وہ تو ہم نے سے دی ہے،  اب اگر تم اس تعلیم کے خلاف چلو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم ان قوموں کا سا انجام دیکھنا چاہتے ہو جن کی عبرتناک مثالیں خود اسی قرآن میں ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غالباً ایک حکم نامے کے اختتام پر اس سے زیادہ سخت تنبیہ کے الفاظ اور کوئی نہیں ہو سکتے۔ مگر آفرین ہے اس قوم پر جو ماشاء اللہ مومن بھی ہو اور اس حکم نامے کی تلاوت بھی کرے اور پھر ایسی سخت تنبیہ کے باوجود اس حکم نامے کی خلاف ورزی بھی کرتی رہے !

۶۱ اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور ہے۔ ۶۲ (کائنات میں)اس کے نُور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک  طاق میں چراغ رکھا ہُوا ہو، چراغ ایک فانُوس میں ہو، فانُوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت ۶۳ کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ۶۴،  جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح)روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں ۶۵ )۔ اللہ اپنے نُور کی طرف جس کی  چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے ۶۶،  وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے،  وہ ہر چیز سے خُوب واقف ہے۔ ۶۷ (اُس کے نُور کی طرف ہدایت پانے والے)اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اِذن دیا ہے۔ ۶۸ اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اُلٹنے اور دِیدے  پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی، (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں )تاکہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے  بے حساب دیتا ہے۔ ۶۹ (اسِ کے برعکس)جنہوں نے کُفر کیا ۷۰ ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ ۷۱ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اُوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اس کے اُوپر بادل، تاریکی مسلّط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ ۷۲ جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں۔ ۷۳ ؏ ۵

۶۱:  یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کا فر دشمن سرگرم تھے۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے،  مسلمانوں میں شامل تھے،  مسلمانوں کے ساتھ،  اور خصوصاً  انصار کے ساتھ،  رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے،  اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ  کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی۔ لیکن در حقیقت ان کی دنیا پرستی نے  ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعوائے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور پھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں اور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے،  اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشت بانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہاں وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے۔

۶۲:  آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔ نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے،  یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے،  اور اس کے برعکس جب سب کچھ سمجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے یے لفظ ’’نور‘‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے،  نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے،  بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے  اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے  لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’’نور‘‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے،  یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’’سبب ظہور‘‘ ہے،  باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی  روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں،  ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔ نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے،  اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔

۶۳:  مبارک، یعنی کثیر المنافع، بہت سے فائدوں کا حامل۔

۶۴:  یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو،  جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے۔

۶۵:  اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے،  اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے  آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں،  شدت ظہور کا پردہ ہے۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے،  بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں،  یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے،  جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں، جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں،  جو کبھی زائل نہیں ہوتا، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے،  اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے۔

رہا یہ مضمون کہ ’’ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘‘، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتون کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی،  اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے  کہ اللہ کی ذات،  جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے،  کسی اور چیز سے طاقت (Energy) حاصل کر رہی ہے،  بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہے۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ  نور بنا رکھا ہے۔

 اور یہ جو فرمایا کہ ’’ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ‘‘، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو۔ یہ تینوں چیزیں،  یعنی زیتون، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزائے تمثیل تین ہیں،  چراغ،  طاق، اور فانوسِ شفاف۔

 آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ ’’ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ‘‘۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو ’’ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ‘‘ کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ’’ نور‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس ’’نور ‘‘ ہونا ہے۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم، صاحب قدرت، صاحب حکمت وغیرہ ہونے  کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہ دیا جائے،  یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے۔

۶۶:  یعنی اگر چہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے،  مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ادراک کی توفیق، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جو کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں،  اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے۔

۶۷:  اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو،  اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے۔

۶۸:  بعض مفسرین نے ان ’’ گھروں ‘‘ سے مراد مساجد لی ہیں،  اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے۔ اور بعض دوسرے مفسرین ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لیتے ہیں اور انہیں بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انہیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے۔ ’’ ان مین اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ‘‘،  یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کے زیادہ مؤید نظر آتے ہیں،  مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کے بھی اتنے ہی مؤید ہیں جتنے پہلی تفسیر کے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف معبدوں تک ہی محدود نہیں رکھتے جہاں کاہن یا پو جاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جا سکتے،  بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے۔ چونکہ اس سورے میں تمام تر خانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں،  اس لیے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،  اگر چہ پہلی تفسیر کو بھی رد کر دینے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں،  دونوں ہی ہوں۔

۶۹:  یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے،  اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت،  اور اس سے دلچسپی، اور اس کا خوف،  اور اس کے انعام کی طلب،  اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔ وہ دنیا پرستی میں گم نہیں ہے۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے  جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جائے۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے،  ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔

۷۰:  یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حلت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے،  یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں،  خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں۔

۷۱:  اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں،  اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان،  اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہوں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھائے اس کی طرف پیاس بھانے کی امید لیے ہوئے دوڑتا چلا جاتا ہے، اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفت طے کرتے چلے جا رہے ہو۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو،  بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا،  اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے۔

۷۲:  اس مثال میں تمام کفار و منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں نمائشی نیکیاں کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ان سب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی قطعی اور کامل جہالت کی حالت میں بسر کر رہے ہیں،  خواہ وہ دنیا کی اصطلاحوں میں علامہ دہر اور علوم و فنون کے استاذ الاساتذہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی جگہ پھنسا ہوا ہو جہاں مکمل تاریکی ہو، روشنی کی ایک کرن تم نہ پہنچ سکتی ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم تم اور ہائڈروجن بم اور آواز سے تیز رفتار طیارے،  اور چاند تک پہنچنے والی ہوائیاں بنا لینے کا نام علم ہے۔ ان کے نزدیک معاشیات اور مالیات اور قانون اور فلسفے میں مہارت کا نام علم ہے۔ مگر حقیقی علم ایک اور چیز ہے،  اور اس کی ان کو ہوا تک نہیں لگی ہے۔ اس علم کے اعتبار سے وہ جاہل محض ہیں،  اور ایک ان پڑھ دیہاتی ذی علم ہے اگر وہ معرفت حق سے بہرہ مند ہو۔

۷۳:  یہاں پہنچ کر وہ اصل مدعا کھول دیا گیا ہے جس کی تمہید : اَللہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مضمون سے اٹھائی گئی تھی۔ جب کائنات میں کوئی نور در حقیقت اللہ کے نور کے سوا نہیں ہے،  اور سارا ظہور حقائق اسی نور کی بدولت ہو رہا ہے،  تو جو شخص اللہ سے نور نہ پائے وہ اگر کامل تاریکی میں مبتلا نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ کہیں اور تو روشنی موجود ہی نہیں ہے کہ اس سے ایک کرن بھی وہ پا سکے۔

۷۴ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے،  پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ اور وہ آسمان سے،   اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں  بلند ہیں، ۷۵ اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اُس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ رات اور دن کا اُلٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اِس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ہم نے صاف صاف حقیقت بتانے والی آیات نازل کر دی ہیں، آگے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت اللہ ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسُولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے )منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ ۷۶ جب ان کو بُلایا جاتا ہے اللہ اور رسُول کی طرف، تاکہ رسُول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے ۷۷ تو ان میں سے ایک فریق کَترا جاتا ہے۔ ۷۸ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسُول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں۔ ۷۹ کیا اِن کے دلوں کو (منافقت کا )روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسُول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ۸۰   ؏ ٦

۷۴:  اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف صالح اہل ایمان ہی کو نصیب ہوتی ہے،  باقی سب لوگ اس نور کامل و شامل کے محیط ہوتے ہوئے بھی اندھوں کیطرح تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ اب اس نور کی طرف رہنمائی کرنے والے بے شمار نشانات میں سے صرف چند کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر کوئی انہیں دیکھے تو ہر وقت ہر طرف اللہ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہے۔ مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ اپنے سر کے دیے دے پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھتے ہیں تو انہیں بیولوجی اور زولوجی اور طرح طرح کی دوسری لوجیاں تو اچھی خاصی کام کرتی نظر آتی ہیں مگر اللہ کہیں کام کرتا نظر نہیں آتا۔

۷۵:  اس سے مراد سردی سے جمے ہوئے بادل بھی ہو سکتے ہیں جنہیں مجازاً آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو۔ اور زمین کے  پہاڑ بھی ہو سکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں،  جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے۔

۷۶:  یعنی اطاعت سے رو گردانی ان کے دعوائے ایمان کی خود تردید کر دیتی ہے،  اور اس حرکت سے یہ بات کھل کھل جاتی ہے کہ انہوں نے جھوٹ کہا جب کہا کہ ہم ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔

۷۷:  یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ رسول کی طرف بلایا جانا صرف رسول ہی کی طرف بلایا جانا نہیں بلکہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف بلایا جانا ہے۔ نیز اس آیت اور اوپر والی آیت سے یہ بات بلا کسی اشتباہ کے بالکل واضح ہو جاتی ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس قانون کے آگے جھک جائیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا ہے۔ یہ طرز عمل اگر وہ اختیار نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان ایک منافقانہ دعویٰ ہے۔ (تقابل کے لیے  ملاحظہ ہو سورہ نساء آیات ۵۹۔ ۶۱۔ مع حواشی ۸۹ تا ۹۲ )۔

۷۸:  واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی کے لیے نہ تھا،  بلکہ آپ کے بعد جو بھی اسلامی حکومت کے منصب قضا پر ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے کرے اس کی عدالت کا سمن در اصل اللہ اور رسول کی عدالت کا سمن ہے،  اور اس سے منہ موڑنے والا در حقیقت اس سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے منہ موڑنے والا ہے۔ اس مضمون کی یہ تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک مرسل حدیث میں مروی ہے جسے حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ : من دُعِیَ الیٰ حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ ’’ جو شخص مسلمانوں کے حکام عدالت میں سے کسی حاکم کی طرف بلایا جائے اور وہ حاضر نہ ہو تو وہ ظالم ہے۔ اس کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘  (احکام القرآن جصاص ج ۳،  ص ۴۰۵ )۔ بالفاظ دیگر ایسا شخص سزا کا بھی مستحق ہے،  اورت مزید براں اس کا بھی مستحق ہے کہ اسے برسر باطل فرض کر کے اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ دے دیا جائے۔

۷۹:  یہ آیت اس حقیقت کو صاف صاف کھول کر بیان کر رہی ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتوں کو خوشی سے لپک کر لے لے،  مگر جو کچھ خدا کی شریعت میں اس کی اغراض و خواہشات کے خلاف ہو اسے رد کر دے،  اور اس کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے قوانین کو ترجیح دے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے،  کیونکہ وہ ایمان خدا اور رسول پر نہیں،  اپنی اغراض اور خواہشات پر رکھتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ خدا کی شریعت کے کسی جز کو اگر وہ مان بھی رہا ہے تو خدا کی نگاہ میں اس طرح کے ماننے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

۸۰:  یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہو گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں،  اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں،  آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے، بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے،  ایمان کا دعویٰ کرتا ہے،  اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے،  وہ بہت بڑا دغا باز،  خائن اور جعل ساز ہے۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔

 ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسُول کی طرف بُلائے جائیں تاکہ رسُول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسُولؐ  کی فرمانبرداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔یہ (منافق)اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ’’ آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نِکل کھڑے ہوں۔‘‘  اِن سے کہو ’’ قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے ۸۱،  تمہارے کرتُوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔‘‘  ۸۲ کہو ’’ اللہ کے مطیع بنو اور رسُولؐ کے تابعِ فرمان بن کر رہو۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسُولؐ پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کا ذمّہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا  گیا ہے اُس کے ذمّہ دار تم۔ اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی  ہدایت پاؤ گے۔ ورنہ رسُولؐ کی ذمّہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے۔‘‘
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بُنیادوں پر  قائم کر دے گا جسے اللہ تعالےٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے،  اور اُن کی (موجودہ )حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ ۸۳ اور جو اس کے بعد کُفر کرے ۸۴ تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو لوگ کُفر کر رہے ہیں ان کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ ؏ ۷

۸۱:  دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان سے جو اطاعت مطلوب ہے وہ معروف اور معلوم قسم کی اطاعت ہے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو، نہ کہ وہ اطاعت جس کا یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پڑے اور پھر بھی یقین نہ آ سکتے۔ جو لوگ حقیقت میں مطیع فرمان ہوتے ہیں ان کا رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ان کے طرز عمل کو دیکھ کر محسوس کر لیتا ہے کہ یہ اطاعت گزار لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ اسے رفع کرنے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پیش آئے۔

۸۲:  یعنی یہ فریب کاریاں مخلوق کے مقابلے میں تو شاید چل بھی جائیں مگر خدا کے مقابلے میں کیسے چل سکتی ہیں جو کھلے اور چھپے سب حالات، بلکہ دلوں کے مخفی ارادے اور خیالات تک ے واقف ہے۔

۸۳:  جیسا کہ اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ہم اشارہ کر چکے ہیں،  اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں،  اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں،  اللہ کے پسندیدہ دین کا تباع کرنے والے ہوں،  اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے و غلامی کی پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔

 بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و نمکُّن کے معنی میں لے لیتے ہیں،  پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے،  اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان،  صلاح،  دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تَمکُّن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں،  خواہ وہ خدا، وحی، رسالت،  آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے،  جیسے سود، زنا،  شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے،  اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً سفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نا رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان وہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ،  اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ  ہدایت، اور اس کے  مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے،  اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے،  قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔

 قرآن در اصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے :

اس کے ایک معنی ہیں ’’خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘  اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے۔

 دوسرے معنی ہیں ’’خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی (نہ کہ محض امر تکوینی) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے،  کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے،  کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔

 تیسرے معنی ہیں ’’ ایک دور کی غالب قوم کے  بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’’نیابت‘‘  سے ماخوذ ہیں،  اور یہ آخر یہ معنی خلافت بمعنی ’’جانشینی‘‘  سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں۔

 اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں  آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جوہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار،  اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ای لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین،  یعنی اسلام،  مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چو راہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں  بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانبیاء، حاشیہ ۹۹)۔

 اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود و صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں،  کرۂ  زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق،  عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ ہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :

 ’’اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم وے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنْکُمْ وَعَمِلُو االصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ………… اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں ے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے،  اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے،  اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں،  تو اس کو جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں،  بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ‘‘۔ دیکھنے والا خود ہی دیکھ  سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔

۸۴:  کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکارِ حق بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے  معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں۔

۸۵ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک ۸۶ اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں ۸۷،  تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں:صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اُتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں۔ ۸۸ اِن کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو  نہ تم  پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر، ۸۹ تمہیں ایک دُوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ ۹۰ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے،  اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں ۹۱ تو چاہیے کہ اُسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اِس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں ۹۲،  نکاح کی اُمیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اُتار کر رکھ دیں ۹۳ تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ ۹۴ تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا،  یا لنگڑا، یا مریض(کسی کے گھر سے کھا لے)اور نہ تمہارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے،   یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے،  یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے،   یا اپنی بہنوں کے گھروں سے،  یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے،  یا اپنی پھُوپھیوں کے گھروں سے،   یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے،  یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے،  یا اُن گھروں سے جن کی کُنجیاں تمہاری سُپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ ۹۵ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ ۹۶ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دُعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی با برکت اور پاکیزہ۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بُوجھ سے کام لو گے۔ ؏ ۸

۸۵:  یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو۔

۸۶:  جمہور مفسرین و فقہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں،  کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ابن عمر اور مجاہد اس آیت میں مملوکوں سے مراد صرف غلام لیتے ہیں اور لونڈیوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ آگے جو حکم بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس تخصیص کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تخلیہ کے اوقات میں جس طرح خود اپنے بچوں کا اچانک آ جانا مناسب نہیں اسی طرح خادمہ کا بھی آ جانا غیر مناسب ہے۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس آیت کا حکم بالغ و نا بالغ دونوں قسم کے مملوکوں کے لیے عام ہے۔

۸۷: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالغوں کا سا خواب دیکھنے  کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔ اسی سے فقہاء نے لڑکوں کے معاملے میں احتلام کو بلوغ کا آغاز مانا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن جو ترجمہ ہم نے متن میں اختیار کیا ہے وہ اس بنا پر قابل ترجیح ہے کہ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں،  دونوں کے لیے ہے،  اور احتلام کو علامت بلوغ قرار دینے کے بعد حکم صرف لڑکوں کے لیے خاص ہو جاتا ہے،  کیونکہ لڑکی کے معاملہ میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے نہ کہ احتلام۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حکم کا منشا یہ ہے کہ جب تک گھر کے بچے اس عمر کو نہ پہنچیں جس میں ان کے اندر صنفی شعور بیدار ہوا کرتا ہے،  اور اس قاعدے کی پابندی کریں،  اور جب اس عمر کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے آ رہا ہے۔

۸۸:  اصل میں لفظ عورات استعمال ہوا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ تین وقت تمہارے لیے عورات ہیں ‘‘۔ عورت اردو میں تو صنف اُناث کے لیے بولا جاتا ہے مگر عربی میں اس کے معنی خلل اور خطرے کی جگہ کے ہیں،  اور اس چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا کھل جانا آدمی کے لیے باعث شرم ہو، یا جس کا ظاہر ہو جانا اس کو ناگوار ہو، نیز اس معنی میں بھی یہ مستعمل ہے کہ کوئی چیز غیر محفوظ ہو۔ یہ سب معنی باہم قریبی مناسبت رکھتے ہیں اور آیت کے مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک سبھی شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں تم لوگ تنہا، یا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالتوں میں ہوتے ہو جن میں گھر کے بچوں اور خادموں کا اچانک تمہارے پاس آ جانا مناسب نہیں ہے،  لہٰذا ان کو یہ ہدایت کرو کہ ان تین وقتوں میں جب وہ تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں۔

۸۹:  یعنی ان تین وقتوں کے سوا دوسرے اوقات میں نا بالغ بچے اور گھر کے مملوک ہر وقت عورتوں اور مردوں کے پاس ان کے کمرے میں یا ان کے تخلیے کی جگہ میں بلا اجازت آ سکتے ہیں۔ اس صورت میں اگر تم کسی نا مناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت آ جائیں تو تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق نہیں ہے،  کیونکہ پھر یہ تمہاری اپنی حماقت ہو گی کہ کام کاج کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھو۔ البتہ اگر تخلیے کے مذکورۂ  بالا تین اوقات میں وہ بلا اجازت آ جائیں،  تو وہ قصور وار ہیں اگر تمہاری تربیت و تعلیم کے باوجود یہ حرکت کریں،  ورنہ تم خود گناہ گار ہو اگر تم نے اپنے بچوں اور مملوکوں کو یہ تہذیب نہیں سکھائی۔

۹۰:  یہ وجہ ہے اس اجازت عام کی جو تین اوقات مذکورہ کے سوا دوسرے تمام اوقات میں بچوں اور مملوکوں کو بلا اجازت آنے کے لیے دی گئی ہے۔ اس سے اصول فقہ کے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ شریعت کے احکام مصلحت پر مبنی ہیں،  اور ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے،  خواہ وہ بیان کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔

۹۱:  یعنی بالغ ہو جائیں۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائی ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی،  امام باویوسف،  امام محمد، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں ۱۵ برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں ۱۷ برس کی لڑکی اور ۱۸ برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلیہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں،  لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ ۱۵ یا ۱۸ برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں،  اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو نما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے  شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق اوسط نکال لیا جائے،  اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے مُعتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم ۱۲ اور زیادہ سے زیادہ ۱۵ برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے یے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں۔

 ۱۵ برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے،  اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں ۱۴ سال کا تھا جب غزوۂ  خندق کے موقع پر،  جبکہ میں ۱۵ سال کا تھا،  مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی (صحاح ستہ و مسند احمد)۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال ۳ ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال ۵ ھ میں اور بقول ابن سعد ذی اسعدہ ۵ میں پیش آیا۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر ۱۴ سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف ۱۵ سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ۱۲ سال ۱۱ مہینے کی عمر کو ۱۴ سال، اور ۱۵ برس ۱۱ مہینے کی عمر کا ۱۵ سال کہہ دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ  ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکتے۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے ۱۵ برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے،  کوئی منصوص حکم نہیں ہے۔

۹۲:  اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،  یعنی ’’عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں ‘‘  یا ’’بیٹھی ہوئی عورتیں ‘‘۔ اس سے مراد ہے سن یاس، یعنی عورت کا س عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے،  اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے۔

۹۳:  اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثَیَابَھُنَّ،  ’’ اپنے کپڑے اتار دیں ‘‘۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سورۂ احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْھِنَّ میں دیا گیا تھا۔

۹۴:  اصل الفاظ ہیں غَیرَمُتَبَرِّ جٰتٍ م  بِزِیْنَۃٍ،  ’’ سینت کے ساتھ تَبرُّج کرنے والی نہ ہوں ‘‘۔ تَبَرُّج کے معنی ہیں اظہار و نمائش کے۔ بارج اس کھلی کشتی یا جہاز کو کہتے ہیں جس پر چھت نہ ہو۔ اسی معنی میں عورت کے لیے یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کہ وہ مردوں کے سامنے اپنے حسن اور اپنی آرائش کا اظہار کرے۔ پو آیت کا مطلب یہ ہے کہ چدر اتار دینے کی یہ اجازت ان بوڑھی عورتوں کو دی جا رہی ہے جن کے نادر بن ٹھن کر رہنے کا شوق باقی نہ رہا ہو اور جن کے صنفی جذبات سرد پڑ چکے ہوں۔ لیکن اگر اس آگ میں کوئی چنگاری ابھی باقی ہو اور وہ نمائش زینت کی شکل اختیار کر رہی ہو تو پھر س اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

۹۵:  اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے،  اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے،  اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کی اخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا س کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے،  حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو،  وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے،  وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے،  اس کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی،  تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے،  یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔

 جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گئے ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔

دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو۔

۹۶:  قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھائے۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے،  جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے،  حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے۔

۹۷ مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسُولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ ۹۸ جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسُولؐ کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں ۹۹ تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو ۱۰۰ اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دُعائے مغفرت کیا کرو، ۱۰۱ اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے۔
مسلمانو، اپنے درمیان رسُولؐ کے بُلانے کو آپس میں ایک دُوسرے کا سا بُلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ ۱۰۲ اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دُوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چُپکے سے سَٹک جاتے ہیں۔ ۱۰۳ رسُولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں ۱۰۴ یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے۔ خبردار رہو، آسمان و زمین جو کچھ  ہے اللہ کا ہے۔ تم جس روِش پر بھی ہو اللہ اُس کو جانتا ہے۔ جس روز تم اُس کی طرف پلٹو گے وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کر کے آئے ہو۔ وہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔ ؏ ۹

۹۷:  یہ آخری ہدایات ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کا نظم و ضبط پہلے سے زیادہ کَس دینے کے لیے دی جا رہی ہیں۔

۹۸:  یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جائے،  قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا،  بہر حال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں۔

۹۹:  اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سرے سے ہی نا جائز ہے۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو۔

۱۰۰:  یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی،  اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے ہ اجازت نہ دے،  اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔

۱۰۱:  اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے،  ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے۔

۱۰۲:  اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بُلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلا نا یا دُعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی۔ ن مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں :

 اول یہ کہ ’’ رسول کے بُلانے کو عام آدمیوں کیں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو‘‘  یعنی رسول کا بلاوا غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے،  لیکن رسول بلائے اور تم  نہ جاؤ،  یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے۔

دوم یہ کہ ’’ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو‘‘  وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں،  اور ناراض ہو کر بد دعا دے دین تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں۔

 سوم یہ کہ ’’ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ‘‘۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکارا کرو۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے،  کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی۔ یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں،  لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے۔

۱۰۳:  یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں،  کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں،  لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں۔

۱۰۴:  امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ’’ظالموں کا تسلط‘‘  لیا ہے۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے۔ ہر حال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں،  اخلاقی زوال،  نظام جماعت کی پراگندگی،  داخلی انتشار،  سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


[1] روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے،  اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں،  اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ’’ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۱‘‘ )

[2] سورہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے خود اس کا یہ قول نقل فرمایا ہے

[3] اس قرعہ اندازی  کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی۔ در اصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود کسی کو انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی،  اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی سورتوں کے لیے ہے جب کہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو، اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جا سکتا ہو۔

[4]  ابوداؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے۔ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے،  دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری کو میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے نماز ادا کر لیا کرو۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی ہے۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں

[5] غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے نام لینے کے بجائے سید اوس کے الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے کسی راوی نے اس سے مراد حضرت معاذ کو سمجھ لیا، کیونکہ اپنی زندگی میں وہی قبیلہ اوس کے سردار تھے اور تاریخ میں وہی اس حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ حالانکہ در اصل اس واقعہ کے وقت ان کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر اوس کے سردار تھے )

[6] حضرت سعد بن عبادہ اگرچہ نہایت صالح اور مخلص مسلمانوں میں سے تھے،  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے،  اور مدینے میں جن لوگوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا تھا ان میں ایک نمایاں شخص وہ بھی تھے،  لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود ان کے اندر قومی حمیت [اور عرب میں اس وقت قوم کے معنی قبیلے کے تھے ] بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے عبداللہ بن ابی کی پشت پناہی کی، کیونکہ وہ ان کے قبیلے کا آدمی تھا۔ اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’ الیوم یوم الملحمہ، الیوم تستحل الحرمہ ’’آج کشت و خون کا دن ہے۔ آج یہاں کی حرمت حلال کی جائے گی‘‘،  اور اس پر عتاب فرما کر حضورؐ نے ان سے لشکر کا جھنڈا واپس لے لیا۔ پھر آخر کار یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حضورؐ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں یہ دعویٰ کیا کہ خلافت انصار کا حق ہے،  اور جب ان کی بات نہ چلی اور انصار و مہاجرین سب نے حضرت بوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو تنہا وہی ایک تھے جنہوں نے بیعت سے انکار کر دیا اور مرتے دم تک قریشی خلیفہ کی خلافت تسلیم نہ کی [ملاحظہ ہو الاصابہ لابن حجر، اور الاستیعاب لا بن بعدالبر، ذکر سعد بن عبادہ۔ صفحہ۱۰۔ ۱۱])

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *